آج کل مذاکرات کی باتیں ہو رہی ہیں، کچھ حلقوں کا اصرارہے کہ یہ مذاکرات تحریک انصاف اور فیصلہ کرنے والی قوتوں کے درمیان ہونا ہیں، یا ہو رہے ہیں جبکہ تحریک انصاف کے رہنما اور مقتدرہ قوتیں ایسے کسی بھی مذاکرات کر تردید کرر ہی ہیں۔ تحریک انصاف موجودہ حکومت کے وجود کو ہی تسلیم کرنے سے انکاری ہے، اس کا کہنا ہے کہ اصل مذاکرات فیصلے کرنے والوں سے ہی ہو سکتے ہیں ۔ میڈیا رپورٹس میں یہ سنا جا رہا ہے کہ چند اہم شخصیات بانی تحریک انصاف اوراسٹیبلشمنٹ کے درمیان معاملات کو سلجھانے کے لیے سوچ بچار کر رہی ہیں۔ اس کے لیے ایک گروپ نہ صرف سابق وزیراعظم اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بڑھتی کشیدگی کا معاملہ حل کرنے کیلئے حکمت عملی تیار کرنے کیلئے سوچ بچار کر رہاہے بلکہ سیاسی جماعتوں کے درمیان بھی دشمنی اور نفرت کی سیاست کا خاتمہ چاہتا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اس گروپ کیلئے سب سے بڑا چیلنج یہ ہو گا کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان خلیج کوکیونکر ختم کیا جائے اور عمران خان اور دوسری سیاسی جماعتوں کو کیسے ایک ساتھ بٹھایا جائے۔؟ اس حوالے سے ممکنہ طور پر ایک دو مہینوں میں کوئی نتیجہ نکل سکتا ہے یعنی اس بات کا تعین ہو جائے گا کہ آیا اسٹیبلشمنٹ عمران خان سے بات کرنے کے لیے تیار ہو گی یا نہیں۔ اسٹیبلشمنٹ اگرچہ ملک میں کئی چیزوں کی ذمہ دار ہے لیکن غلطی ہمارے سیاستدانوں کی بھی ہے ۔ یہ اقتدار حاصل کرنے کے لیے کچھ بھی کر گزرنے کو تیار رہتے ہیں۔ تبھی ہمارے ہاںبوٹ پالش یا ’’حاضری‘‘ جیسی اصطلاحات مشہور ہیں اور یہ سیاستدانوں کے لیے ہی استعمال کی جاتی ہیں۔ مقتدرہ کی اس بات میں کافی حد تک سچائی ہے کہ ہم ان کو نہیں بلاتے یہ خود آتے ہیں۔ پھر جب تک ہمیں اس طرح کے سیاستدان ملتے رہیں گے، جو چور دروازوں سے اقتدار میں آتے ہیں وہ کیسے ملک کی بھلائی کے لیے کام کر سکتے ہیں؟ اسی لیے تحریک انصاف کا بھی اس وقت سب سے بڑا مطالبہ یہی ہے کہ وہ سیاستدانوں سے مذاکرات کیوں کرے جو خود قابل اعتبار نہیں ہیں، اور یہ بات تحریک انصاف کی بڑی حد تک درست بھی ہے کہ چورآپ کے گھر چوری کرکے آپ کے سامنے کھڑا ہو اور کہے کہ آئو بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔ توکیسا لگے گا۔مجھے تو لگ رہا ہے کہ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ مقتدرہ دونوں مخالف فریق سے بنائے رکھناچاہتی ہے۔ جو سیاستدان چور راستوں سے اقتدار میں آتے ہیں، وہ کیسے امریکا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکتے ہیں؟ کیسے انڈیا سے بات چیت کر سکتے ہیں؟ کیسے طالبان کا راستہ روک سکتے ہیں؟ کیسے دہشت گردوں کا خاتمہ کر سکتے ہیں؟ کیسے آئی ایم ایف کے سامنے ملکی مفاد میں بات کر سکتے ہیں، کیسے کشمیریوں یا فلسطینیوں کی بات کر سکتے ہیں؟ کیسے قوم کو لیڈ کرسکتے ہیں؟کیسے اُن کی نمائندگی کرتے ہوئے دنیا سے لڑ سکتے ہیں؟ ظاہر ہے جو عوام کا جوابدہ ہی نہیں ہوگا وہ کیسے قوم کے حق میں بہتر فیصلے کر سکتا ہے؟ تبھی امریکا، انڈیا اوریہاں جیلوں میں موجود ملک کی سب سے بڑی پارٹی کی قیادت بھی یہی سمجھتے ہیں کہ ان کے اختیار میں کچھ نہیں ہے، اصل قوت ان کے پیچھے کسی اور کی ہے۔ پھر یہ سب چیزیں اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہیں،موجودہ حکومت نے تو کسی تیسرے درجے کے ملک کا بھی دورہ کرنا ہوتا ہے تو اُس کے لیے وہ ’’اعلیٰ سطحی ‘‘ مشاورت کرتے ہیں، بلکہ اُتنا ہی بولتے ہیں جتنا ان کو کہا جاتا ہے۔ اس پر مجھے ایک قصہ یاد آگیا کہ ایک نوجوان سے کسی لڑکی نے پہلی مرتبہ ملاقات کی ہامی بھری تو نوجوان نے اپنے جہاندیدہ ’’ایکسپرٹ‘‘ دوست سے مشورہ کیا کہ اسے ’’ڈیٹ ‘‘ پر کیا کرنا چاہیے۔ دوست نے جواب دیا کہ اسمارٹ عورتیں عموماً تین موضوعات پر گفتگو کرنا پسند کرتی ہیں، اپنے کھانے کی پسند نا پسند کے بارے میں، گھر والوں کے متعلق اور فلسفہ۔ نوجوان نے یہ بات پلے سے باندھ لی اور اگلے روز ملاقات کیلئے لڑکی کے پاس پہنچ گیا۔ تھوڑی دیر تک دونوں چْپ چاپ بیٹھے ایک دوسرے کو تکتے رہے۔ پھر لڑکے نے پوچھا ’’کیا تمہیں آلو کے قتلے پسند ہیں؟‘‘ لڑکی نے جواب دیا ’’نہیں۔‘‘ لڑکا خاموش ہو گیا، چند لمحے بعد اُس نے دوبارہ پوچھا ’’کیا تمہارا کوئی بھائی ہے؟‘‘ لڑکی نے کہا ’’نہیں۔‘‘ کچھ سوچنے کے بعد بالآخر لڑکے نے آخری پتہ پھینکا۔ ’’اچھا، اگر تمہارا کوئی بھائی ہوتا تو کیا اسے آلو کے قتلے پسند ہوتے؟‘‘ جو مشکل اس نوجوان کو پیش آئی وہی اس وقت موجودہ حکومت کو آتی ہے، تبھی یہ حساس ترین دوروں اور ملاقاتوں میں آئیں، بائیں ، شائیں کر کے آجاتے ہیں۔ بہر حا ل ہماری جمہوریت کی واٹ نہیں لگنی چاہیے اور سب سے اہم ہمارا وزیر اعظم کٹھ پتلی نہیں بلکہ اصل وزیر اعظم لگنا چاہیے جو اپنے فیصلوں میں خود مختار ہو۔ تب ہی اس کے پاس تحریک انصاف بھی آئے گی، امریکا بھی من مانیاں نہیں کرے گا اور انڈیا میں مذاکرات کی ٹیبل پر آئے گااور ساتھ ساتھ طالبان کو بھی اپنے وعدوں کا پاس رہے گا۔ اس لیے وزیر اعظم کی سیٹ کی خدارا بے توقیری نہ کریں! مذاکرات کریں،معاملات کو سلجھائیں اور عوام جنہیں چاہتی ہے اقتدار ان کے پاس ہو۔ اللہ اللہ خیر صلا! دوسری جانب تحریک انصاف سے بھی گزارش ہے کہ وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے مطالبات کو مرحلہ وار سامنے رکھے۔ ، سیاسی پارٹیوں کو اس بات پر قائل کرے کہ آئین کے مطابق ہر ادارے کو اپنے اپنے دائرہ اختیار میں رہ کر کام کرنے کے لیے سیاستدانوں کا مل بیٹھنا لازم ہے۔ اگر وہ یہ کام کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو اس میں یقینا اسی کی جیت ہوگی،مقتدرہ کو چاہیے کہ ان سیاستدانوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیں، یہ لڑیں گے، مریں گے، لیکن ایک دن آئے گا جب یہ میچور ہو جائیں گے اور پھر ایک دوسرے کے مینڈیٹ کا احترام بھی کرنا شروع کر دیں گے!