پاکستان سمیت دنیا بھر میں ثقافتی ورثہ کے تحفظ کا عالمی دن ’’ورلڈ ہیریٹج ڈے‘‘ منایا گیا۔ اس دن کے حوالے سے جھوک سرائیکی میں تقریب منعقد ہوئی جس میں مقررین نے کہا کہ پوری دنیا میں موجود آثار کو بچانے کی ضرورت ہے، اس کے ساتھ ساتھ وسیب جو کہ قدیم ترین تہذیب کا خطہ ہے، کے آثار کی طرف توجہ کی ضرورت ہے، ملتان جس کا دنیا کے قدیم ترین شہروں میں شمار ہوتا ہے کا کوئی میوزیم نہ تھا، اب مطالبات کے بعد میوزیم کی عمارت تو بن گئی ہے مگر اسے فنکشنل کرنے کی ضرورت ہے، مقررین نے یہ بھی کہا کہ اس دن کے منانے کا مقصد دنیا بھر کی مختلف قدیم تہذیبوں، ان کی ثقافت، ورثے اور آثار قدیمہ کو محفوظ کرنا اور ان کے متعلق آگاہی فراہم کرنا ہے، ثقافتی ورثے کے عالمی دن کے موقع پر ملک بھر میں بھی سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر تقریبات کا اہتمام ہونا چاہئے جو کہ نہیں ہوتا، یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ پاکستان بھر میں سینکڑوں کی تعداد میں تاریخ مقامات ہیں، جن میں قلعے، مذہبی عبادت گاہوں کے ساتھ ساتھ کئی تاریخی عمارات بھی موجود ہیں جو یہاں کی تاریخ کی عکاسی کرتی ہیں۔ کسی بھی یونیورسٹی کے قیام کا مقصد مقامی زبان، ثقافت اور اُس کے آثار پر تحقیق ہوتا ہے، پاکستان کی یونیورسٹیوں نے ابھی تک اپنی ذمہ داری صحیح معنوں میں پوری نہیں کی۔ وسیب کی یونیورسٹیوں کو جتنا کام کرنا چاہئے تھا وہ بھی تحقیق کے شعبے میں ابھی تک پیچھے ہیں، اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر اطہر محبوب نے چولستان سرائیکی ریسرچ سنٹر کی منظوری دی تھی، اُن کے جانے کے بعد یہ کام ابھی تک جوں کا توں ہے، گورنر میاں بلیغ الرحمن کا تعلق وسیب سے ہے اور اُن کی مدت بھی تھوڑی رہ گئی ہے، ملاقاتوں کے دوران میں نے اُن کی توجہ چولستان سرائیکی ریسرچ سنٹر کی طرف مبذول کرائی مگر ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی، میں نے گورنر کو سرائیکی ادبی مجلس رجسٹرڈ بہاولپور کی بحالی اور خان پور کیڈٹ کالج کے بارے میں بھی بتایا وعدے ہوئے مگر ابھی تک ان وعدوں کی تکمیل کا وقت نہیں آیا، میں نے گورنر کو یہ بھی بتایا کہ آپ کے بزرگوں نے قرآن مجید کا سرائیکی ترجمہ شائع کیا تھا اور دیوان فرید بھی ترجمہ اور شرح کے ساتھ آپ کے بزرگوں نے شائع کیا، اگر حکومت ان کو دوبارہ چھاپ دے تو کتنا اچھا ہے، گورنر صاحب نے کہا کہ ایسا ضرور ہو گا مگر آج تک اس کی نوبت نہیں آئی، افسوس ہوتا ہے کہ گورنر صاحب کے دور میں وسیب کا کوئی کام نہیں ہوا۔ حکومت کی طرف سے چولستان کے علاقہ گنویری والا میں کھدائی کا کام شروع ہوا ہے مگر کھدائی سے ملنے والا ملبہ لاہور جا رہا ہے، جو کہ غلط ہے، اسے بہاولپو رمیوزیم کا حصہ بنانا چاہئے، گنویری والا کی کھدائی میں کرپشن کے ایشوز بھی سامنے آئے ہیں، جس پر تحقیقات کی ضرورت ہے، عجب بات یہ ہے کہ تحقیقی اداروں کے بارے میں بھی ’’تحقیقات‘‘ کی نوبت اور ضرورت پیش آتی ہے، اب وقت آگیا ہے کہ ملک و قوم کے بہترین مفاد میں کام ہونا چاہئے۔ وسیب کے لوگوں نے چولستان سے بہت محبت کی ہے، چولستان وسیب کے لئے روح کی رانی ہے، خواجہ فرید نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ چولستان میں گزارہ ہے اور خواجہ فرید کی شاعری نے چولستان کو امر کر دیا ہے، بلا شبہ چولستان پر صدق دل سے کام کی ضرورت ہے۔ چولستان تہذیب و ثقافت کا بہت بڑا مرکز ہے، اس صحرا میں معروف آرکالوجسٹ ڈاکٹر رفیق مغل کی تحقیق کے مطابق سینکڑوں قدیم آبادیاں دریافت ہوئی ہیں، جو تین سے چار ہزار قبل مسیح پرانی ہیں، چولستان میں قلعہ ڈیر آور سمیت آثار قدیمہ کی بہت سی نشانیاں موجود ہیں، اُن کو محفوظ کرنے کی بجائے چولستان کو شکاریوں کے حوالے کر دیا گیا ہے، پاکستان کے بگڑے شکاری شہزادوں کے ساتھ ساتھ عرب شہزادوں نے بھی چولستان کا ستیا ناس کر دیا ہے، آثار کے ساتھ ساتھ چولستان کے نباتات، لانڑاں، کھپ، کرہائیں، جنڈھ، ڈوڈھک، لونگ، اِٹ سٹ، گندی بوٹی، گھوڑے وال، لانی، کھار، گھوپلی، پتوکڑ، چھپڑی، بکھڑا، گورکھ، پان، جال، بوٹا بوٹی اور اس طرح کی دیگر نباتات پر بھی تحقیق و ریسرچ کی ضرورت ہے، مگر چولستان سمیت پورا وسیب حکمرانوں کی بے توجہی کا شکار ہے۔ چولستان میں جیپ ریلیاں کرائی جا رہی ہیں مگر چولستان کے آثار کو نہیں بچایا جا رہا، رحیم یار خان میں پتن منارا کا شمار دنیا کے بہترین میناروں میں ہوتا ہے، اس طرف کوئی توجہ نہیں ہے۔ صادق گڑھ پیلس دنیا کی بہترین عمارت ہے مگر والیان ریاست کی خاندانی چبلقش اور حکومتی بے توجہی کا شکار ہے، چولستان ایک صحر انگیز سرزمین ہے جو کہ دیکھنے والوں کو حیرت میں ڈال دیتی ہے، یہ بہترین سیاحتی مرکز بن سکتا ہے مگر حکومت کی اس طرف کوئی توجہ نہیں ہے۔ چولستان میں اس وقت29چھوٹے و بڑے قلعے ہیں مگر سب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اور اپنے اندر پراسرار کہانیاں و روز سموئے ہوئے ہیں۔چولستان میں واقع قلعوں کے نام1قلعہ پھلڑافورٹ عباس،2 قلعہ مروٹ،3قلعہ جام گڑھ مروٹ،4 قلعہ موج گڑھ مروٹ،5 قلعہ مبارک پور چشتیاں،6قلعہ فتح گڑھ امروکہ بہاولنگر،7قلعہ میر گڑھ مروٹ،8قلعہ خیرگڑھ،9قلعہ بہاول گڑھ،10قلعہ سردار گڑھ ولہر،11قلعہ مچھلی،12قلعہ قائم پور،13قلعہ مرید والا،14قلعہ دراوڑ،15قلعہ چانڈہ کھانڈہ،16قلعہ خانگڑھ،17قلعہ رکن پور،18قلعہ لیاراصادق آباد،19قلعہ کنڈیر اصادق آباد،20قلعہ سیوراہی صادق آباد،21قلعہ صاحب گڑھ رحیم یارخان،22قلعہ ونجھروٹ،23قلعہ دھویں،24قلعہ دین گڑھ،25قلعہ اوچ،26قلعہ تاج گڑھ رحیم یارخان،27قلعہ اسلام گڑھ رحیم یار خان،28قلعہ مؤمبارک رحیم یار خان(29)قلعہ ٹبہ جیجل حاصل ساڑھو بہاولنگرمیں ہیں۔اس کے علاوہ بے شمار تاریخی عمارتیں، محلات، اور خانقاہیں بھی چولستان سمیت ریاست بہاولپور میں موجود ہیں۔ قلعہ دراوڑ کے مقام پر 4 صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مزارات بھی موجود ہیں۔