رات آج ہی کی تھی،وقت تھا سوا آٹھ بجے کا، سال انیس سو اٹھہتر،یعنی یہ کہانی ہے چالیس سال پرانی۔ مقام تھا لاہورکوٹ لکھپت جیل، وحشت کا کھیل کھیلنے کیلئے جیل کی دیوڑھی(دالان) منتخب کی گئی، وہاں تماشائیوں کیلئے کرسیاں بھی سجی ہوئی تھیں، اس رات تیز کالی آندھی بھی چلی،مگر تماشہ ملتوی نہ کیا گیا تھا، یہ حکم تھا پاکستان کے ڈکٹیٹر اعظم کا جسے ٹالا نہیں جا سکتا تھا، اور جو اس تماشہ کو دیکھنے آئے تھے، انہیں تماشہ دکھائے بغیر واپس نہیں بھجوایا جا سکتا تھا ۔ انیس سو ستتر میں ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ الٹ کر مارشل لا لگا دیا گیا تھا، بھٹو گرفتار کر لئے گئے، اس کے ساتھ آمریت نے جو سب سے بڑا اقدام کیا وہ تھا پورے ملک میں اخبارات اور جرائد پر سخت سنسر شپ، درجنوں اخبارات اور رسائل بند کردئیے گئے، سیکڑوں صحافی اور اخباری کارکن بے روزگار ہوگئے، گھروں میں نوبت فاقوں تک آگئی، بچوں کا اسکولوں میں جانا بند ہو گیا، صحافی گلی محلوں کے دکانداروں کے مقروض ہوگئے، اس زمانے میں کسی صحافی کا ذاتی مکان ہونا بہت بڑی بات تھی، کرائے دار صحافیوں کو گھروں سے بے دخل کیا جانے لگا، کراچی میں اس دوران ایک بڑا سانحہ رونما ہوا، روزنامہ مساوات کراچی کے ایڈیٹر ممتاز کالمسٹ اور مزاح نگار ابراہیم جلیس بے روزگاری کے دوران دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے۔ وہ پی آئی بی کالونی میں کرائے کے گھر میں رہتے تھے اور ان کے بچے زیر تعلیم تھے، صورتحال اتنی سنگین ہو گئی کہ صحافیوں کی ملک گیر نمائندہ تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کو میدان میں اترنا پڑا، دیگر بے شمارصحافتی اداروں کے ساتھ جو بڑے اخباری ادارے معتوب ہوئے ان میں لاہور، کراچی اور فیصل آباد سے شائع ہونے والا اردو روزنامہ، مساوات کراچی سے چھپنے والا سندھی اخبار۔۔ہلال پاکستان، ہفت روزہ نصرت،روزنامہ امن کراچی، روزنامہ صداقت،نیو ٹائمز ،کراچی سے شائع ہونے والا ہفت روزہ الفتح اور معیار بھی شامل تھے، ان اخبارات کے پریس بھی سیل کر دیے گئے تھے،بے روزگار ہونے والے صحافیوں اور اخباری کارکنوں کی تعداد کئی سو تھی۔ لاہور میں منہاج برنا صاحب کی صدارت میں اجلاس ہوا اور مارشل لا سے ٹکرا جانے کے عزم کا اظہار کیا گیا، پہلا احتجاج تین دسمبر انیس سو ستتر کو کراچی پریس کلب میں ہوا،رضاکارانہ گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کیا گیا، ابھی تیس صحافی ہی پابند سلاسل ہوئے تھے کہ حکومت نے گھٹنے ٹیک دئیے،چار دن بعد ہی صحافیوں کے تمام مطالبات مان لئے گئے، تیس گرفتارصحافی رہا ہوگئے مگر یہ ایک چال تھی، صحافتی تنظیموں کے اندر سے چند کالی بھیڑوں کو جمع کیا گیا، صحافیوں کے اتحاد کو توڑا گیا اوردوبارہ پورے ملک میں آزادی صحافت کیخلاف بڑا کریک ڈاؤن کردیا گیا،اب پی ایف یو جے پھر نئے عزم کے ساتھ میدان میں اتری اور اس طرح لاہور میں وہ تاریخی تحریک چلی جسے احفاظ الرحمان صاحب نے سب سے بڑی جنگ کا نام دیا ہے۔ روزانہ رضاکارانہ گرفتاریاں دینے کیلئے گلستان سینما چوک کا انتخاب کیا گیا، اس چوک کے ایک کونے پر لاہور ہوٹل اور دوسرے پر پنجاب اسمبلی ہے،اسی چوک کے دائیں بائیں سینما گھروں کا جال بچھا ہوا تھا، تین بجے والا شو شام چھ بجے ٹوٹتا تو ہم وہاں پہنچ جاتے، اتنے زیادہ رش میں پولیس والے یہ سمجھ ہی نہ پاتے کہ آج گرفتاری کس کس نے دینی ہے، لاہور میں تحریک آزادی صحافت کا یہ سلسلہ گیارہ مارچ کو شروع ہواجو تین ماہ سے زیادہ عرصہ تک چلا، اسی دوران صحافیوں کے ساتھ وکلا طلبہ،مزدور رہنماؤں،خواتین اور سیاسی ورکرز نے بھی گرفتاریاں دینے کیلئے اپنے نام لکھوانا شروع کر دیے، تحریک زور پکڑتی گئی۔ بڑے بڑے نام والے صحافی بھی جیل پہنچ گئے تھے اورانہیں سزائیں بھی سنا دی گئی تھیں، ان بڑوں میں منہاج برنا، نثار عثمانی، سید بدر الدین، میرجمیل الرحمان اور بابا ظہیر کاشمیری بھی شامل تھے، پولیس صحافیوں کو گرفتار کرکے ایک رات تھانہ سول لائینز میں رکھتی، پھر ماشل لا عدالت میں پیش کیا جاتا، جیلیں بھرنے لگی تھیں، لاہور میں سزا یافتہ صحافیوں کی تعداد بڑھ گئی تو انہیں پنجاب کی دوسری جیلوں میں بھجوایا جانے لگا۔ اس تحریک میں اتنی شدت پیدا ہوگئی کہ مارشل لائیوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی اور وہ اس کے خاتمے کی سازشیں تیار کرنے لگے، مگران کی کوئی تدبیر کارگر ثابت نہ ہو رہی تھی، پھر گرفتاری دینے کے لئے ہماری باری بھی آ گئی، نو مئی کی اس شام بہت گرمی تھی، لو چل رہی تھی، گلستان چوک میں نظر آنے والے ہر شخص کے کپڑے پسینے سے شرابور تھے، میں نہیں جانتا تھا کہ میرے ساتھ اور کون کون گرفتار ہونے والا ہے، انتظامی کمیٹی اور اعلی قیادت کے سوا کسی کو بھی گرفتاری دینے والوں کے ناموں کا پتہ نہیں ہوتا تھا، دو نو عمر طالبات ہاتھوں میں گلاب کے پھول لئے میری جانب بڑھیں تو پولیس نے بھی ہلہ بول دیا، ہتھکڑیاں لگ جانے کے بعد پتہ چلا کہ مسعود اللہ خان، ناصر زیدی اور اقبال جعفری میرے رفیق ہیں، ہمیں اگلے دن ریمانڈ لے کرسنٹرل جیل منتقل کر دیا گیا، اور پھر ٹرائل شروع ہوا، ہمیں پولیس کی وین میں فوجی عدالت کے سامنے پیش کیا جاتا، عدالت اس جگہ تھی جہاں آجکل چلڈرن کمپلیکس ہے۔ پھر وہ تاریخی دن آگیا، تیرہ مئی جو آزادی صحافت کی علامت بنا۔ میں ناصر زیدی،اقبال جعفری اور مسعود اللہ خان صاحب اکٹھے ہتھکڑیوں میں جکڑے ہوئے تھے۔ اس دن قیامت کی گرمی تھی، ہمیں صبح نو بجے عدالت لایا گیا ، ہمارے بعد آنے والے قیدیوں کو تو پیش کیا جا رہا تھا مگر ہماری باری نہیں آ رہی تھی،کھایا بھی کچھ نہیں تھا، شام کے پانچ بجنے کو تھے جب ہمارا بلاوہ آیا، ہمارے میجر کے ساتھ بہت تاریخ ساز مکالمے ہوئے، ہمارے عدالت سے باہر نکلنے کے چار منٹ بعد میجر صاحب بھی گاڑی میں بیٹھ کر چلے گئے اور ان کے کمرے کو تالہ لگ گیا، سوچا اب پھر کل آنا پڑے گا، لیکن ہماری یہ غلط فہمی ایک پولیس والے نے دور کر دی۔ وہ بتا رہا تھا کہ تم چاروں کے بارے میں حکم ہے کہ یہیں رہوگے، عدالت دوبارہ لگے گی، عدالت کے سربراہ گورنر ہاؤس کسی میٹنگ میں گئے ہیں، ہم چاروں میں سے کسی نے بھی اس پر ردعمل ظاہر نہ کیا، ناصر زیدی(الفتح، ملتان) ان دنوں ایک بیماری سے لڑ رہے تھے،صحت مجھ سے بھی کمزور تھی، اقبال جعفری(سن کراچی) بہت موٹا تازہ تھا اور مسعود اللہ خان(پاکستان ٹائمز) ایک ٹانگ سے معذور۔رات کے سات بجنے والے تھے جب فوجی عدالت کے سربراہ کا دفتر دوبارہ کھلا ،اب ہمیں اندر نہیں بلوایا گیا، ایک عدالتی اہلکار کاغذ کا ٹکڑا ہاتھ میں لئے کمرے سے باہر آیا اور ہم چاروں کو کوڑوں، قید با مشقت اور جرمانے کی سزئیں سنا کر واپس چلا گیا۔ یہ صحافیوں اور ان کی تنظیم کے نام ایک پیغام تھا،ایک وارننگ تھی۔ ہم چاروں نے ان سزاؤں پر ردعمل نہیں دیا تھا، ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرائے ضرور تھے۔پولیس اہلکاروں نے جو خود بھی صبح سے کشٹ کاٹ رہے تھے ہمیں جلدی جلدی وین میں بٹھایا اور وین چل پڑی، ہمیں حیرت اس وقت ہوئی جب وین سنٹرل جیل کراس کرکے آگے بڑھ گئی، ایک پولیس اہلکار نے بتایا کہ اب تم ملزم نہیں مجرم ہو اور تمہارا اگلا اسٹیشن کوٹ لکھپت جیل ہے۔پولیس کی گاڑی جیل کے احاطے میں پہنچ کر رک گئی، ہمیں اتارا گیا اور جیل کے بہت بڑے گیٹ کے چھوٹے دروازے سے اندر پھینک دیا گیا۔ مگر یہ کیا؟ جیل کی دیوڑھی میں ٹکٹکی سجی ہوئی تھی،جانگیے پہنے ہوئے دو ہٹے کٹے پہلوان ہاتھوں میں چمڑے کے بڑے بڑے چھانٹے لئے کھڑے تھے، ہمیں جیل کے بیرونی گیٹ سے ملحقہ بہت ہی چھوٹے سے کمرے میں بٹھایا گیا، کاغذی کارروائیاں مکمل ہوئیں تو ناصر زیدی کو باہر بلوایا گیا ،چار منٹ بعد کوڑوں کی شائیں شائیں کی آوازیں بلند ہوئیں، ان سرسراتی آوازوں میں ہمارے ساتھی کی کوئی چیخ شامل نہ تھی، ہم جان چکے تھے کہ ناصر زیدی کو کوڑے مارے جا رہے ہیں، ہم خاموش تھے اور سوچ یہ رہے تھے اگلی باری کس کی ہے؟ مجھے یہ سوچ زیادہ پریشان کر رہی تھی کہ معذور مسعود اللہ خان یہ جسمانی اور روحانی ظلم سہہ پائیں گے؟ اب اگلی باری تھی اقبال جعفری کی، اس نے مسکرا کر ہمیں دیکھا اور ستم برداشت کرنے کیلئے حوصلہ وارانہ باہر نکل گیا۔ تیسری باری میری آئی، میں اس وقت بھی اپنی بجائے مسعود اللہ خان کے بارے میں سوچ رہا تھا، جیل کے دالان میں ٹکٹکی مقتل کی طرح سجی ہوئی تھی، کچھ فاصلے پرشاندار کرسیاں پڑی تھیں جن پر کئی وردی والے افسربیٹھے تھے۔ پہلے ایک ڈاکٹر نے میرا برائے نام طبی معائنہ کیا اور جیل کے سپرنٹنڈنٹ کو انگریزی میں بتایا ، یہ کوڑے برداشت نہیں کر سکے گا، جیل سپرنٹنڈنٹ نے اشارے سے کوئی جواب دیا تو ڈاکٹر مجھ سے مخاطب ہوا۔ ’’ سارے کپڑے اتاردو،انڈر ویر پہنا ہے تو وہ بھی‘‘ میں برہنہ تو کھڑا تھا مگر کوئی ندامت نہ تھی، مجھے ٹکٹکی پر باندھ دیا گیا، دونوں ہاتھوں اور دونوں پاؤں میں ہتھکڑیاں پہنا دی گئیں : میری پشت پر ذخموں پر رکھی جانے والی باریک سوراخ دار پٹی لپیٹی گئی اور پھر وہی شائیں شائیں اور دو پہلوانوں کے دور سے بھاگ کر مجھ تک پہنچنے کی آوازیں۔ کوڑے ختم ہوگئے تو مجھے دو آدمیوں نے ٹکٹکی سے اتار کر حکم دیا کہ اسٹریچر پر لیٹ جاؤ۔ میرے اس جواب پر کہ چل کر جاؤں گا، جیل سپرنٹنڈنٹ نے کان میں سرگوشی کی،اسٹریچر پر لیٹ جاؤ، ورنہ۔ میں بے ہوش ہونے تک مسعود اللہ خان کے بارے میں سوچتا رہا۔ ہوش میں آنے کے بعد بھی میرا پہلا سوال انہی کے بارے میں تھا۔ جب پتہ چلا کہ وہ بچ گئے تھے تو میرا کوڑوں کی سزا کا سارا درد جاتا رہا اللہ کرے یہ تیرہ مئی پھر کبھی صحافیوں پر نہ آئے۔