خواب ہمیشہ نیند کی صورت میں دیکھے جاتے ہیں۔ لیکن بعض اوقات انسان جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھنے لگتا ہے۔اس کا المیہ یہ ہوتا ہے کہ انسان اس خواب کو حقیقت سمجھ لیتا ہے اور اسکی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ وہ یہ خواب دیکھ رہا ہے اور اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیںہے۔ پاکستان اس وقت بہت پچیدہ دور سے گزر رہا ہے حکومت ڈیفالٹ سے بچ گئی ہے مگر عوام کا ڈیفالٹ ہو چکا ہے۔ اب جو صورتحال ہے اس میں یا عوام بچ سکتے ہیں یا حکومت جس کا سارا دارومدار اس وقت دو اشیا بجلی اور پیٹرول پر ہے۔ پیٹرول کی قیمت آئے دن بڑھ رہی ہے اور اس پر ٹیکسز کی بھی بہت بھرمار ہے ۔30دن میں پیٹرول کی قیمت 50روپے سے بڑھ چکی ہے۔ اگر یہی صورتحال رہی تو آنے والے دو ماہ میں پیٹرول کی قیمت 400تک جا سکتی ہے اور دوسری طرف بجلی نے لوگوں کو اس بات پہ مجبور کر دیا ہے کہ وہ کسی طرح پچھلی صدی میں چلے جائیں۔ اب عوام کے بس میں نہیں ہے کہ وہ 2023میں رہیں اگر وہ 1923میں چلے جاتے ہیں جب بجلی نہیں تھی تو ان کی زندگی سکون سے گزر سکتی ہے۔ میرے سامنے وہ ریہڑی بان ہے جس نے 232یونٹ استعمال کیے ہیں اور اس کے گھر میں نہ موٹر ہے پانی والی اورنہ فریج ۔صرف دو پیڈسٹل فین ہیں اور اس کا بل 10ہزار سے اوپر ہے ریہڑی بان مسلسل رو رہا تھا اور حکومت کو کوس رہا تھا اب اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ بل کس طرح ادا کرے ۔پہلے ہی وہ ہینڈ پمپ کے ذریعے پانی حاصل کرتا ہے۔ لگ یوں رہا ہے کہ اب ساری قوم کو ہینڈ پمپ کے دور میں جانا پڑے گا اور بلب کی روشنی کے بجائے دیے اور لالٹین پہ جانا ہوگا ۔اگر ان سردیوں کے چھ ماہ میں عوام بچ گئے توا نکی بچت ہے ورنہ اگلی گرمیوں میں کسی کے بچنے کا امکان نہیں رہے گا۔ میرے سامنے ایک گھر کابل ہے جنہوں نے صرف 122یونٹ ستعمال کیے ہیں بجلی کی قیمت 4600روپے ہے اور ان کا ٹوٹل بل اٹھ ہزار روپے ہے۔ اب دیکھ لیں کہ 4ہزار روپے کے مختلف قسم کے ٹیکسز ہیں اب تو اتنے زیادہ ٹیکسز لگتے ہیں کہ جو پہلا پرفارما ہے وہ کم ہو گیا ہے اس میں کوئی بھی چیز خالی نہیں رہی بلکہ ان کو مزید ایڈ کرنا پڑ رہا ہے۔ آٹامہنگا ہے، گھی مہنگا ہے، دوسری طرف چینی بھی 200روپے کلو کے قریب پہنچ چکی ہے اب خوراک کے بغیر تو انسان زندہ نہیں رہ سکتا لیکن بجلی کے بغیر زندہ رہ سکتا ہے ۔لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر عوام نے بجلی کا استعمال ترک کر دیا تو حکومت کی آمدنی کیا رہ جائے گی۔ اس وقت تو وہ صرف بجلی کے بلوں اور پٹرول کے ٹیکسوں پر چل رہی ہے ۔ہمارے معاشرے میں دیکھا گیا ہے کہ جب کوئی انسان دیوالیہ ہو جاتا ہے تو وہ ایک خود فریبی کی دنیا میں چلا جاتا ہے اور بڑے بڑے پروجیکٹ کی باتیں کرتا ہے اور بڑے خوش آئندہ مستقبل کی نوید سناتا ہے اس وقت ہمارے ارباب و اختیار کا بھی یہی حال ہے۔ ایک طرف تو وہ ڈیڑھ ارب ڈالر کی ایک قسظ کے لیے انہوں نے عوام کو ائی ایم ایف کے سامنے باندھ کے پھینک دیا ہے۔ اب بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں ڈیڑھ ارب ڈالر کے لیے بے تحاشہ اضافہ ہو رہا ہے تو دوسری طرف ہم ہیں25ارب ڈالر کے خواب دکھائے جا رہے ہیں کہ اب ان چار ملکوں سے ایک سو ارب ڈالر آجائے گا۔ ڈوبتی ہوئی جو کشتی ہوتی ہے اس میں سے لوگ اترتے ہیں ۔کوئی بھی ڈوبتی ہوئی کشتی میں سوار نہیں ہوتا ۔اس وقت پاکستان کی معیشت ڈوب رہی ہے اور کوئی احمق ہی ہوگا جو پاکستان میں سرمایہ کاری کا سوچے گا۔ پاکستان کا تو حال یہ ہے کہ جو حکمران تھے وہ جیسے ہی ا ان کی نوکری ختم ہوئی ہے وہ اگلے دن ہی لندن چلے گئے ہیں۔ اگر حکمران یہاں پہ ایک ہفتہ نہیں رہ سکتے تو دوسرے ملکوں سے لوگ کس طرح یہاں پہ روپیہ انویسٹ کر سکتے ہیں۔ملک کے بارے میں تو ملک چلانے والے جانے اب جہاں تک عوام کا تعلق ہے تو ان کو یہ جان لینا چاہیے کہ ان کی بقا صرف اس بات میں ہے کہ وہ کسی پرانے دور میں چلے جائیں ۔جہاں پہ نہ پیٹرول ہوں اور نہ بجلی تو اسی طریقے سے ان کی بقا ہے ورنہ اگر وہ پیٹرول اور بجلی کے بل دیتے رہے تو ان کے پاس کھانے پینے کے لیے کچھ بھی نہیں رہے گا۔ اس وقت جب ایک مزدور کی تنخواہ 30ہزار روپے ہے اور اس میں سے 10ہزار سے زائد وہ بجلی کا بل دے دیتا ہے اور اس کے بعد پانچ چھ ہزار روپیہ اس کا پیٹرول یا کرائے پہ خرچ ہو جاتا ہے تو اس کے پاس کھانے پینے کے لیے کچھ نہیں رہتا۔ اب جو بہت چھوٹے چھوٹے گھر ہیں ان میں یہ ٹرینڈ نظر آرہا ہے کہ لوگ کھانا خود نہیں بناتے بلکہ بازار سے ایک آدھ پلیٹ سالن لے آتے ہیں تاکہ چار چھ روٹیوں میں اس سے گزارا ہو سکے اب غریب آدمی میں یہ سکت نہیں ہے کہ وہ گیس کوکنگ ائل اور سبزی خرید سکے اس وقت 200سے کم میں کوئی سبزی نہیں ہے، کم از کم 500روپیہ لگتا ہے جس سے وہ سبزی یا دال پکا سکتا ہے ہر ہمارے ارباب و اختیار کا یہ حال ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ بجلی کے بل کوئی مسئلہ نہیں ہے ہاں ان لوگوں کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہے جو اپنا بل خود ادا نہیں کرتے جو بل ادا کرتا ہے اس کے لیے تو یہ زندگی موت کا سوال ہے۔ اب بہت سے شریف لوگ صرف بل کی وجہ سے ادھار مانگنے پہ مجبور ہوتے ہیں جس دن بل جمع کروانے کی اخری تاریخ ہوتی ہے ۔ سے زیادہ نصف سے زیادہ ملک پریشانی کے عالم میں پھر رہا ہے اب لوگوں کے لیے نہ آزادی کا مسئلہ ہے نہ جمہوریت ان کا مسئلہ ہے۔ اب ان کی بقا ہی ان کا مسئلہ ہے۔