وقت کی تعریف کیا ہیِ؟ ماہرین طبیعات وقت کوسانسوں کے پیمائشی نظام کا ایک جزوگردانتے ہیں، وقت رکا ہے نہ کبھی رکے گا۔وقت ہی قدرت، وقت ہی فطرت اور وقت ہی نظام ہستی،کوئی وقت کو تھام نہیں سکتا،کوئی وقت کو لگام نہیں ڈال سکتا،اور وقت کبھی لوٹ کرنہیںآتا۔وقت اتنا تیزرفتاراور بے رحم ہے کہ اسے پروا نہیں ہوتی، کون اس کے پاؤں تلے کچلا گیا، کون اس کے تعاقب میں رہا اور کون اس کا منتظر رہا۔ میں اس نظریے کو سو فیصد درست ہونے کے با وجود کبھی کبھی نہیں مانتا،میں نے بارہااس نظریہ کو باطل ہوتے دیکھاہے ، جی ہاں!کئی بار وقت کو ٹھہرے ہوئے دیکھاہے،جب اورجہاں وقت ٹھہرتا ہے، لگتا ہے وہ منظر دنیا کی آنکھ سے اوجھل ہو جاتا ہے۔یہ سب سمجھانے کیلئے مجھے آپ کو تھوڑی دیر کیلئے ماضی میں لے جانا پڑے گا ،اس ماضی میں جوحال میں ٹھہرجاتا ہے، حالانکہ میرے نزدیک حال کا کوئی وجود ہی نہیں، میں یہ مانتا ہوں کہ زمانے کی تین نہیں دو قسمیں ہیں،ایک ماضی دوسری مستقبل۔ ٭٭٭٭ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے دس،پندرہ برس بعد تک فلمی دنیا میں تین کامیڈینز ہوا کرتے تھے، جنہیں فلموں کی کامیابی کی ضمانت تصور کیا جاتا تھا۔ایک تھے نذرصاحب دوسرے ظریف صاحب اور تیسرے اے شاہ شکار پوری۔نذر صاحب کے بارے میں مشہور تھا کہ انہیں شادیاں کرنے کا بہت شوق ہے،جبکہ مصروفیت کا یہ عالم تھاکہ انہوں نے ایک ویگن خرید رکھی تھی،جس میں بستر سمیت ضرورت کی ہر شے موجود رہتی، دن ہو یا رات، تین تین چار چار فلموں کی شوٹنگز کرنا پڑتیں، اس فلمی مسخرے کو گھر جانے کا وقت نصیب نہیں ہوتا تھا، ظریف صاحب لاہورہوٹل کے عقب میں رہائش پذیر تھے ، انتہائی مصروف ہونے کے باوجود گھر ہی نہیں خاندان کیلئے بھی وقت نکال لیا کرتے تھے، رہے اے شاہ شکار پوری توانہوں نے سمن آباد این بلاک میں ایک شاندار مکان کرائے پر لے رکھا تھا، فیملی میں ایک عدد سیدھی سادی ان پڑھ بیوی اور ایک بیٹا تھا،،،ظریف صاحب کا انتقال ان کے چھوٹے بھائی منور ظریف کی طرح عالم شباب میں ہی ہوا، نذر صاحب جئے تو بہت سال مگر مرے کسمپرسی کی حالت میں، انہیں آخری بار شیخ زید اسپتال میں مستحق مریضوں کی قطارمیں بیٹھے ہوئے دیکھا تھا،اے شاہ شکار پوری اتنے مقبول کامیڈین تھے کہ درجنوں فلموں کی کہانیاں انہیں مد نظر رکھتے ہوئے لکھوائی گئیں ، جن میں انہوں نے ٹائٹل رولز کئے، ان میں سے مفت بر ، لائی لگ، اور چاچا خوامخواہ کے نام مجھے یاد ہیں ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب بڑے سے بڑے ایکٹر کا معاوضہ پانچ ہزار روپے سے زیادہ نہیں ہوتا تھا، بس صبیحہ ، سنتوش نے کامیاب ترین جوڑی بن جانے کے بعد ایک فلم میں کام کرنے کے پچیس ہزار روپے وصول کئے تھے اور وہ بھی قسطوں میں، فلم تھی ،مکھڑا،پھر وہ وقت آیا جب کوئی پروڈیوسر،ڈائریکٹر اے شاہ شکار پوری کو فلم میں سائن نہیں کرتا تھا،انہیں نظر انداز کیا جانے لگا تھا، کیونکہ وقت اور زمانہ بدل چکا تھا لہری، رنگیلا ،منور ظریف اور لہری کا زمانہ آ گیا تھا،اب فلمیں ان کے نام پر بکتی تھیں، بالکل اسی طرح جیسے وحید مراد کے آ جانے کے بعد درپن کا دورختم ہو گیا تھا اوراس کا خمیازہ نئیر سلطانہ کو بھی بھگتنا پڑا تھا۔ جب اے شاہ شکار پوری کو فلموں میں کام ملنا بالکل بند ہوگیا تو ان کے اکلوتے بیٹے امانت نے مزنگ بازار کے اختتام پر جہاں سمن آباد کا پہلا گول چکر آتا ہے، ڈور پتنگوں کی دکان کھول لی۔ اے شاہ شکار پوری دکان کے باہر کرسی پر بیٹھے نظر آتے ،اگر کوئی میرے جیسا ان کے پاس بیٹھ جاتا تو ان کا بیٹا ایک کپ چائے کیتلی میں منگواتا جس کے ساتھ دو خالی کپ آجاتے تھے، ڈور پتنگوں کا یہ کاروبار سال میں تین چار مہینے چلا کرتا ،باقی آٹھ مہینے دکان بند رہتی مگر کرایہ ادا کرنا پڑتا، دکانداری کے سیزن میں جب کوئی ایک دو شوقین پتنگ باز گاہک آجاتے تو شکار پوری صاحب وہ پیسے لے کرہانڈی روٹی کا سامان خریدتے اور واپس گھر لوٹ جاتے، وہ سمن آباد این بلاک والا شاندار کرائے کا مکان چھوڑ چکے تھے اورنواں مزنگ میں ڈیڑھ مرلے کے ایک کھولی ٹائپ مکان میں منتقل ہوگئے تھے۔اس گھر کا صرف ایک ڈبہ نما کمرہ تھا سنگل چارپائی رکھنے کے بعد دو تین آدمیوں کے بیٹھنے کی بمشکل گنجائش نکل آتی، یہی بوسیدہ سا کمرہ ان کا بیڈ روم اور یہی ڈرائنگ روم تھا، صحن کا یہ حال کہ وہاں بھی ایک چھوٹی چارپائی بچھ جائے تو دوسرا آدمی گزر بھی نہ سکے، ان دنوں میں کبھی ان کے گھر جاتا تو ان کی اہلیہ جو بیمار رہنے لگی تھیں چھوٹے سے بیرونی دروازے کے پیچھے چارپائی پر لیٹی ہوئی ملتیں، دروازہ کھولتیں اور پھر وہیں لیٹ جاتیں،اندر ڈبے نما کمرے میں جو جیل کی کوٹھری سے بھی چھوٹا تھا اے شاہ شکارپوری ہوتے، شدید ترین گرمی میں بھی کبھی پنکھا چلتے ہوئے نہیں دیکھا گیا تھا،اگر میں پوچھ لیتا کہ پنکھا کیوں بند ہے تو جواب ملتا،لائٹ نہیں ہے،، ٭٭٭٭ کوئی بیس برس پہلے رمضان المبارک کے ہی دن تھے، میں مصطفی قریشی صاحب کے گھر بیٹھا تھا، افطارمیں ابھی بہت وقت تھا،میں نے قریشی صاحب سے پوچھا، کیا آپ کو یاد ہے ماضی میں بھی سندھ دھرتی سے تعلق رکھنے والا ایک فنکار آپ ہی کی طرح بہت پاپولر رہا ہے؟ وہ متجسس ہوئے تو میں نے بتایا۔۔ وہ ہیں اے شاہ شکار پوری۔ بہت خستہ حال زندگی گزار رہے ہیں ۔ مصطفی قریشی اتنے بے تاب ہوئے کہ انہوں نے بھابی روبینہ کو بھی ساتھ لیا اور ہم گلبرگ سے نیا مزنگ کے بھٹو چوک سے اندر والی گلی تک پہنچ گئے، دروازہ اے شاہ صاحب کی بیوی نے ہی کھولا، میں آگے تھا، مصطفی قریشی میرے پیچھے اور بھابی روبینہ ان کے پیچھے، ایشاہ شکارپوری دھوتی اورکرتہ پہنے دیوار کی جانب منہ کئے کھڑے تھے، میں نے انہیں دھوتی اتار کر اسے پھر باندھتے ہوئے دیکھا، کمرے کے اندردوسرا قدم رکھا تو اے شاہ نے دوبارہ دھوتی اتار دی، میں نے تیسرا قدم نہ اٹھا یا تو مصطفی قریشی صاحب نے پوچھا، کیا ہوا؟ مجھے 1950ء میں بننے والی ہالی وڈ کی فلم،، سن سیٹ بلیوارڈ،، یاد آگئی جو خاموش فلموں کے دورکی ایک مقبول ترین ایکٹرس گلوریا سوانسن کے بڑھاپے کی کہانی تھی، اور ایک دن اپنے ماضی کی تلاش میں نگار خانوں میں جا پہنچی تھی،وہ ماضی میں زندہ تھی، اور ماضی کے نشان تک غائب ہو چکے تھے۔ایک توقف کے بعد میں نے قریشی صاحب کو جواب دیا،اے شاہ شکار پوری اس وقت شوٹنگ کیلئے سیٹ پر موجود ہیں اور لباس تبدیل کر رہے ہیں،، ٭٭٭٭ اے شکار پوری ستائیس سال پہلے انتقال کر گئے تھے، ان کی بیوہ نے بیٹے کی شادی سندھ کی ایک (باقی صفحہ13پر ملاحظہ کریں) رشتہ دار لڑکی سے کر دی،پھر بیماری کاٹتے کاٹتے وہ بڑھیا بھی کوچ کر گئیں،ان کا بیٹا چوکیداری جیسی ملازمتیں کرکے گھر چلاتا رہا، ایک بیٹی پیدا ہوئی، چار سال بعد اسے سرکاری اسکول میں داخل کرادیا گیا ،بچی جوان ہوگئی اوراسے کالج میں داخل کرانے کا وقت آیا تو امانت کی بینائی چلی گئی، وہی گلی، وہی ڈیڑھ مرلے کا مکان، کرایہ بھی اسی زمانے کا بندھا ہوا، مالک مکان خدا ترس ہے کرایہ بڑھاتا ہے نہ کوٹھری خالی کراتا ہے،میں ایک عرصے بعد چار دن پہلے اسی گلی میں گیا، وہی گلی جہاں ہر گھر کے دروازے کے باہر عورتیں اور بچے بیٹھے نظر آتے ہیں، کیونکہ کئی گھروں میں پنکھے ہی نہیں اگر ہیں تو چلاتے نہیں کیونکہ بجلی کے بل بھرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ میں نے دروازہ کھٹکھٹایا، کنڈی اس کی بیٹی نے کھولی،یہ بچی اپنی دادی والی چارپائی پر دروازے کے پیچھے لیٹی ہوئی تھی، پتہ چلا دو سال سے بیمار ہے، مرض کی تشخیص نہیں ہو رہی ، بڑے ڈاکٹروں تک پہنچنے کی ہمت نہیں، اندر ڈبہ نما کمرے میں اے شاہ شکار پوری کا بیٹا لیٹا تھا،جو بینائی سے محروم ہوچکا ہے، ایک خیراتی ادارے سے آنکھوں کا آپریشن کرایا مگر بینائی بحال نہ ہو سکی، امانت کی بیوی مصلے پر بیٹھی دعا مانگ رہی تھی، کمرے کا نہ بلب جل رہا تھا نہ پنکھا، میں نے اس اندھیرے میں ان لوگوں سے کوئی سوال نہ کیا،،، وہی کمرہ ہی تو تھا، اور یہ وہی کردارہی تو تھے،جنہیں میں تیس پنتیس سال پہلے ملا کرتا تھا ، وقت ٹھہرا ہوا تھا، زمانہ رکا ہوا تھا،واقعی،وقت بہت بڑا جادوگر ہے، جب چاہے کہیں بھی رک جائے ۔