بلدیاتی انتخابات کا مرحلہ،اگرچہ تاخیر سے مگر آن پہنچا ہے۔ اگلے سال کی پہلی سہ ماہی میں ان کا انعقاد سامنے کی بات ہے۔ اگر یہ کہیں کہ خود مختار صوبوں کی حکمران پارٹیاں اقتدارنچلی سطح پر منتقل کرنے میں مخلص ہیں تو اس میں ہرگز کوئی صداقت نہیں۔ کوشش کی گئی ہے کہ سرے سے انتخابات ہی نہ ہوں۔ اگر ہوں تو وسائل اور اختیارات صوبائی دارالحکومتوں میں ہی رہیں۔ نسل پرستی ایک وجہ ہے، اشرافیہ عوام دشمنی دوسری۔ آئین کی صوبوں کو سیاسی، مالی اور انتظامی طور پر خود مختار اور منتخب مقامی حکومتیں بنانے کے حوالے سے ہدایات واضح اور اٹل ہیں۔ سابقہ حکمران پارٹیاں، جنہوں نے آئین کی شق وار ترمیم کی تھی اورصوبوں کو فقیدالمثال خود مختاری دلائی تھی، انہوں نے پہلا کام ہی مقامی حکومتوں کا گلا دبانے کا کیا تھا۔ پارلیمانی انتخابات تو وقت پر کرائے گئے، اقتدار کی منتقلی کو پر امن بنانے کے لیے قانون سازی کی گئی لیکن تیسری سطح کا حکومتی نظام، جو بنیادی حقوق کی یقینی فراہمی کا موجب بن سکتا تھا، کی ضرورت تک محسوس نہ کی گئی۔ جب سپریم کورٹ کے حکم پر انتخابات کرائے گئے تو سارے اختیارات صوبوں نے اپنے پاس رکھ لیے اور لولی لنگڑی مقامی حکومتیں عوام کی منہ پر ماردی گئیں۔ صوبائی فنانس کمیشن بننے تھے لیکن اس حوالے سے کسی نے تکلیف تو کیا تکلف کرنے کی بھی ضرورت محسوس نہ کی۔نصف دہائی تک اشرافیہ نے جمہوریت کے معاملے کو اپنی ناک سے آگے نہیں دیکھا۔ دولت کا ارتکاز چند ہاتھوں میں ہوا، شہر بدانتظامی اور بدامنی کا شکار ہوئے، دیہاتوں پر غربت کے سائے منڈلا ئے، لوگوں کی صاف پانی تک رسائی دشوار ہوئی ، لیکن اشرافیائی جمہوریت کی رگِ حمیت نہیں پھڑ کی۔ ایک تو دور افتادہ خطوں کو اپنے حصے کی فنڈ نہ ملے، دوسرے تعلیم اور صحت جیسے اہم شعبوں کو نجی شعبے کے حوالے کردیا گیا۔ مقامی حکومتیں عالمی ترقیاتی اہداف (بلا تفریق لوگوں کے معیار زندگی میں بہتری، بھوک اور بیماری سے نجات) کی تکمیل میں کلیدی کردار اداکرسکتی تھیں لیکن ظاہر ہے احتساب کے خوف سے آزاد سیاسی قبیلے کے مفاد میں اختیارات و وسائل کی نچلی سطح پر منتقلی نہیں تھی ، تو یہ کام بھی ادھورا چھوڑدیا گیا۔ تحریک انصاف ، جس نے 2013 ء کے انتخابات کے بعد خیبر پختونخواہ میں حکومت بنائی تھی اور وہاں مقامی حکومتوں کا نظام تشکیل دیاتھا، 2018ء میں پنجاب اور مرکز کو اس نے فتح کیا تو وہاں وہ ایسا کرنے میں ناکام رہی۔ عمران خان نے جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے تحریک انصاف میں ادغام کے موقع پر کہا تھا کہ اگرچہ نئے صوبے بنانا مشکل کام ہے ، مقامی حکومتوں کے ذریعے محروم خطوں کی دلجوئی کرنا آسان ہے کیونکہ اس حوالے سے آئین کی ہدایات واضح ہیں۔ دیر آید، درست آید۔ حکومت نے الیکشن کمیشن کو اس حوالے سے فنڈ کی فراہمی کو الیکٹرانک مشینوں کے ذریعے ووٹنگ سے مشروط کردیا ہے اور پیپلز پارٹی کے نئی مردم شماری کے استدلال کو بھی تسلیم کر رہی ہے جس سے لگتا ہے کہ یہ دودھ تو دے گی لیکن مینگنیا ں ڈال کر ، لیکن اگر پنجاب ، خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں انتخابات کرادیے جاتے ہیں تو ان میں کوئی رکاوٹ نہیں۔ تاہم ایک مسئلہ اور ہے اور سمجھا جائے تو کافی تشویش کن۔ پچھلے تیرہ سالہ اشرافیائی جمہوریت نے سِول سوسائٹی کو ادھ موا کرکے رکھ دیا ہے۔ کمزور اور پسے ہوئے طبقات کے حق میں آواز بلند کرنے والی ہزاروں کی تعداد میںسماجی تنظیموں کے باہر سے فنڈ بند کردیے گئے تو یہ اپاہج ہوکر رہ گئیں۔ سیاسی پارٹیوں نے لیبر یونینز میں اپنے کارندے گھسائے اور ان کی قیادت کو انتخابی ٹکٹ دینے کے وعدے پر اپنے ساتھ ملا لیا۔ صحت ، تعلیم اور ماحولیات پرکام کرنے والی تنظیموں کا گلا سرمایہ داروں نے دبا دیا۔ رہی سہی امید فافِن سے تھی جو اس امر کا جائزہ لیتی تھی کہ کہیں سیاسی پارٹیاں ووٹروں کو دھمکی اور لالچ سے تو اپنے ساتھ نہیں ملا رہیں، لیکن اس تنظیم کا بھی کوئی حال نہیں۔ اسکی جنرل باڈی ، جو ایگزیکٹو کونسل کو منتخب اور منصوبوں کی منظوری دیتی ہے ، کی تعداد گھٹ کر انیس رہ گئی ہے اور یہ بھی وہ تنظیمیں ہیں جو اس کے مختلف پراجیکٹس پر کام کررہی ہیں۔ آدھی سے زیادہ تنظیمیں یا تو درآئی آمریت سے دلبرداشتہ ہوکر منہ کرگئی ہیں یا پھر انہیں ادارے کی پالیسی پر تحفظات کی پاداش میں نکال باہر کردیا گیا ہے۔ فافن کے پاس اپنا کوئی مرکزی دفتر ہے اور نہ ہی یہ مالی معاملات میں آزاد۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ ایف آئی اے فافن کے بانی رکن اور متعدد بار منتخب ہونے والے سیکریٹری جنرل،سرور باری ، کے اس دعوے کی روشنی میں کہ شفاف اور منصفانہ انتخابات کے لیے کام کرنے والی یہ تنظیم 2013ء کے انتخابات میں ہونے والی بڑے پیمانے (266حلقے) دھاندلی کا لازمی حصہ تھی ، تحقیقات کر رہی ہے۔ اکنامک افئیر ڈویژن کی اجازت کے بغیر بیرونی امداد سے شروع کیے گئے منصوبوں پر تنازعہ الگ چل رہا ہے۔ مطلب ،سول سوسائٹی کا کس بل نکل چکا۔ اگر کل کلاں انتخابات ہوتے ہیں اور ان میں دھاندلی ہوتی ہے تو اس پر واویلا مچانے والا کوئی نہیں رہا۔ حال ہی میں ایک ترقیاتی تنظیم نے لاہور میں قومی اسمبلی کی نشست پر ہونے والے ضمنی انتخابات سے قبل حلقے کا سروے کرایا تو پتہ چلا کہ پارٹیاں دھڑلے سے ووٹوں کی خرید و فروخت کر رہی تھیں۔ خانیوال کی صوبائی نشت پر ضمنی انتخابات ہوئے تو وہاں بھی یہی صورتحال سامنے آئی۔ سینٹ انتخابات میں لگی بولیوں کا حال سامنے ہے۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں فرق ووٹ بیچنے والوں کے سماجی رتبے کا ہے۔ فافن کے خلاف ہونے والی تحقیقات اگر سچ ثابت ہوتی ہیں تو اسکی ساکھ تباہ تو ہوگی ہی، اس کی فنڈنگ کے رہے سہے ذرائع بھی ختم ہوجائیں گے۔ مقامی حکومتوں کے انتخابات آئندہ عام انتخابات کے نتائج پر لازمی اثرا ا نداز ہونگے، لیکن سیاسی پارٹیوں کے طرز عمل ، ووٹ لینے کے طریقہ کار اور الیکشن کے انعقاد کی نگرانی کرنے والا کوئی غیرسرکاری قابل اعتماد ادارہ موجود نہیں۔ مطلب، گلیاں ویران ہیں اور مرزا یار ان میں سکون سے گھوم سکتا ہے! وہ کہتے ہیں نا کہ اگر کسی بحران کے ذمہ دار کرداروں کو سمجھنا ہوتو ذرا یہ بھی دیکھ لینا چاہیے کہ فائدہ کس کو ہو رہا ہے ۔