دہشت گردی کی نام نہاد جنگ کا حصہ بننے پر کھال بچاتے بچاتے جسم بھی ادھڑ گیا ۔ سات دہائیوں سے ایک ساتھ رہنے والے ایک دوسرے کا گریبان ناپ رہے ہیں ۔ انتخابات میں سب کا نعرہ تبدیلی ہے ۔ امریکہ کی نام نہاد جنگ اور برسوں کی غلامی سے نجات کیا ممکن ہے ؟’’سب سے پہلے پاکستان ‘‘ کے مجہول نعرے کا اصل مطلب غیروں کے مفادات کا تحفظ تھا۔ نام نہاد دہشت گردی کی جنگ میں امریکہ نے ہم سے وعدہ لیا تھا کہ ہر طرح سے اس کی امداد و اعانت کریں گے ،اس موقعے پر پاکستانی عوام کے احتجاج کو کم کرنے کے لیے سابق صدرمشرف نے دعویٰ کیا تھا، اس کا فیصلہ شکست نہیں بلکہ حکمت وبصیرت پر مبنی ہے۔ اس سے نہ صرف پاکستان کو امریکی نگاہوں میں اعتبار حاصل ہو گا،بلکہ کشمیر کاز کو بھی تقویت ملے گی، اس سے ایٹمی صلاحیت محفوظ ہو جائے گی اور کشمیر پالیسی کو امریکی حمایت حاصل ہونے سے بھارت پر دبائو بڑھے گا اور وہ مسئلہ کشمیر حل کرنے پر مجبور ہو جائے گا۔کئی برس تک مشرف پالیسی کی افادیت کا پروپیگنڈا جاری رہا۔’روشن خیالی‘‘ اور’’اعتدال پسندی ‘‘ کے نام پر دن رات عوام کو لیکچر پلائے گئے کہ پاکستان اس پالیسی کی وجہ سے دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرے گا ۔دہشت گردی کے خلاف اس نام نہاد جنگ میں پاکستان کے حکمران جتنا بھی کریڈٹ لینے کی کوشش کریں،یہ حقیقت ہے کہ ملک و قوم کونہ تو فرد واحد کے اقتدار نے کچھ دیا ہے نہ امریکی غلامی سے ہی کچھ ملا ہے اور نہ موجودہ جمہوری نظام نے کچھ دیا۔امریکہ نے ان برسوں میں پاکستان کو نہ صرف ایک خستہ حال بھکاری کی طرح چند سکوں کا مستحق سمجھا ہے، بلکہ اس سے ماضی کی روایتی بے وفائی اور طوطا چشمی کا سلوک بھی بدستور روا رکھا ہے۔اس پالیسی کے حامی کہتے تھے کہ امریکہ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ ماضی کی روایت نہیں دہرائے گا۔آج پاکستان کو امریکا کا حمایتی اور طرف دار بنے کئی برس گزرگئے ،لیکن امریکی پاکستان سے پہلے سے بھی بڑھ کر حقارت کا سلوک کرتے ہیں۔ اس کے مطالبے ختم نہیں ہوئے۔ امریکا سے دوستانہ مراسم،بھرپور تعاون اوردہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں بھر پور خدمات کا یہ صلہ ملاہے کہ ہر معاملے میں ہندوستان کو زیادہ ترجیح اوراہمیت دی جانے لگی ہے۔پاکستان کو پرانے ہتھیاروں پر ٹرخایا گیا اورہندوستان سے جدید میزائل ٹیکنالوجی اور ایٹمی تعاون کے معاہدے کیے گئے۔کشمیر کے معاملے میں امداد و تعاون کے بجائے آج بھی پاکستان پر مسلسل دبائو ڈالا جا رہا ہے کہ وہ تحریک آزادی کے علمبرداروں کے ساتھ دہشت گردوں جیسا سلوک کرے۔ امریکہ کی جانب سے ہندوستان کو کشمیر کے مسئلے پر تعاون دیا گیا اوراسے ایٹمی معاملے میں بھی پابندی کے بجائے جوہری تعاون کے معاہدے کامستحق سمجھا گیاہے ۔دس برسوں میں امریکہ اور مغربی دُنیا سے غیر مشروط دوستی کے نتیجے میں پاکستان کو صرف امریکی غلامی کا سر ٹیفکیٹ ملا ہے۔مشرف حکومت کا دعویٰ تھاکہ حکومت نے ہر میدان میں ترقی کے جھنڈے گاڑے ہیں۔ حکمرانوں کی کارکردگی پر ایک غیر جانب دارانہ نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستانی عوام، ادارے اور حکمران اوپر جانے کے بجائے تسلسل سے نیچے کی جانب لڑھکتے جا رہے ہیں۔ کشمیر کی جدوجہد کو امریکہ کی طرف سے دہشت گردی قرار دیا گیا ، تو حکمرانوں نے کمال سعادت مندی سے سر جھکالیا۔ مشرف دور میںپاکستان کا تصور ایک سیکولر ریاست کے چہرہ پینٹ کرنے کے لیے دینی مدارس پر چڑھائی کی گئی،کشمیری قیادت کو بھارت کی مرضی کے مطابق ٹکڑوں میں بانٹ دیا گیا۔ بھارت نے چالیس سے زائد ڈیم بناکر ہماری زمینیں بنجر کردیں ۔ہم نے امریکہ کی خوشنودی تو حاصل کر لی لیکن اس کے بدلے میں پاکستان اورمسلم امہ کو کیا حاصل ہوا؟ حقیقت یہ ہے کہ بھارت اور امریکہ سے دوستی نے پاکستان کو نظریاتی طور پر بے سمتی سے دوچار کردیاہے۔ بھارت سے ناقابل واپسی امن اور دوستی کے جس پروگرام کا اعلان کیا گیا تھا وہ بھی ایک جعلی ڈرامہ نکلا۔ برسوں سے ہندوستان سے جامع مذاکرات ہورہے ہیں، لیکن ابھی تک اصل موضوع پر بات چیت شروع نہیں ہوسکی ۔ کشمیر پر بات شروع کرنے کی فرمائش کے جواب میں ہر بار ایک ہی بات کہی جاتی ہے کہ سرحدوں میں تبدیلی پر کوئی بات نہیں ہو سکتی ۔ یہی حال ایٹمی پروگرام کا ہے ۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان جیسے محسن کو نظر بندی کی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیاگیا ہے ۔کشمیر پالیسی کو امریکہ اور بھارت کے ایما پر مکمل طور پر بدل ڈالا گیایہاں تک کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کو پس پشت ڈالنے کا اعلان کر دیاگیا جو یقینا کشمیر کے اصل مسئلے سے انحراف کے مترادف ہے۔ اس کے باوجود بھارت کو اس کے موقف سے سر مو نہ ہٹایا جا سکااور اب پانی کے مسئلے پر ہمارے دانش وروں کے حلق خشک ہو رہے ہیں، جب خون بہہ رہا تھا اس وقت ہمارے حکمران بھارت سے دوستی کے لیے ہلکان ہوئے جا رہے تھے۔ حالانکہ کشمیر ہو یا فلسطین مسلمانوں نے اب تک اگر کچھ حاصل کیا ہے تو جدوجہد سے ہی حاصل کیا ہے۔ مذاکرات سے اوسلو، شملہ،تاشقند اور کیمپ ڈیوڈ جیسے معاہدے ہواکرتے ہیں،مسائل حل نہیں ہوتے۔ ہر در پر سجدے کرنے سے آزادی یقینی نہیں بنتی۔ ایک در کو سجدہ گاہ بنانے سے طاقت بھی ملتی ہے اور اعتماد بھی۔ جن حکمرانوں کے پاس یہ طاقت ہوتی ہے وہ اعتماد سے جیتے ہیں اور جو اس دولت سے عاری ہوتے ہیں وہ در در پہ سجدے کرتے چلے جاتے ہیں۔ انھیں اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ در کون سا ہے۔آنے والا دور خدا جانے کس کا ہوگا ۔ کون اس دور میں فتح یاب ہو گا ۔ برسوں کی غلامی ‘ جس کے ہم خوگر ہو چکے ہیں۔ خوف ہے کہ اس سے نجات ملی تو شاید ’’ مر ‘‘ جائیں گے۔ یہ انتخابات اور یہ نعرے ہماری اس حالت کا شاید ازالہ نہ کر سکیں ۔ ہم نے اپنے لیے جو رول پسند کیا تھا اس سے نجات حاصل کرنا ہوگی ورنہ دریدہ جگر ‘ دریدہ بدن رہنا ہمارا مقدر ہے ۔ اپنے مقدر کا فیصلہ خود نہ کر سکے تو یوں ہی دوسرے ہمارے مستقبل کا فیصلہ کرتے رہے تو ہمارا مستقبل ماضی سے مختلف نہیں ہوگا ۔