پاکستان کی تاریخ سے ان کا کردار محو نہیں ہو سکتا وہ جہاں بے شمار خوبیوں کے مالک تھے وہاں بہت سی خامیوں اور کمزوریوں کے مرقع بھی تھے شاید بہت سے لوگوں اور خصوصاً حکمرانوں کی طرح ان کی بڑی خامی تکبر نظر آتی ہے اسی انا ضد اور تکبر نے انہیں بہت نقصان پہنچایا۔وہ اس دنیا سے چلے گئے لیکن ان کی شخصیت کا جائزہ لیتے ہوئے تاریخ میں ان کے مقام کا تعین کرتے ہوئے تمام پہلو زیر نظر رکھنے ہوں گے ان کی بڑی خواہش اور تمنا تھی کہ وہ اپنی زندگی کے آخری ایام پاکستان میں گزاریں لیکن وہ اس کی تکمیل نہ کر سکے وجہ یہی تھی کہ وہ اپنے فیصلوں میں ضد کی حد تک سخت گیر تھے جب کہ وہ یہ حقیقت جانتے تھے کہ انسان کی زندگی اور پیشے میں کامیابی کا اصل دارو مدار اس کی شخصیت کی عمومی نشو و نما پر ہوتا ہے انہیں یہ سبق بھی یاد تھا کہ انسان کی ذہنی صلاحیتوں کے لئے ضروری ہے کہ اس کی ذہنی اخلاقی جسمانی اور معاشرتی نشو و نما میں توازن کی ضرورت ہوتی ہے وہ اس بات کا ادراک رکھنے تھے کہ انسان کی اخلاقی نشوو نما اس کی شخصیت کا مرکز ہوتی ہے ایمانداری سچائی طمانیت اور انکساری کسی بھی انسان کے کردار کی اہم خصوصیات میں ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا کہ مشکل حالات میں اگر نقصان پہنچنے کا احتمال ہو تب بھی ایمانداری ہمیشہ دوسرے آدمی کو نرم کر دیتی ہے سچائی اچھے کردار کی نشانی ہے اور یہ کہ انسان جو کچھ حاصل کرتا ہے وہی اس کا اثاثہ ہوتا ہے اور ان کے خیال میں ان خوبیوں کے سبب میں ایک مطمئن زندگی گزار رہا ہوں اور اسی وجہ سے ہر قسم کے لالچ اور بسیار طلبی سے دور ہوں ۔جنرل مشرف نے ایک انٹرویو میں بڑے فخر سے مجھے بتایا تھا کہ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ میں نے اتنی ترقی کی لیکن اگر ایسا نہ بھی ہوتا تب بھی میں مطمئن رہتا مجھ سے کم خوش قسمت لوگ کبھی میری نظروں سے اوجل نہیں ہوتے وہ کہنے لگے میںاللہ تعالیٰ کی عنایتوں کا انتہائی شکرگزار ہوں انسان کو درخت کی طرح ہونا چاہیے جو جتنا اونچا ہوتا جاتا ہے اتنا ہی لچک دار ہونا چاہیے وہ یہ بھی کہتے تھے کہ انسان میں عروج کے باوجود انکساری بڑھتی رہنی چاہیے۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ انسان میں خودنمائی کی عادت نہیں ہونی چاہیے۔بلکہ ہونا یہ چاہیے کہ دوسرے آپ کی خصوصیات کو دیکھیں مجھ میں یہ خصوصیات میرے والدین نے ذاتی مثال اور گھریلو تعلیم کے ذریعے پیدا کی تھیں ،لیکن جب آپ جنرل مشرف کی زندگی پر نظر ڈالتے یہں تو آپ کو ان کے طویل دور اقتدار میں اچھی بری خبریں ملتی رہیں۔ انہوں نے جو جو کچھ کرنا چاہا ایک لیڈر کے طور پر کیا ان کا پورا دور روشن‘ متنازعہ اور اختلافی فیصلوں سے بھرا پڑا ہے۔ جب وہ آرمی چیف تھے نہ جانے کیوں انہوں نے نواز شریف کے اس اقدام کو کیوں پسند نہیں کیا۔جس کے تحت نواز شریف بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کو مینار پاکستان تک لے آئے تھے اور ایسا لگتا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے مابین بہت سے متنازعہ امور پر کوئی نہ کوئی آبرومندانہفارمولا طے ہو جائے گا لیکن پھر کارگل نے سب کچھ چوپٹ کر دیا۔پھر جب وہ برسر اقتدار آئے تو انہوں نے بھی دہلی جا کر مفاہمت کے لئے ایک لمبی جست لگانے کی کوشش کی۔جنرل مشرف کے بعض نقاد سمجھتے ہیں کہ نائن الیون کے واقعہ کے بعد جنرل مشرف نے امریکیوں کا ساتھ دے کر غلطی کی تھی اور پھر اس کے بعد جو نتائج سامنے آئے اس نے پاکستان کی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا تھا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ پاکستان کے اس حکمران کے پاس شاید کوئی اور راستہ بھی نہیں تھا۔ورنہ اس وقت کی صورتحال کو پیش نظر رکھیں تو انکار کی صورت پاکستان کو بہت مہنگی پڑ سکتی تھی ۔مشرف کے انداز اور طرز حکمرانی پر نظر ڈالیں تو یہ ہمیں ایک guidedڈیمو کریسی کی شکل نظر آتی ہے۔جس سے نظر آتا ہے کہ وہ گائیڈڈ ڈیمو کریسی پر یقین رکھتے تھے اپنے دور حکومت کے دوران میں انہوں نے پہلے انتخابات کرا کے اس کے نتائج اپنی مرضی کے لینے کی کوشش کی اس کا مطلب یہ لیا جا سکتا ہے کہ وہ ایک سویلین سیٹ اپ کی خواہش مند تھے جو ان کے ماتحت کام کرے وہ سیاسی شطرنج پر تمام مہرے اپنی مرضی سے آگے پیچھے کرنے کے آرزو مند تھے۔اس لئے کہ وہ اپنی ذات کو تمام اختیارات کا مرکز بنائے رکھنا چاہتے تھے ان کے طریقہ کار سے یہ اندازہ بھی کرنا مشکل نہیں کہ وہ نئے لوگوں کو ابھارنا اور انہیں ایک مضبوط اور مستحکم پوزیشن دینے کے آرزو مند بھی رہے۔ وہ سسٹم میں تبدیلوں کے بھی خواہاں تھے انہوں نے آتے ہی نیب کا ادارہ اسی لئے بنایا تاکہ بدعنوانی اور کرپشن کے خاتمے کے حوالے سے اپنے اقدامات کو عملی جامہ پہنا سکیں۔جنرل امجد تک یہ کام ٹھیک چلتا رہا بعد میں پھر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔آپ جنرل مشرف کو اس بات کا کریڈٹ دیے بغیر بھی نہیں رہ سکتے کہ انہوں نے ایک ایسے بلدیاتی نظام کو متعارف کرایا جس کا مقصد اختیارات کو نچلی سطح تکپہنچانا تھا جس کا حتمی نتیجہ عوام کی مشکلات کو حل کرنا تھا آپ ان سے اس بات کا کریڈٹ بھی نہیں چھین سکتے کہ انہوں نے میڈیا خصوصاً الیکٹرانک میڈیا کی ترقی و ترویج میں خصوصی دلچسپی لی۔انہوں نے خواتین کو زیادہ بااختیار بنانے میں بھی ایک کلیدی کردار ادا کیا۔ ان کے دور میں ملک کی معاشی صورتحال بہت بہتر تھی۔ نائن الیون کے بعد امریکی اتحادی بننے کا یہ فائدہ بالواسطہ اور بلاواسطہ پاکستان کی جھولی میں آ گرا کہ آئی ایم ایف ورلڈ بنک اور دگر بین الاقوامی مالیاتی اداروں نے پاکستان کی کھل کر مدد کی ڈالرز کی ریل پیل ہوئی اور معاشی سرگرمیوں کی ریل پیل لگ گئی۔دنیا بھر کے امیر ملک امریکی گرینڈ ڈیزائن کے تحت پاکستان کی مدد کرنے پر تیار ہو گئے تھے لیکن آپ جنرل مشرف کے اس اقدام کو کسی قیمت پر Justifyنہیں کر سکتے جب انہوں نے 12مئی کو کراچی میں جسٹس افتخار چودھری کو ایئر پورٹ سے باہر نکلنے کا راستہ روکنے کے چکر میں ایک ایسے ہنگامے کو جنم دیا جس نے 50سے زائد انسانوںکی جان لے لی اور اسی شام انہوں نے اسلام آباد میں ایک جلسے میں اس اقدام کو حق بجانب ثابت کرتے ہوئے مکے لہرائے۔اسی طرح اکبر بگتی کا قتل ہو یا 3نومبر کو ایمرجنسی کا نفاذ صاف دکھائی دیتا ہے کہ سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ بلند کرنے والے فوجی حکمران نے بعض ایسی غلطیاں بھی کیں جس کے بڑے دور رس نتائج ظاہر ہوئے۔ (جاری ہے) ٭٭٭٭٭