فروری میں ہونے والے انتخابات کے لئے سیاسی جماعتیں سرگرم ہو چکی ہیں ۔ملک کی فضا ء میں پھیلی ہوئی دھند کے باعث سیاسی منظر اگرچہ ابھی تک دھندلائے ہوئے ہیں ۔تمام بڑی سیاسی جماعتیں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لئے امیدوار وں کوحتمی شکل دینے کے مشکل مرحلے میں ہیں۔اسی کے ساتھ ان سیاسی جماعتوں کو ایک اور مشکل کا بھی سامنا ہے اور وہ ہے انتخابی منشور جسے پیش کرتے ہوئے وہ عوام کا سامنا کریں ۔اب تک جو انتخابی منشور سیاسی جماعتوں کی جانب ے ابتدائی طور پر پیش کئے گئے ہیں، ان میں پاکستان پپلز پارٹی ، متحدہ قومی موومنٹ اور جماعت اسلامی شامل ہیں ۔ان میں جماعت اسلامی کا انتخابی منشور ایک مکمل اور جامع دستاویز کی شکل میں پیش کیا گیا ہے ۔اس منشور کا ایک امتیازی پہلو یہ بھی ہے کہ اگر ( اور یہ اگر جماعت اسلامی کے لئے بہت بڑا ہے ) جماعت حکومت سازی میںکامیاب ہو تی ہے ،تو اسے پورا کرنے کا قابل عمل طریقہ ء کار بھی موجود ہے ۔ سیاست اور ریاست کے سب ہی معاملات پر محیط اس منشور میں پیش کئے گئے بعض نکات سے اختلاف ممکن ہے تاہم جماعت کا یہ منشور اپنے نظریاتی تشخص کے ساتھ ملک کے زمینی حقائق کا بھرپور ا دراک لئے ہوئے ہے۔ جماعت اسلامی کا یہ منشور ان عنوانات پر مشتمل ہے ۔ اسلامی پاکستان، جمہوری پاکستان، مضبوط معیشت اور گورنس، خوشحال صوبے، خوشحال نوجوان، خوشحال کسان اور زرعی و دیہی ترقی ، خوشحال محفوظ عورت، خوشحال مزدور، خوشحال بزرگ شہری اور ملازمین، خوشحال غیر مسلم پاکستانی ( اقلیتی ) برادری،خوشحال سمندر پار پاکستانی، مضبوط دفاع، آزاد خارجہ پالیسی، خوشحال پاکستان اور ترقی یافتہ پاکستان۔ اس منشور کے موضوعات کا تنوع اس بات کا اظہار ہے کہ جماعت اسلامی کے ماہرین نے اس پر خوب محنت کی ہے ۔ عام آدمی کے مسائل سے لے کر ریاست کے معاملات تک سب پر اپنے ویژن کے مطابق ان کے حل کو پیش کیا ہے۔ جماعت اسلامی کے امیر جناب سراج الحق نے اس کے جوچیدہ چیدہ نکات بیان کئے ہیں ان کے مطابق : ٭ حکومتی اخراجات میں تیس فیصد تک کمی کرتے ہوئے ملک کی معیشت پر موجود عالمی مالیاتی اداروں کے انحصار کو کم کرنا ٭ تمام اعلی مناصب پر فائز سیاسی ، انتظامی،عدالتی اور عسکری شخصیات کو حاصل مفت فراہم کی جانے والی تمام سہولیات کا خاتمہ ارکان پارلیمنٹ کی مراعات پر نظر ثانی ٭ گورنر اسٹیٹ بنک کو جوابدہ بنانااور آئی پیز کے ساتھ معاہدات پر نظر ثانی ٭ چارٹر آف اکانومی جس میں بلا سود بنکاری ،کارٹلز اور ناجائز منافع خوری کا خاتمہ کرتے ہوئے قیمتوں میں استحکام لانا ٭ زکوۃ کے ایک مربوط نظام کے ذریعہ ایک کروڑ شہریوں کو سالانہ ڈھائی لاکھ تک ادا کرنا ٭ بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دیتے ہوئے انہیں پارلیمنٹ میں نمائندگی دینا ٭ توشہ خانہ کے تحائف کی نیلامی ٭ غریب گھرانوں کو تین سو یونٹ تک بجلی کی مفت فراہمی ٭ جمعہ کی چھٹی کی بحالی،مخلوط تعلیمی اداروں کا خاتمہ،اردو کو سرکاری اور تعلیمی زبان بنانے کے لئے اقدامات کرنا ٭ شرح خواندنگی کو سو فیصد تک لے جانا ٭ دفاعی بجٹ میں اضافہ کو پارلیمنٹ میں بحث کے لئے پیش کرنا، افواج کی سربراہوں کی پارلیمنٹ کی منظوری سے میرٹ پر تعیناتی ٭ آزاد خارجہ پالیسی کی تشکیل ، ملک کی ضروریات اور ترجیحات کے مطابق امریکہ،روس اور بھارت سمیت تمام ممالک سے تعلقات کا قیام، کشمیر اور فلسطین کی آزادی کی مکمل حمایت ۔ بلا شبہ جماعت اسلامی کا یہ منشور پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے لئے ایک جامع دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے ۔جماعت کی قیادت اس کا عزم بھی رکھتی ہے اس کی تنظیمی صلاحیت بھی دیگر سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں بہتر ہے ۔ اس کے باوجود انتخابات میں اس کی عوامی حمایت کا حصول ہمیشہ ہی بہت کم رہا ہے ۔انتخابات کے لئے منشور کی ایک جامع اور قابل عمل دستاویز کی تیاری کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی کے مدبرین کو انتخابات میں عوامی تحرک کو تیز تر کرنے اور حمایت کے لئے بھی کوششیں کرنے ضرورت ہے ۔ جماعت اسلامی کی ابھی تک سامنے آنے والی سرگرمیوں سے یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ انتخابات میں کسی سیاسی اشتراک کے بغیر تنہا ہی حصہ لینے کی خواہشمند ہے ۔اس وقت پاکستان کی سیاست جن مسائل میں گھری ہوئی ہے اس سے نکلنے کے لئے کوئی ایک سیاسی جماعت تنہا کامیاب نہیں ہو سکتی ۔اس کے لئے سیاسی جماعتوں کا اشتراک ضروری ہے ۔ دیگر سیاسی جماعتیں اس کے لئے کوشاں ہیں۔جماعت اسلامی کو بھی سیاسی میدان میں دیگر سیاسی جماعتوں میں اپنی نظریاتی ہم آہنگی تلاش کرنے کی ضرورت ہے ۔ منشور میں دئے گئے بیشتر اقداما ت وفاق سے متعلق ہیں ۔ وفاق میں حکومت کے قیام کے لئے قومی اسمبلی میں اکثریت کا ہونا لازمی ہے ۔ حالات موجودہ کی روشنی میںجماعت اسلامی کے لئے مکمل اقتدار کی منزل ابھی دور بلکہ بہت دور نظر آتی ہے لہذا منشور کتنا اچھا کیوں نہ ہو جب تک اس پر عمل کرنے کی قوت موجود نہ ہو وہ محض ایک عمدہ دستاویز ہی رہتا ہے ۔ جماعت اسلامی شرکت اقتدار کے ذریعہ ہی اپنے منشور کے مطابق ، کسی حد تک ،عمل کرنے میں کامیاب ہو سکتی ہے ۔اکابرین جماعت کو اس پر توجہ کی ضرورت ہے۔ سیاسی جماعتوں سے اشتراک کا یہی درست وقت ہے۔ اگرچہ درست وقت پر صحیح فیصلہ سے اجتناب کی روایت تو جماعت کی تاریخ رہی ہے تاہم اب اسے بدلنا ہوگا۔ پاکستان کے سیاسی حالات کے جبر کا تقاضہ تو یہی ہے۔