لودھراں جہانگیر ترین کا گھر ہے ۔یہیں سے 2018 میں پنجاب حکومت کی تشکیل کے لیے جدوجہد کا آغاز ہواتھا اور یہیں سے 2022میں انحراف کا سلسلہ شروع ہوا جو بالآخر بزدار حکومت کے خاتمے پر منتج ہوا۔ جہانگیر ترین کا اس سارے قضیے میں بنیادی کردار رہا۔ لودھراں سے بھی دو ارکانِ پنجاب اسمبلی منحرف ہوئے اور اب انہیں ن لیگ کے ٹکٹ پر ضمنی انتخابات کا چیلنج درپیش ہے ۔ لودھراں کے دو حلقوں پر ضمنی انتخاب ہو رہا ہے، پی پی 224 اور پی پی 228۔دونوں ہی حلقوں میں صورتحال خاصی دلچسپ ہے۔ دلچسپی کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ لودھراں کا معروف شہید کانجو گروپ ن لیگی امیدواروں کی حمایت نہیں کر رہا ہے حالانکہ معروف لیگی گروپ کی سربراہی عبدالرحمن کانجو کرتے ہیں جو اس وقت وزیر مملکت برائے داخلہ ہیں۔ گویا عبدالرحمن کانجو وزیر ہوتے ہوئے بھی خود کو اپنی ہی پارٹی کے امیدواروں کے حمایت کرنے سے قاصر محسوس کرتے ہیں ۔اس کی وجوہات بڑی دلچسپ ہیں۔ کہانی سمجھنے کے لیے دونوں حلقوں کی سیاست پر ایک نظر ڈالنی پڑے گی۔ پی پی 224 سے2018 کے انتخابات میں جہانگیر ترین گروپ کے زوار حسین وڑائچ تحریک انصاف کے ٹکٹ سے ساٹھ ہزار ووٹ لے کر منتخب ہو گئے جبکہ شہید کانجو گروپ سے تعلق رکھنے والے ایک معروف سیاسی گھرانے کے عامر اقبال شاہ کو ن لیگ کے ٹکٹ پر اڑتالیس ہزار ووٹ ملے ۔ 2018 میں ہوا تحریک انصاف کے موافق تھی۔ یہی وجہ تھی کہ زوار وڑائچ سیاسی پس منظر نہ رکھنے کے باوجود ن لیگ کے ایک بڑی سیاسی گھرانے کو شکست دینے میں کامیاب رہے ۔اب جب انہیں تحریک انصاف سے انحراف کے بعد ن لیگ کا ٹکٹ ملا تو ن لیگ کے ساتھ دہائیوں کی وابستگی رکھنے والا اقبال شاہ کا خاندان ناراض ہو گیا اور تحریک انصاف نے اقبال شاہ کے بیٹے عامر اقبال شاہ کو ٹکٹ دے دیا۔ یعنی 2018 میں تحریک انصاف کے ٹکٹ سے لڑنے والے امیدوار کے پاس اب ن لیگ کا ٹکٹ ہے اور ن لیگ والا امیدوار تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑ رہا ہے ۔ ایسی صورتحال میں کانجو گروپ کے لیے اپنے سیاسی حریف جہانگیر ترین کی سپورٹ کرنا نا ممکن ہو گیا ہے اور وہ اپنے ہی گروپ کے عامر اقبال شاہ کی مخالفت کر کے علاقے میں اپنی سیاست کو نا قابل تلافی نقصان نہیں پہنچا سکتے ہیں۔ لہذا ن لیگ کے زوار وڑائچ تنہا رہ گئے ہیں یہاں تک کہ جہانگیر ترین بھی ابھی تک ان کی حمایت میں میدان میں نہیں اترے ہیں ۔ دوسری طرف پی پی 228 میں بھی صورتحال دلچسپ ہے ۔ یہاں 2018 میں ن لیگ کے ٹکٹ پرکانجو گروپ کے سید رفیع الدین بخاری نے الیکشن لڑا ۔ وہ جہانگیر ترین کے امیدوار نذیر احمد خان بلوچ کو شکست تو نہ دے سکے تھے کہ ہوا تحریک انصاف کے موافق تھی، لیکن مقابلہ سخت ہوا تھا اور وہ چار ہزار ووٹوں سے ہارے تھے۔ اب ن لیگ نے وعدے کے مطابق منحرف رکن کو ٹکٹ دینا تھا۔ لہذا نذیر بلوچ ن لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کے لیے میدان میں اتر چکے ہیں لیکن تحریک انصاف نے یہاں رفیع الدین بخاری کو ٹکٹ دینے کی بجائے ایک نسبتََا کمزور امیدوار عزت جاوید خان کو ٹکٹ جاری کیاہے ۔ اس کے نتیجے میںکانجو گروپ نے رفیع الدین بخاری کو آزاد حیثیت میں الیکشن لڑانے کا فیصلہ کیا۔ گویاعبدالرحمن کانجو وزیر ہوتے ہوئے بھی ن لیگی امیدوار کو سپورٹ نہیں کر رہے ۔ ایک اور معروف سیاسی شخصیت اور موجودہ ایم پی اے صدیق بلوچ نے بھی نذیر بلوچ کی حمایت کرنے سے انکار کر دیا ہے ۔ اب اس حلقے میں ن لیگ کا مقابلہ ن لیگ سے ہے ۔ ایک کے پاس ٹکٹ ہے اور دوسرا آزاد کھڑا ہے ۔ اس صورتحال کا فائدہ کسی حد تک تو تحریک انصاف اٹھا سکتی ہے لیکن پھر بھی کمزور امیدوار کے باعث جیتتی دکھائی نہیں دیتی ۔ پنجاب کے کئی حلقوں میں لودھراں جیسی صورتحال ہے ۔ ن لیگ منحرف اراکین کو ٹکٹ دے کر اپنے اصل امیدواروں کو ناراض کر رہی ہے ۔ کچھ جگہوں پر ان سے وعدے کیے جا رہے ہیں کہ یہ تو چندمہینے کی بات ہے ، اگلے پانچ سال کی مدت کے لیے منتخب ہونے والی اسمبلی کا ٹکٹ تو آپ ہی کو ملے گا۔ لیگی امیدواروں کے ساتھ ہونے والے اس وعدے سے منحرف اراکین بے چینی کا شکار ہو رہے ہیں ۔ وہ سوچتے ہیں کہ آج وہ شیر کے نشان پہ پیسہ خرچ کر رہے ہیں ، اس کیمپین کا فائدہ چند ماہ بعد کوئی دوسرا اٹھائے گا تو ان کے حصے میں کیا آئے گا۔ یہی وجہ ہے کہ منحرف اراکین تذبذب کی کیفیت میں ہیں اور ن لیگی قیادت کی طرف غیر یقینی کے عالم میں دیکھ رہے ہیں ۔ حیرت ہے کہ جہانگیر ترین ابھی تک منظر سے غائب ہیں اور منحرف اراکین کی حمایت کے لیے میدان میں نہیں اترے ہیں ۔ جبکہ 2018 میں یہ سارے امیدوار جہانگیر ترین کی حمایت اور پی ٹی آئی کے ٹکٹ ہی کی وجہ سے کامیاب ہوئے تھے۔ یہاں تک کہ جہانگیر ترین گروپ کے ایک آزاد نوجوان سلمان نعیم نے شاہ محمود قریشی تک کو شکست دے دی تھی۔ مگر سوال یہ ہے کہ جہانگیر ترین شیر کے نشان کو ووٹ دینے کی درخواست کرتے کیسے لگیں گے؟ جب وہ عمران خان سے ناراض تھے یا عمران خان ان سے ناراض تھے، نجی محفلوںمیں لوگ ان سے مستقبل کے بارے میں سوال کرتے تو وہ کہتے آپ ہی بتائیے میں ن لیگ میں کیسے جا سکتا ہوں۔ جہانگیر ترین ن لیگ میں تو نہیں آئے لیکن حالات نے انہیں ن لیگ کے نشان پر ووٹ مانگنے پر مجبور کر دیا ہے ۔ سیاست بڑی عجیب چیز ہے ۔ مفادات کے لیے انسان کو کہاں سے کہاں لے جاتی ہے۔ تحریک انصاف کو بھی مجبوراان لوگوں کو ٹکٹ دینا پڑے ہیں جن پر ماضی میں الزامات لگائے جاتے رہے ہیں ۔جہاں ایسا نہیں کیا اور پارٹی ورکر کو ٹکٹ دیا ہے وہاں پر پوزیشن کافی کمزور ہے اور جیت کے امکانات کم دکھائی دیتے ہیں ۔ بہرحال تحریک انصاف ، ن لیگ اور جہانگیر ترین تینوں ہی کے لیے یہ انتخابات ایک بڑا امتحان ہیں ، دیکھئے کون اس میں سرخرو ہوتا ہے۔