پہلا تھپڑ ہی سب کچھ ہوتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں تھپڑ مارنے والے کو ہیرو اور تھپڑ سہہ جانے والے کو کمزور تصور کیا جاتا ہے، لوگ کبھی کمزور کے ساتھ کھڑے نہیں ہوتے،اسی لئے تو مولا جٹ جیسی فلمیں ایک ہی سینما میں کئی کئی سال چل جاتی ہیں، یہ ہمارا نہیں تیسری دنیا کے سب غریب اور ترقی پذیر ملکوں کا المیہ ہے، ان ملکوں میں عوامی قیادت پیدا ہی نہیں ہونے دی جاتی، پاپولر قیادت قتل ہوجاتی ہے، ہمارے ملک میں سیاست اور صحافت سمیت زندگی کے ہر شعبے میں لوگ اپنے ہیروکو مظہر شاہ اور سلطان راہی جیسا دیکھنا چاہتے ہیں، چاہے وہ غریب اورکمزورلوگوں سے جگا ہی کیوں نہ لیتا ہو۔ ٭٭٭٭٭ ن لیگی راہنما دانیال عزیز کے منہ پر پی ٹی آئی کے نعیم الحق کے تھپڑ کی باز گشت ہے کہ ختم ہونے کو نہیں آرہی، نواز شریف اور ن لیگ کے سب سے بڑے وکیل دانیال عزیز نے اگر تھپڑ کھا کر برداشت کا مظاہرہ کیا تو وہ ن لیگی کارکنوں اور قائدین سے قطعی برداشت نہ ہو سکے گا، پوچھا جا رہا ہے کہ جوابی حملہ نہ کرنا اخلاقیات کا تقاضہ تھا یا کوئی سیاسی حکمت عملی؟ جو کچھ بھی تھا،جواب نہ دینا ہمارے روایتی سیاسی اور سماجی کلچر کے منافی تھا، کچھ دانشوروں کے خیال میں اس تھپڑ خوری کا ایک پہلو یہ ہو سکتا ہے کہ دانیال عزیز نے عوام کو بتایا ہو، ہم کتنے شریف اور پی ٹی آئی والے کتنے بدمعاش ہیں، اس تھپڑ کے بعدپاکستان کے سیاسی کلچر میں یہ بھی ممکن ہے کہ آنے والے عام انتخابات میں دانیال عزیز پہلے کی طرح آسانی سے نہ جیت سکیں، جس حلقے کی وہ نمائندگی کرتے ہیں وہاں کے لوگ تو ہیں ہی طاقت پرست،اور تو اور، ہو سکتا ہے کہ ان کو والد محترم بھی انہیں ووٹ نہ دیں۔ یہ چانٹا ان کے والد محترم جناب انور عزیز چوہدری یقینا برداشت نہ کر پائے ہوںگے، بیٹے کو پڑنے والے تھپڑ کا صدمہ ان کے لئے بڑا صدمہ ہوگا،مسلسل سوچ رہے ہونگے کہ بیٹے نے جوابی حملہ کیوں نہ کیا؟ ہماری دانست کے مطابق دانیال عزیز کے سیاسی استاد ان کے والد محترم نہیں ہوسکتے،اگر ایسا ہوتا تو تھپڑ کے جواب میں گولی چلتی،صرف گولی چلتی کیا دانیال عزیز ان بچوں میں شامل تو نہیں جو اپنی وجہ شناخت باپ کو نہیں بناتے، ایسے بچے ساری عمر اسی زعم میں بسر کر دیتے ہیں کہ انہوں نے بڑا مقام اپنی جدوجہد سے حاصل کیا،باپ کے نام کا کوئی کمال نہیں، یہ بہت اچھی بات ہے اگر باپ کو دکھی کرکے ترقی اور کامیابی نہ حاصل کی جائے۔ کوئی ایسے بچوں سے گفتگو میں ان کے والد کا تذکرہ بھی کر دے تو برا مناجاتے ہیں،ایسے بچوں کے باپ بھی عموماً معروف کامیاب لوگ ہوتے ہیں۔ ٭٭٭٭٭ تھپڑ والی فٹ ایج نیوز چینل پر اتنی بار چلائی گئی ہے اور چلائی جا رہی ہے کہ چوہدری انور عزیز صاحب نے یا تو اب تک اپنا ٹی وی سیٹ توڑ دیا ہوگا یا گھر والوں کی شامت لے آئے ہونگے، بار بار کہہ رہے ہونگے،بار بار پوچھ رہے ہونگے۔ اے پترجمیا سی اسیں،جیہڑاتھپڑ کھا کے چپ بیٹھا رہیا چوہدری انور عزیز سے ہمارا چالیس پنتالیس سال کا تعلق ہے،وہ بھٹو صاحب کے قریبی ساتھی رہے ، اپنے حلقے سے الیکشن بھاری اکثریت سے جیتتے رہے، وفاقی کابینہ کا حصہ رہے،چوہدری انور عزیز،، پہلے تھپڑ مارو،، کے فلسفہ اور تھیوری کے ساتھ زندگی گزارنے والے زیرک سیاستدان ہیں ،سنا ہے آجکل بھی موٹر سائیکل پر بیٹھ کر پورے نارووال کا چکر لگا آتے ہیں،ہم ان کی محفلوں میں بیٹھتے رہے، وہ تو پیتل کو ہاتھ لگا کر سونا بنا دینے والی شخصیت رہے ہیں، ایک بار تو انہوں نے ایک زنگ آلود لوہے کو ہاتھ لگایا اور وہ پوری اسٹیل مل بن گیا ،مجھے وہ دن اچھی طرح یاد ہے جب وہ لاہور کے مال روڈ پر دیال سنگھ مینشن والے پرانے پریس کلب کے نیچے پان سگریٹ کے کھوکھے پر کھڑے تھے، عباس اطہر صاحب وہاں آئے تو ان کے ساتھ میلے رنگ کا موٹا سا ایک لڑکا بھی تھا، جس کے جسم پر بہت بال تھے، وہ اس وقت تک ایک غیر مستند، بے روزگار صحافی تھا ، عباس اطہر صاحب نے اس کا ہاتھ چوہدری انور عزیزکے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہا ،، آج سے یہ نوجوان تمہارا تنخواہ دار پرسنل سیکرٹری ہے۔۔ پھر ہم نے اسی نوجوان کو خنجر سے زیادہ تیز صحافی کے طور پر کئی لوگوں کے گلے کاٹتے ہوئے دیکھا، اس کی پہنچ اقتدار کے ایوانوں تک ہو گئی تھی اور وہ صحافیوں کے مقدر لکھا کرتا تھا، وہ نوجوان جو کہا کرتا تھا، پیپلز پارٹی کا نام لینا بھی اس کے خاندان میں گناہ سمجھا جاتا ہے، ہم نے اسے برسراقتدار پیپلز پارٹی کو انگلیوں پر نچاتے دیکھا۔ ایک بات دانیال عزیز سے۔۔۔ جوانی کبھی علم اور تجربے کا نعم البدل نہیں ہوتی ٭٭٭٭٭ بات ہو رہی تھی دانیال عزیز کو مارے گئے تھپڑ کی اور ہم کہاں سے کہاں پہنچ گئے،جی ہاں بات نکلتی ہے تو دور تلک ہی پہنچتی ہے۔ حالیہ مہینوں میں میرے سمیت بہت سارے لوگ نوٹ کر رہے تھے کہ دانیال عزیز غصے میں ہیں،بہت زیادہ غصے میں،جب سے نواز شریف کو نا اہل قرار دیا گیا،دانیال کے چہرے کی کرختگی تھی کہ بڑھتی ہی چلی جا رہی تھی، وہ مسکرانا بھی بھول گئے تھے، نواز شریف کی وکالت کرنے والے ن لیگیوں میں وہ پہلے نمبرپراور سب سے آگے رہے،ٹی وی ٹاک شوز میں نواز شریف کے کسی مخالف کو برداشت نہیں کر رہے تھے، جب کوئی بھی نواز مخالف بات شروع کرتاتو دانیال عزیز کے چہرے کے تیوربدل جاتے،چہرے پر سلوٹیں بکھر جاتیں ، وہ ن لیگ اور اس کی قیادت (قیادت سے مراد صرف نواز شریف ہیں )کیخلاف کسی کی آواز اور اسکرین پر اس کی شکل دیکھنا بھی گوارا نہیں کررہے تھے،ان کا چہرہ ان کی زبان بن جاتا،یہ سیاسی تعصب کی انتہا ہوتی ہے، ان کے ساتھ ٹی وی اسکرینوں پر بیٹھنے والے دوسری سیاسی پارٹیوں کے لوگ شاید ان سے بہت الرٹ تھے۔ سیاست کے گرواور کئی دوسرے مستعد صحافی دانیال عزیز کی برداشت اور عدم برداشت پر الگ الگ تھیوریاں پیش کرتے ہیں، لیکن ایک بات تو اٹل حقیقت ہے کہ غصہ انسان کو کمزور بنا دیتا ہے، جسمانی طور پر بھی اور ذہنی طور پر بھی، دنیا میں با وقار اور بہادروں کی طرح جینے کے لئے اپنے اندر کے غصے کو مار ڈالنا بہت ضروری ہوتا ہے، یہ ان کے چہرے کا تناؤ اور غصہ ہی تھا جسے بھانپ کر شاید نعیم الحق نے انہیں تھپڑ جڑ دیا، ان کے دماغ میں وہم پیدا ہوا ہوگا کہ اس سے پہلے کہ دانیال عزیز حملہ کر دے، پہل کر دینی چاہئے، یہ بات میں تجربے کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں کیونکہ اسی سوچ کے تحت میں نے بھی ایک شخص کو گھونسہ مار دیا تھا۔یہ بات افسوس ناک تھی کہ نعیم الحق نے کیمرے کے سامنے کہا کہ دانیال عزیز کو گھونسہ مارنے پر عمران خان نے انہیں شاباش دی ہے، میرے خیال میں یہ بیان تھپڑ مارنے سے بھی بڑا جرم ہے، جیسا کہ ہم نے لکھا کہ پہلا تھپڑ ہی آخری تھپڑ ہوتا ہے، اسی طرح تھپڑ کی ستائش میں ان کا پہلا بیان ہی آخری بیان ہے، لفظ زبان سے ادا ہو جائیں تو وہ ہزار تردیدوں سے بھی واپس نہیں ہوتے، یہ بات ہمیشہ یاد رکھی جانی چاہئیے کہ سیاست میں تشدد کا عنصر شامل ہوجائے تو سیاست، سیاست نہیں رہتی،بدمعاشی بن جاتی ہے۔ ٭٭٭٭٭ پنجاب دھرتی کی صدیوں کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو کتابیں دو یکسر مختلف تھیوریاں سامنے لاتی ہیں اور وہ دونوں درست ہیں۔۔ ایک نظریے کے مطابق سرزمین پنجاب بیرونی حملہ آوروں کو ہیرو تسلیم کرتی چلی آئی ہے،اس نے ہمیشہ حملہ آوروں کا خیر مقدم کیا ان کے گلے میں ہار پہنائے، پنجاب نے انگریز استعماریت کو یہاں قدم جمانے میں مدد دی،انگریز کے باغیوں کی مخبریاں کرکے جاگیریں اور انعام و اکرام حاصل کئے، انگریز کے چلے جانے کے بعد بھی اب تک یہی لوگ پاکستان کے حکمران ہیں اور عوام کے جسموں پر جونکوں کی طرح چمٹے ہوئے ہیں، اگرایک طرف ضمیر فروش تھے تو دوسری جانب وہ سرفروش بھی تو تھے جنہوں نے انگریز استعمار کو تسلیم نہ کیا، اس کے سامنے سر نہ جھکایا،پھانسی گھاٹ پر بھی آزادی کا گیت گایا، انہیں ہاتھیوں کے پاؤں تلے کچلا گیا، سولیوں پر لٹکے،کالا پانی تک مصائب برداشت کئے،شاہی قلعہ کو انہی باغیوں کی وجہ سے عقوبت خانے میں بدلا گیا تھا، انگریز نے کوڑے بھی انہی دھرتی کے بیٹوں کو مارنے کیلئے ایجاد کئے، پنجاب انہی حریت پسندوں کی جنم بھومی ہے جنہوں نے انگریز کو واپسی پر مجبور کیا ، ان سرفروشوں کی نسلیں آج بھی کالے،دیسی انگریزوں کے خلاف نبرد آزما ہیں۔کیا ایک دوسرے کو تھپڑ مار کر اور گالیاں نکال کر ہم حقیقی آزادی اور حقیقی جمہوریت کی منزل پا سکتے ہیں ؟ نہیں، نہیں ،نہیں۔ ہمیں ایک دوسرے کو برداشت کرنا ہوگا،ایک دوسرے کو تسلیم کرنا ہوگا۔انقلاب لانا ہے تو تاجر،صنعت کار،جاگیردار اور وڈیروں کی قید سے نکلنا ہوگا،اقتدار خلق خدا کو سونپنا ہوگا۔ حرف آخر دنیا میں زندہ رہنے کیلئے طاقت انتہائی ضروری چیز ہے، مگر طاقت کا احساس انسان کو بھیڑیا بنا دیتا ہے