انسان کی یہ بڑی خواہش ہوتی ہے کہ ایک تو وہ ہمیشہ زندہ رہے اور پھر کرسی یعنی اقتدار اور اختیارات بھی اُس کے پاس رہیں۔ جینے کی خواہش حضرت ذوالقرنین بادشاہ کو دنیا کے آخری کنارے چشمہ آب حیات پر لے گئی تھی لیکن آب حیات صرف خضر علیہ السلام کے نصیب میں لکھا تھا اور اُنہوں نے آب حیات پی لیا اور ذوالقرنین کو آب حیات نصیب نہ ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے اِس عظیم بندے کو مشرق اور مغرب کی بادشاہی عطا کی تھی اور اِسی ذوالقرنین نے یاجوج ماجوج کا راستہ روکنے کے لیے ایک بڑی تانبے کی دیوار بنائی تھی تا کہ یاجوج ماجوج دنیا میں فتنہ پیدا نہ کر سکیں پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت ذوالقرنین کی بادشاہی بھی ختم کر دی اور اُن کو موت دے دی۔ آدم علیہ السلام کی نسل میں بادشاہی کرنے کا یہ سلسلہ ازل سے ابد تک چلتا رہے گا اور انسان اقتدار حاصل کرنے کے لیے چالیں چلتا رہے گا۔ اب ہمارے ملک کے حالیہ الیکشن میں ہونے والی مبینہ دھاندلی ہی کو دیکھ لیں کہ کس طرح سے غیر آئینی ہتھکنڈے استعمال کر کے ایک پارٹی کو آگے لایا جا رہا ہے ۔ جو آزاد امیدوار ایک دن پہلے الیکشن بھاری اکثریت سے جیت رہے تھے وہ اب الیکشن ہار چکے ہیں اور جوہار رہے تھے وہ کامیاب ہو چکے ہیں اور اُن کو کامیابی کا رزلٹ بھی جاری کر دیا گیا ہے۔ ہمارے اپنے ضلع ڈیرہ غازی خان کی مثال ہی اس کے لیے کافی ہے کہ یہاں پر آزاد اُمیدواروں نے ایک روز قبل بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کر لی تھی اور اُن کے پاس فارم 45 کی کاپیاں بھی موجود ہیں لیکن اِس کے باوجود بھی اُن کو کامیابی کا رزلٹ جاری نہیں کیا گیا اور مسلم لیگ سے وابستہ اُمیدواروں کو کامیابی کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا گیا ہے۔ ڈیرہ غازی خان کے سات صوبائی اور چار قومی اسمبلی کے حلقوں میں سے آزاد اُمیدوار بھاری اکثریت سے جیت رہے تھے اور رات گئے تک ٹی وی کی سکرینوں پر بھی پوری قوم یہ رزلٹ دیکھ رہی تھی لیکن پھر 12 گھنٹوں بعد ہارنے والے اُمیدواروں کو کامیاب قرار دے دیا گیا۔ ڈیرہ غازی خان کے تمام حلقوں کے نتائج 24 گھنٹوں بعد جاری کیا گیا جبکہ آج کے اِس جدید دور میں آٹھ سے دس گھنٹوں میں فائنل رزلٹ جاری کیاجانا معمول کی بات ہے لیکن انتظامیہ نہ جانے کسی انہونی کاانتظار کرتی رہی کہ رزلٹ میں تاخیری حربے استعمال ہوتے رہے۔ ڈیرہ غازی خان کے وہ آزاد اُمیدوار جو پہلے بھاری اکثریت سے جیت رہے تھے جب اُنہوں نے دیکھا کہ اُنہیں کامیابی کارزلٹ جاری نہیں کیا جا رہا تو اُنہوں نے گزشتہ روز ڈسٹرکٹ بار سردار محمد عارف خان گورمانی کے ساتھ ایک ہنگامی پریس کانفرنس کی جس میں صوبائی حلقہ 286 سے فرحت عباس خان لُنڈ صوبائی حلقہ 287 اخلاق بڈانی صوبائی حلقہ 288 سے بھاری اکثریت حاصل کرنے والے ممبر پنجاب کونسل ملک اقبال ثاقب ایڈووکیٹ 290 محی الدین خان کھوسہ 291 سے فہیم سعد خان چنگوانی ایڈووکیٹ جبکہ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 184 سے علی محمد خان کھلول شامل تھے اِن لوگوں نے صدر بار عارف خان گورمانی کی موجودگی میں فارم 45 بھی پیش کیے جن کے مطابق وہ اپنے مخالف اُمیدواروں سے واضح اکثریت سے آگے جا رہے تھے اسی طرح سے گزشتہ روز آزاد اُمیدواروں کے رزلٹ روکے جانے اور اُن میں رودبدل کرنے پر پی ٹی آئی کے کارکنوں نے احتجاجی دھرنا دیا ۔ اور زبردست احتجاج کرتے رہے اِس دوران مشتعل کارکنوں نے پولیس پرپتھراؤ بھی کیا جس کی وجہ سے ڈی پی او ڈیرہ غازی خان زخمی ہو گئے بعد میں مظاہرین مشتعل ہو گئے ویسے اِس دفعہ ڈیرہ غازی خان کے سردار اور تمن دار جن میں لغاری اور کھوسہ شامل ہیں عوام نے اِن کو اِن کی اصل اوقات یاد دلا دی۔ اویس لغاری رات گئے تک تمام ٹی وی سرینوں پر سجاد چھینہ سے بھاری اکثریت سے ہار رہے تھے اور سوشل میڈیا پر سجاد چھینہ کی این اے 186 سے کامیابی کی خبریں چلتی رہی لیکن دوسرے روز شام 5 بجے اویس لغاری کی کامیابی کا اعلان کردیا گیا اسی طرح سے ڈیرہ غازی خان شہر کے حلقہ 288 سے آزاد اُمیدوار ملک اقبال ثاقب ایڈووکیٹ بھاری اکثریت سے جیت رہے تھے لیکن گزشتہ ساڑھے سات بجے حنیف پتافی کی کامیابی کا اعلان کر دیا گیا اسی طرح سے محی الدین کھوسہ نے پریس کانفرنس کے دوران بتایاکہ وہ 21000 ہزار ووٹوں کی برتری سے اپنے مخالف احمد خان لغاری سے آگے ہیں لیکن دوسرے دن محمد احمد خان لغاری کی کامیابی کا اعلان کر دیا گیا کھوسہ سرداروں کے چیف سردار ذوالفقار علی کھوسہ اپنے نادان اور خوشامد کرنے والوں کے غلط مشوروں کا شکار ہو کر بری طرح سے ہار گئے سردار ذوالفقار علی کھوسہ جو ماضی میں ناقابل شکست تصور ہوا کرتے تھے لیکن اب دوسری بار شکست سے دو چار ہو رہے ہیں ویسے بھی اس وقت وہ 90 برس کے ہو چکے ہیں اُن کو چاہیے کہ وہ سیاست سے علیٰحدہ ہو کر اب اپنی زندگی کے خوب صورت دنوں کے تصور میں اپنی زندگی بسر کریں اُن کے فرزند دوست محمد خان کھوسہ بھی دونوں نشتوں سے دوسری بار ہار گئے اُنہوں نے شہری اتحاد بھی علیم شاہ کے ساتھ مل کر بنایا لیکن’’اُلٹی ہو گئی سب تدبیریں ‘‘ کچھ بھی کام نہ آیا این اے 183 تونسہ سے مسلم لیگ (ن) کے امجد فاروق کھوسہ بھی آزاد اُمیدوار خواجہ شیراز سے بری طرح سے ہار گئے ویسے اگر غیر جانبدار جا ئز لیا جائے تو کھوسہ اور لغاری سردار اِس الیکشن میں ہار چکے ہیں لیکن اپنے ضمیر کی قربانی دے کر بڑی دیر بعد یہ دوبارہ جیت گئے اِس دفعہ الیکشن میں ہا رچکے ہیں اِس دفعہ الیکشن میں نوجوان نسل نے جس جذبے اور جوش کے ساتھ الیکشن میں حصہ لیا اور آزاد اُمیدوارں کو جتوایا اُسے دیکھ کر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی والے ابھی تک ’’سکتے‘‘کی حالت میں ہیں اب آگے دیکھتے ہیں کہ اعلیٰ حلقے کس طرح سے حکومت بناتے ہیں اور کس طرح سے ملک چلاتے ہیں اللہ ہمارے ملک خیرکرئے اور اسے ہمیشہ قائم دائم رکھے حکومتیں تو آتی جاتی رہتی ہیں ۔