ذرائع کے مطابق اس سے قبل بھارت میں براہموس میزائل دوبار ٹیسٹنگ کے دوران بے قابو ہو چکا ہے۔ جس سے اس کی افادیت اور آپریشن پر سوالیہ نشان کھڑے ہو گئے ہیں۔ 2009 میں راجستھان کے پوکھران علاقہ میں دوران پرواز اسکا جی پی ایس یعنی گلوبل پوزیشن سسٹم کے ساتھ رابط منقطع ہو گیا تھا، جس کی وجہ سے یہ ٹارگٹ سے کافی دو رگر گیا۔ معلوم ہوا کہ جس وقت یہ میزائل داغا گیا تھا، اسی وقت سات سمندر پار واشنگٹن میں امریکی صدر بارک اوبامہ کو حلف دلایا جا رہا تھا، جس کی وجہ سے امریکی انتظامیہ نے سیٹلائٹس کے ذریعے چلنے والے جی پی ایس کو بند کر دیا تھا۔ اب امریکہ نے یہ قدم جان بوجھ کر اٹھایا یابھارت کی وزارت دفاع کو اوبامہ کی حلف برداری کی اطلاع نہیں تھی، اس پر ابھی بھی پردہ پڑا ہوا ہے۔ میزائل کو 84سیکنڈ فضا میں رہنے کے بعد ٹارگٹ پر گرنا تھا، مگر جی پی ایس کا رابطہ منقطع ہونے کی وجہ سے یہ 112سیکنڈ تک فضا میں رہا اور کئی کلومیٹر دور ایک آبادی کے پاس گرا۔ خیریت رہی کہ کوئی جانی و مالی نقصان نہیں ہوا۔ پچھلے سال جولائی میں بھی خلیج بنگال میں اڑیسہ کے ساحل کے پاس اس میزائل کاجدید ترین 450کلومیٹر تک مار کرنے والا ورژن ناکام ہوا۔ میزائل اس سے نہایت کم دوری پر گر گیا۔ براہموس میزائل کا مقابلہ کرنے کیلئے پاکستان نے پچھلے سال دو بار 450کلومیٹر تک مار کرنے والے بابر 1Aکروز میزائل کے تجربے کئے۔ پاکستان کے پاس ’بابر‘ اور ’رعد‘ نامی سپر سانک کروز میزائل موجود ہیں جو زمین سے زمین، فضا سے زمین اور زیر آب سے زمین کی سطح تک مار کرنے والے میزائل ہیں۔ اس واقعہ کا ایک حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ میزائل نے ہوا کے وسط یعنی مڈ کورس میں اپنی سمت تبدیل کی جو بھارتی کمانڈ اینڈ کنٹرول پر سوالیہ نشان ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان جس طرح تعلقات میں سرد مہری اور صورتِ حال کشیدہ ہے ان حالات میں بھارت کی طرف سے میزائل کے اس تجربہ کو معمول کی ٹیسٹنگ اور غلطی کیسے کہا جاسکتا ہے؟ یہ غلطی یا اتفاقی حادثہ دفاعی نظام میں موجود خامیوں اور فالٹ لائنز کی طرف بھی اشارہ کررہا ہے۔ٹارگٹ ڈیٹا جب بھی کسی میزائل میں فیڈ کیا جاتا ہے تو وہ دوران پرواز اپنی ڈائریکشن نہیں تبدیل کرسکتا ہے بلکہ یہ سیدھا اپنی اسٹریٹجک ڈائریکشن لیتا ہے اور سیدھا ٹارگٹ کی طرف جاتا ہے۔اس میزائل نے اسٹریٹجک ڈائرکشن نوے ڈگری ایک سو بیس کلومیٹر کے بعد تبدیل کی ہے اسلئے ماہرین کہتے ہیں کہ شاید اس پر سائبر اٹیک ہوگیا ہو ، جو اور بھی تشویش کا موجب ہے۔ دنیا میں جوہری طاقت سے لیس بہت کم ممالک ایسے ہیں جن کی سرحدوں پر بھارت اور پاکستان جیسی کشیدگی پائی جاتی ہو۔ برطانیہ کے تھنک ٹینک ’انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار سٹریٹجک سٹڈیز‘ (آئی آئی اے ایس) نے پچھلے سال ’جنوبی ایشیا میں نیوکلیئر ڈیٹرنس اور استحکام: احساسات اور حقائق‘ کے عنوان سے ایک رپورٹ شائع کی۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فروری سنہ 2019 میں پلوامہ حملے کے بعد انڈیا اور پاکستان کے مابین کشیدگی جس سطح کو پہنچ گئی تھی اگر دونوں ممالک کے مابین کوئی بڑی ’غلط فہمی‘ پیدا ہو جاتی تو جوہری ہتھیاروں کے ممکنہ استعمال سے انکار نہیں کیا جا سکتا تھا۔اس رپورٹ کے مرکزی مصنف اور آئی آئی ایس ایس کے فیلو انتونیو لیوسکس کے مطابق: ’انڈیا اور پاکستان اپنی ٹیکنالوجی اور صلاحیتوں میں مستقل ترقی کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے دونوں ایک دوسرے کے جوہری دفاع کو خطرناک حد تک اپنے سے کم تر شمار کر رہے ہیں۔‘ اس صورت حال کو دیکھ کر ماہرین کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کی افواج کے درمیان زیادہ سے زیادہ روابط استوار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ کسی حادثہ سے بچا جا سکے۔ دونوں ممالک کے درمیان ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز کی سطح کے علاوہ ملٹری میں کسی اور سطح پر روابط نہیں ہیں۔ جبکہ دوسری طرف بھارت اور چین کے درمیان فیلڈ اور سیکٹر سطح پر بھی روابط رہتے ہیں۔ جوہری خطرے کو کم کرنے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ ہے کہ پرتشدد معاملات کو سفارتی بات چیت کے ذریعے حل کیا جائے کیونکہ یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ کب پر تشدد تنازع خطرناک شکل اختیار کرلے ۔ماضی میں عسکری اور سیاسی اعتماد سازی کے اقدامات نے پاک بھارت تعلقات میں ایک مثبت کردار ادا کیا ہے۔ اگر’’سائبر سپیس’’ کے امور میں بھارت اور پاکستان شفافیت اپنائیں تو غیر ارادی حادثات سے بچاؤ کیا جا سکتا ہے۔ امریکی اسکالر مائیکل کریپون کے مطابق بھارت اور پاکستان کے درمیان ملٹری اعتماد سازی کے اقدامات ماضی میں خاصے کارگر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 1965کی جنگ کے دوران بھارتی فضائیہ کے سربراہ ائیر مارشل ارجن سنگھ اور ان کے پاکستانی ہم منصب ائیر مارشل اصغر خان نے اتفاق کیا تھا کہ دونوں ممالک کی فضائیہ رن آف کچھ کے کھلے ریگستان میں انفنٹری کو نشانہ نہیں بنائیں گے۔ اسی طرح 1971میں دونوں ممالک نے ایک دوسرے کی سویلین آبادی، آبپاشی کے نظام و ڈیموں کو نشانہ بنانے سے گریز کیا۔ ملٹری اعتماد سازی کس حد تک کامیاب رہتی ہے، اس کی مثال لائن آف کنٹرل پر پچھلے ایک سال سے جاری سیز فائر ہے۔ اعتمادسازی کسی بھی سطح پر کی جائے جب تک اس سے حاصل شدہ اعتبار اور بھروسہ کو سیاسی مسائل کے حل کیلئے استعمال نہیں کیاجاتا، تو تاریخ اور تجربات بتاتے ہیں کہ یہ عارضی ثابت ہوتے ہیں۔ چین اور بھارت کے درمیان اعتماد سازی کی وجہ سے پچھلے 50سالوں میں سرحد پر ایک بھی گولی نہیں چلی تھی مگر جب اس کا استعمال سرحدوں کا تعین کرنے کے بجائے مسائل کو ٹالنے کیلئے کیا گیا تو ان ممالک کی افواج اب ایک بار پھر ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں۔ یہی حال بھارت اور پاکستان کا بھی ہے۔ دونوں ممالک کیلئے لازم ہے کہ وہ سیاسی تنازعات کا پر امن راستہ تلاش کرکے اس خطے کو تباہی سے بچا ئیں۔ (ختم شد)