یقین کچھ بھی نہیں ہے گمان کچھ بھی نہیں جو تو نہیں ہے تو سارا جہان کچھ بھی نہیں ترے ؐ ہی نام سے پہچان ہے مرے آقاؐ وگرنہ اپنا تو نام و نشان کچھ بھی نہیں اور یہ پیارا نام لہو میں اگر نہیں ہے رواں یہ جسم کچھ بھی نہیںیہ جان کچھ بھی نہیں۔ لبوں پہ نام محمدؐ ہے زمزمہ پیرا ہمارے فکر کہ ورنہ اڑان کچھ بھی نہیں۔ میں ابھی تک ماہ مصطفی میں ہوں مجھے نہیں معلوم کہ یہ ترکیب میں نے کیسے بنا لی بس محبت کا اعجاز ہے یہ مہینہ میرے پیارے نبی کی ولادت کا ہے محافل ہو رہی ہیں اور ہم نبیﷺ کی پیاری باتوں کی بارش میں بھیگ رہے ہیں۔ ایک ایسی ہی محفل ڈاکٹر افتخار منہاس کے ہاں ہوئی اس میں مولانا مفتی حبیب اللہ صاحب نے حضور پرنور کی سیرت ایسے بیان کی کبھی دل میں پھول کھلتے رہے اور کبھی آنکھوں سے محبت کے آنسو رواں ہو گئے ۔انہوں نے سیرت کو محبت اور محبت کو اطاعت کے ساتھ ایسا جوڑا کہ دونوں الفاظ ہم معنی ہو گئے ۔ یعقوب پرواز کا لازوال شعر آ گیا: جس طرح ملتے ہیں لب نام محمدؐ کے سبب کاش ہم مل جائیں سب نام محمدؐ کے سبب میرے پیارے اور معزز قارئین ذہن میں رہے کہ دین وہ ہی جو پیارے نبی محمدؐ لے کر آئے اور جو آپؐ نے اپنے ستاروں یعنی صحابہ کو سکھایا اور پھر اپنی بات نہیں کی اللہ کی بات کی اپنے خالق کا پیغام دیا کہ آپؐ اپنے پاس سے کچھ نہیں کہتے وہی کہتے ہیں جو آپ پرؐ وحی ہوتا ہے اور صاحب قرآن ‘ قرآن ہی سے بتا رہے کہ اللہ فرما رہے ہیں کہ اے مرے محبوب انہیں بتا دو کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو پھر میری یعنی حضور پرنور کی پیروی کرو تو اللہ تم سے محبت کرے گا یہ ہے دین کی اساس کہ حضور نے بتایا کہ محبت کیا ہے محبت حضور ﷺکی اطاعت ہے اور پھر آپﷺ نے کہا کہ اطاعت کرنے والا میرے ساتھ جنت میں ہو گا۔ سبحان اللہ خالد احمد یاد آ گئے: خالد احمد تری نسبت سے ہے خالد احمد تونے پاتال کی قسمت میں بھی رفعت لکھی میں تو آج مولانا حبیب اللہ کی ایمان افروز باتوں سے سرشار ہوں سمجھ میں نہیں آتا کہ ایک کالم میں کیا کچھ لکھوں۔ انہوں نے اس تبدیلی کی بات کی کہ جو آقاؐ لے کر آئے اس تبدیلی کے کئی پہلو ہیں مگر تین پہلو بیان کیے جو سنہری الفاظ میں لکھنے کے قابل ہیں۔ ایک تبدیلی تو یہ آئی کہ جھوٹی اور غیب کی غلط باتوں کا خاتمہ ہوا کہ پہلے جنات آسمان کی باتیں کاہنوں کو بتاتے تو آقاؐ کی آمد پر یہ سلسلہ بند کر دیا گیا ۔ دوسری تبدیلی آقاؐ نے عورت کو عزت دی اور اسے زندہ رہنے کا حق دیا وہ جو بچیوں کو زندہ دفن کر دیا کرتے تھے آپؐ نے آ کر عورت کو مقام دیا تیسری تبدیلی معیشت کی کہ آپؐ نے گورنروں کو بھی کہا کہ امیروں سے لے کر غریبوں میں تقسیم کرو یہ زکوۃٰ۔ و صدقات اور دوسری رقوم اگر دیانتداری سے دی جائیں سب کچھ بدل جائے وہ شاندار واقعہ کہ جب قیصرو قصرا کے خزانے مسجد نبویؐ میں ڈھیر کئے گئے تو ان گٹھڑیوں میں حضرت عمرؓ وہ کنگن تلاش کرتے رہے کہ جس کے بارے میں آقاؐ کی پیش گوئی تھی دو دن کی تلاش میں نہ ملے تو حضرت عمر پریشان ہوئے تیسرے دن ایک مجاہد وہ کنگن لے کر حاضر ہوا کہ وہ راستے میں بیمار پڑ گیا تھا اور اب امانت لے کر امیر المومنین کے پاس پہنچا ہے حضرت عمرؓ نے تاریخی جملہ کہا کہ اس قوم کو کوئی شکست نہیں دے سکتا جس کے پاس ایسے مجاہد ہوں جو امانت کی ایسے حفاظت کریں اور پہنچا دیں پاس کھڑے عبداللہ بن مسعود نے کہا اور وہ قوم کبھی ختم نہیں ہو سکتی جسے اللہ نے آپ سا امیر دیا۔ چلتے چلتے ایک واقعہ بیان کرتا چلوں کہ جب حاتم کی بیٹی قیدیوں میں لائی گئی تو حضورؐ نے اپنی کملی اس کے سر پر دے دی۔ صحابہ نے کہا یہ تو کافر کی بیٹی ہے آپؐ نے کہا بیٹی بیٹی ہوتی ہے پھر یہ بھی کہا کہ اس کے والد میں ایک خوبی مومنوں والی تھی کہ وہ سخی تھا حاتم کی بیٹی نے درخواست کی کہ اے اللہ کے محبوب ہمارے گائوں کے لوگوں کا مال واپس کروا دیں مال غنیمت بٹ چکا تھا۔ حضورؐ نے اعلان کروا دیا سارا مال واپس آ گیا حاتم کی بیٹی آبدیدہ ہو گئی اور پھر کہا اے اللہ کے رسولؐ لوگ میرے باپ کو سخی کہتے تھے اگر میرا والد زندہ ہوتا تو دیکھتا کہ کائنات کے سب سے بڑے سختی تو آپؐ ہیں۔ اب آخر میں وہ شاندار واقعہ کہ جب حاتم طائی کا بیٹا عدی بن حاتم جو کہ مسلمان ہو چکا تھا حضورؐ کی محفل میں آیا اور سوال کیا کہ اس کے علاقے میں قحط پڑ گیا ہے حالات بہت خراب ہیں۔آپؐ خاموش رہے۔ عدی بن حاتم بیٹھ گیا ایک اور شخص آیا اور اس نے کہا کہ اس کے علاقے میں کچھ محفوظ نہیں چوری ڈاکے اور عزتیں بھی محفوظ نہیں۔پھر وہ بھی ایک طرف بیٹھ گیا کچھ توقف کے بعد حضورؐ عدی بن حاتم سے مخاطب ہوئے اور کہا (مفہوم) دیکھو عدی ایک وقت آئے گا کہ ایک خاتون مکمل طور پر سونے کے زیور پہنے ہوئے اپنے گائوں سے چلے گی اور مدینہ پہنچے اور پھر مدینہ سے واپس اپنے گائوں۔ اسے نظر اٹھا کر کوئی نہیں دیکھے گا۔ دوسری بات قصرو قصری کے سارے خزانے مدینہ آئیں گے اور تقسیم ہونگے تیسری بات لوگ ایسے خوشحال ہو جائیں گے کہ زکوٰۃ لینے والا کوئی نہیں ہو گا۔ حضرت عدی بن حاتم ؒ فرماتے ہیں کہ میری حیرت کی انتہا نہ رہی مگر حضورؐ کے منہ سے نکلی بات تھی حق اور سچ تھی پھر فرماتے ہیں کہ میں نے حضورؐ کے بعد حضرت عمرؓ کے زمانے میں اپنی آنکھوں سے یہ سب کچھ دیکھا اس خاتون کو بھی دیکھا جو اپنے گائوں سے چلی اور مدینہ آئی طواف کیا ان کا گائوں بھی راستے میں تھا قیصرو قصریٰ کے خزانے مسجد نبوی میں ڈھیر ہوئے کنگن کی تلاش اور مجاہد کا کنگن لانا سب کچھ میں نے دیکھا۔ تو جناب تبدیلی اس کو کہتے ہیں جب انصاف ہوا جب کوئی اللہ کا خوف ہو جب افراد تبدیل ہوں بہت کچھ لکھنے والا رہ گیا خلاصہ یہی کہ حضورؐ کی اطاعت اور اطاعت۔