آج " یوم عرفہ" ہے ، حج کا رکنِ اعظم ، جس کی ادائیگی کے لیے حجاج ِکرام علی الصبح منٰی سے عرفات کے لیے روانہ ہوتے اور وہاں سہ پہر تک قیام کرتے ہیں ، روح پرور اور ایمان افروزمناظر اور مظاہر --- لَبَّیک اَ للّھُمَّ لَبَّیک کی پُرکیف صدائیں،حاجی یوں محسوس کرتا ہے کہ جیسے واقعتا اللہ رب العزت کی بارگاہ میں حاضرہوگیا ہے ۔ اس موقع پر آنجناب علیہ الصلوۃ و السلام کی جو کیفیات بیان ہوئی ہیں ، جس خشیّت، لجاجت اور عجز کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس مقام پر دُعائیں فرمائیں ، کتبِ احادیث اور سیّر میں محفوظ اور موجود ہیں اور اُن کا مطالعہ ایمان کی تازگی کا باعث ہے ۔ حضرت ابنِ عباس اس موقع پر ایسی ہی ایک کیفیت کو روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حجۃ الوداع کے موقع پر دُعا مانگ رہے تھے : ـ"اے اللہ تو میری گفتگو کو سنتا ہے ۔ میر ی قیام گاہ کو دیکھ رہا ہے ۔ میرے باطن اور ظاہر کو جانتا ہے ، میرے حالات میں سے کوئی چیز تجھ پر مخفی نہیں ، میں غمزدہ اور فقیر ہوں ۔ میں تیری جناب میں فریاد کرنے والا ہوں ، پنا ہ مانگنے والا ہوں ، ڈرنے والا ، خوفزدہ ، اپنے گناہوں کا اقرارو اعتراف کرنے والا ، میں تجھ سے ایک مسکین کی طرح سوال کرتا ہوں اور ایک گنہ گار ، ضعیف اور کمزورکی عاجزی کی طرح عاجزی کرتاہوں اور تیری جناب میں اس طرح دعا کرتا ہوں جس طرح ایک ڈرنے والا نابینا دعا مانگتاہے ، جس کی گردن تیرے لیے جھک گئی ہے ، جس کے آنسو تیرے ڈرسے بہ رہے ہیں ، جس کا جسم عاجزی کررہا ہے ، جس کی ناک تیری بارگاہ میں خاک آلود ہے ۔ اے میرے اللہ! مجھے شقی نہ بنانا اور میری دُعا قبول کرنا اور میرے ساتھ مہربانی اور رحم کا سلوک کرنا۔ اے ان سب سے بہتر ،جن سے مانگا جاتا ہے اور ان سب سے بہتر جو عطا کرتے ہیں۔" اس حج کے موقع پر معروف "خطبہ حجۃ الوداع" کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیگر مقامات پر بھی بہت تاریخ ساز اور عہد آفریں خطبات اور فرامین عطا فرمائے ۔ عرفات سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منٰی میں واپس تشریف لائے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی اونٹنی عضبأ پر سوار تھے ، جس کی گردن کے نیچے عمر و بن خارجہ پر وٹو کو ل ڈیوٹی سر انجام دے رہے تھے ، اونٹنی کا لعاب ان کے دو کندہوں کے درمیان گِررہا تھا ، یہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو خطبہ ارشاد فرمایا اس کی راہنمائی میں عرب کی تقویم اور کیلنڈر کے سارے مغالطوں کا قلع قمع فرمایا : "حاضرین میری بات توجہ سے سنو! زمانہ گردش کرتے ہوئے اس حالت پر پہنچ گیا جب اس کا آغاز ہوا، جس دن آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا گیا ۔ سال کے بارہ مہینے ہیں، اِن میں سے چار حرمت والے ہیں ۔ تین لگاتار ہیں ذوالقعد ہ ، ذوالحجہ اور محرم اور رجب جو جمادی الثانی اور شعبان کے درمیان ہے ۔ " کائنات ارضی کے، اِس نظامِ"تکوین اور تقویم" میں اللہ تعالیٰ نے بڑی ترتیب اور حکمت رکھی ہے ، ابتدائے آفرینش ہی سے خالقِ کائنات نے ماہ ِوسال کو بارہ ماہ میں تقسیم فرمادیا ، جیسا کہ سورۂ توبہ کی آیت 35 میںا رشاد ہے : "بیشک اللہ کے ہاں مہینوں کی تعداد بارہ ہے ، اللہ کے قانون میں ، جس دِن سے اُس نے پیدا کیا آسمانو ں اور زمینوں کو ، ان میں سے چار مہینے محترم ہیں ـ۔" یہ بارہ مہینے کون سے ہیں---؟ انسانی تاریخ کے مطالعہ سے یہی بات معلوم ہوتی ہے کہ زمانہ قبل از تاریخ میںماہ سال کا کوئی حساب نہ تھا ، شعورِ انسانی کے ارتقا کے ساتھ یہ سلسلہ بھی فروغ پذیر ہوا، چنانچہ46 قبل مسیح میں جولیس سیزر کے دور میں " جولین کیلنڈر" معرضِ وجود میں آیا ۔ یہ کیلنڈر موسموں اور نظامِ شمسی سے منسلک تھا ، پندرھویں یا سولہویں صدی میں اسی جولین کیلنڈر میں کچھ معمولی تبدیلی کر کے ایک دوسرا کیلنڈر تشکیل دیا گیا جو "گریگورین کیلنڈر " کے نام سے موسوم ہوا، یہ اور جولین کیلنڈر ایک دوسرے کے قریب تھے ۔ ایک اور کیلنڈر بھی زمانہ قدیم سے جاری ہے جیسے قمری تقویم کے مطابق"لونر(Lunar) کیلنڈر" کہتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ عبادات میں اسی" لونر کیلنڈر" ہی کو اختیار فرمایا گیا ۔ البتہ 24 گھنٹے کے دوران عبادات کی تعمیل اور تکمیل کے لیے سولر کیلنڈر کو اہمیت دی گئی ۔ اس لیے کہ زمین کے ہر خطے میں سورج کا ایک خاص وقت میں طلوع ہونا ، نصف النہار تک پہنچنا اور پھر رفتہ رفتہ غروب ہونا ، ایک طے شدہ معمول کے مطابق ہے ۔ چنانچہ جن عبادات کا تعلق اوقات (Timing)کے ساتھ ہے،انہیں سولر سسٹم (نظام ِ شمسی) سے جوڑدیاگیا اور جن عبادات کا تعلق ماہ وسال سے ہے،انہیں "لونرکیلنڈر"یعنی قمری نظام سے جوڑدیا گیا ۔ چاند کا طلوع و غروب خطوں اور ملکوں کی تقسیم سے ماروأ ہے ، صحرا ہوں یا پہاڑ، دریا ہوں یا سمند ، اسے تو ہر آنگن اور ہر قریے اور ہر خطّے میں طلوع ہونا ہے ، چنانچہ ایک دن آتا ہے جب یہ ہلال بن کر آسمانِ دنیا پر ہویدا ہوتا ہے تو نئے قمری مہینے کا آغاز ہوجاتا ہے ، اور پھر بتدریج ماہِ کامل--- اور پھر اس کے اندر کمی واقع ہوتی ہے اور مہینے کے اختتام پر نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے ۔ اس کی گردش کو مانپنے کے لیے سائنسی آلات کی ضرورت نہیں ۔ اسلام نے اپنی آفاقیت کے سبب، اسی قمری کیلنڈر کو اختیار کیا اور بالخصوص سالانہ عبادات کو اس کے ساتھ متصل فرمادیا ، جس میں بطور ِخاص ماہِ رمضان کے روزے اور ماہِ ذوالحجہ میں حج کی عبادت قابلِ ذکرہیں، جس کے تشریق کے ایام، یومِ عرفہ، یوم ِ نحر اور یومِ تر ویہ انہیں قمری تاریخوں کے مطابق مقرر فرما دیئے ۔ زمانہ قبل از اسلام میں،عربوں کی اکانومی بیرونی تجارت اور مقامی سطح پر حج کے اجتماع کے ساتھ جُڑی ہوئی تھی ، جس میں موسمی تغیر و تبدیل بہت اہمیت رکھتا تھا ، قرآنِ پاک کی سورۃ قریش میں بھی ، قریشیوں کے تجارتی کارروانوں کا ذِ کر ہے اور اس میں بھی اِس امر کو ملحوظ رکھا گیا کہ تمہارے تجارتی فاصلے گرمیوں میں شام کی طرف اور سردیوں میں یمن کی طرف جاتے ہیں ۔ اسی طرح مکہ میں حج کے ایام میں دنیا کے مختلف خطّوں اور بر اعظموں سے حجاج کے قافلے مکہ آتے تو ساتھ تجارتی میلے بھی لگتے ، شعرو سخن کی محفلیں بھی آراستہ ہوتیں ، خطّے کی اکانومی مستحکم ہوتی ، جس کے لیے عکاط ، ذوالمجازوغیرہ شہرت کے حامل تھے۔ دنیا بھر میں ایسی اقتصادی اور ثقافتی سرگرمیوں کے لیے خوشگوار موسم از حد اہمیت کا حامل ہوتا ہے ، قارئین جو پنجاب کی ثقافت سے آگاہ ہیں ، وہ جانتے ہیں کہ ہمارے خطّے میں بھی ایسے میلوں اور فیسٹیول کا انعقاد کشادہ اور خوش کُن موسم میں ہوتا ۔ اس لیے کہ لوگوں کو سخت موسم میں سفر اور قیام میں دِ قّت ہوتی ہے ، جس کے سبب قافلوں کی آمدورفت کے متاثر ہونے کا خطرہ ہوتا ہے ، جس کا لامحالہ اثر خطے کی اقتصادیات و معاش اور رونق پر پڑتا ہے۔ حج کی عبادت چونکہ قمری کیلنڈر سے وابستہ ہے ، جس کے ماہ وسال بتدریج تبدیل ہوتے رہتے ہیں ۔ کبھی حج سخت سرد موسم میں اور کبھی سخت گرم موسم میں آسکتا ہے ۔ یہ شدید موسم ان کی اکانومی کے لیے موزوں نہ تھے ، چنانچہ اس کے لیے انہوں نے آج کی جدیداصطلاح میں " لو نی سولر کیلنڈر "طرز کی کچھ اصلاحات متعارف کروائیں ، جس کے مطابق قبائلی عمائدین نے ایک "کبیسہ" کامہینہ وضع کر لیا ۔