آخر کار وہی ہوا ، جس کی ہم عرصے سے پیش گوئیاں کر رہے تھے، کہ کے پی کے ، تحریک انصاف کا ہوگا۔ پنجاب ن لیگ کا ، سندھ پیپلزپارٹی کا اور بلوچستان میں مکس اچار حکومت بنے گی اور مرکز کے بارے میں 90فیصد یہی کہا جا رہا تھا کہ ن لیگ ہی اقتدار میں آئے گی۔ جی ہاں ! بالکل ایسا ہی ہوا۔ اور گزشتہ روز وزیر اعظم شہباز شریف نے ملک کے 24 ویں وزیرِ اعظم اور 16 ویں قائدِ ایوان کا حلف اُٹھا لیا ہے، انہوں نے پارلیمنٹ میں تقریر میں کہا کہ نواز شریف کو ملک میں ترقی و خوشحالی کے مینار قائم کرنے کی سزا دی گئی، ملک کی ترقی پر نواز شریف کی تختیاں لگی ہیں… نواز شریف کی حکومت کا 3 بار تختہ الٹا گیا، کیسز بنے، جلا وطنی پر مجبور کیا گیا۔نہ نواز شریف، نہ آصف زرداری، نہ بلاول نے پاکستان کے مفاد کے خلاف بات کی نہ سوچا، جب بے نظیر شہید ہوئیں تو آصف زرداری نے کہا پاکستان کھپے… ان کی باری آئی تو انہوں نے اپوزیشن کو سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا۔وزیراعظم نے کہا کہ جیلوں میں قید خواتین اور بچے جو سنگین جرائم میں ملوث نہیں اور سزا 2 سال سے کم ہے انہیں رہا کر کے تربیت دیں گے۔کھاد کمپنی کے بجائے کسانوں کو سبسڈی دیں گے، خواتین کو مردوں کے برابر تنخواہ اور حقوق دیے جائیں گے، نئے کاروبار کے لیے ماحول بنانا آسان نہیں، فرسودہ قوانین ہیں، فرسودہ قوانین کا خاتمہ کریں گے تاکہ سرمایہ کار پاکستان آنے سے ہچکچائے نہیں۔انہوں نے اپوزیشن کے ساتھ مفاہمتی رویہ اپنانے پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ میں اپوزیشن کو ’’میثاق ‘‘ مفاہمت کی پیش کش کرتا ہوں۔ اب بندہ پوچھے ایک طرف تو آپ اپوزیشن کو دیوار کے ساتھ لگا رہے ہیں اور دوسری طرف آپ مفاہمت کی بات کر رہے ہیں، کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟ آپ زیادہ دور نہ جائیں، آپ نے وزیر اعظم کے الیکشن کے دن ہی اپنی تقریر براہ راست تمام چینل پر چلوا لی۔ لیکن جیسے ہی مدمقابل تحریک انصاف کے اُمیدوار عمر ایوب تقریر کرنے آئے ، اُن کی تقریر کو براہ راست ٹیلی کاسٹ کرنے سے روک دیا گیا۔ پھر ہفتے کے روز تحریک انصاف کے کارکنان کے ساتھ جو کچھ کیا گیا ہے، کیا وہ درست تھا؟ انہیں لاہور کی سڑکوں پر ایک مرتبہ پھر گھسیٹا گیا۔ کیا اُس سے نفرت مزید نہیں بڑھے گی؟ اس کے بعد وہ آپ سے تعاون کیسے کریں؟ آپ اُن سے بنیادی حقوق ہی چھین رہے ہیں تو کیسے ممکن ہے کہ وہ آپ کے لیے مثبت خیالات رکھیں؟ اورپھر آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ اپوزیشن کام کرنے دے گی تو ہم کرسکیں گے،لیکن جو کام آپ نے گزشتہ 16مہینے والی حکومت میں بغیر اپوزیشن کیے ہیں، اُن کے بارے میں کیا خیال ہے؟ اگر ڈلیور کرنا ہوتا تو اُس دور میں کر دیتے، اُس وقت اسمبلیوں میں نہ تو اپوزیشن تھی اور نہ ہی کہیں کوئی کام کرنے کے حوالے سے رکاوٹ تھی۔ اُس وقت انہوں نے کارکردگی کا کونسا بم چلا دیا ؟ اب ہوگا یہ کہ ان سے ہونا کچھ بھی نہیں ہے، نہ معاشی حالات کنٹرول ہونے ہیں اور نہ ہی سیاسی حالات بلکہ اگلے پانچ سال 8فروری کو ہونے والی دھاندلی کو ہی پیٹا جائے گا۔ محمود خان اچکزئی کے گھر میں چھاپہ مار ا گیا، اور انہوں نے آج ہی حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان بھی کر دیا ہے،کیا گورنمنٹ چاہتی ہے، کہ اپوزیشن اُن کے ساتھ فیئر ہو کر چلے؟میں تو سمجھتاہوں کہ حکومت خود نہیں چلنا چاہتی ۔حکومت تو خودچاہتی ہے، کہ کچھ ایسا ہو کہ اُن کی جان حکومت سے خودبخود چھوٹ جائے۔ کیوں کہ انہیں پتہ ہے کہ اُن سے ان حالات میں حکومت نہیں ہوگی۔ وزیر اعظم کی پہلی تقریر میں یہ تاثر ملنا چاہیے تھا کہ سیاسی قیدیوں کو فوری رہا کیا جائے گا، یا ان قیدیوں کے لیے ساز گار حالات فراہم کیے جائیں گے تاکہ وہ جلد واپس گھروں کو جا سکیں۔ یا چلیں خواتین سیاسی قیدیوں کو ہی رہا کرنے کا حکم دے دیتے ،جب آپ ریلیف دینے ، مفاہمتی سیاست کو فروغ دینے ، پولیس پر کنٹرول رکھنے ،گھروں میں چھاپوں کو روکنے ، جب آپ ہاتھ بڑھانے ،جھوٹے مقدمات واپس لینے، دھاندلی زدہ الیکشن پر انکوائری اور ری کائونٹنگ کرنے، پرامن احتجاج کی اجازت دینے ک اور مخالفین کو کارنر میٹنگز کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں ہیں تو کیسے ممکن ہے کہ اپوزیشن بھی آپ کے ساتھ کسی پلیٹ فارم پر ساتھ چلے گی۔ اس طرح تو یہ حکومت مسائل کا شکار رہے گی ۔ اس وقت پیپلزپارٹی کی سیاست بھی منافقت پر مبنی ہے، اگر شہباز شریف کامیاب ہوجاتے ، اگر یہ سسٹم ناکام ہوتا ہے، تو وہ اس میں برابر کے شریک ہیں۔ جو کچھ ہو رہا ہے کہ بقول شاعر وہ ملک کے لیے بہتر نہیں ہے۔ آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی اور اگر ہم وزیر اعظم شہباز شریف کے بارے میں بات کریں تو وہ یقینا پنجاب کی حد تک لاہور کے لیے بہترین تھے، تاریخ گواہ ہے کہ ان تین چار دہائیوں میں سب سے طاقتور حکومت بھی ن لیگ ہی کے حصے میں 1997ء میں آئی تھی جب اسے دو تہائی اکثریت حاصل ہوئی تھی۔ یہ حکومت بھٹو کے بعد سب سے مضبوط حکومت تھی۔ یہ اتنی مضبوط حکومت تھی کہ اُس وقت کے وزیر اعظم میاں نوازشریف نے آرمی چیف سے بھی استعفیٰ لے لیا تھا۔ یہ اُن کی بڑی سیاسی غلطی تھی جو اُنہیں پرویز مشرف کی ایمرجنسی کی صورت میں اور اپنی حکومت کے خاتمے کی شکل میں ملی ۔ لیکن وہ آج بھی اسے اپنا ایک بڑا کارنامہ ہی بتاتے اور گردانتے ہیں۔ لہٰذااگر اُس وقت نوازشریف بقول اُن کے اتنا بڑا اقدام کر سکتے تھے لیکن پھر بھی اُن کی مقتدرہ کے ساتھ نہیں بنی اور چلتے بنے تو کیا ن لیگ کی اب بن سکتی ہے؟ اس پر ہمیشہ سوالیہ نشان ہی رہے گا۔ لہٰذااُمید یہی کی جا سکتی ہے کہ موجودہ حکومت سابقہ 16مہینے والی کارکردگی نہیں دہرائے گی اور عوام کو ریلیف دے گی۔ کیوں کہ فی الوقت تو عوام کو دنیا کی مہنگی ترین بجلی سے نوازا جا رہا ہے؟مہنگی ترین پٹرولیم مصنوعات سے نوازا جا رہا ہے؟ کونسا ملک ہے جو اس وقت عوام کو مہنگائی کی شرح 40فیصد سے زیادہ دے رہا ہے؟ قصہ مختصر کہ جب ان کی حکومت آتی ہے تو اُس وقت ان کے بیانات کچھ اور ہوتے ہیں اور جب یہ اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو ان کے بیانات دیکھنے اور سننے کے قابل ہوتے ہیں۔ لیکن میں پھر یہی کہوں گا کہ اچھے کی اُمید کرنی چاہیے اورشہباز شریف کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ کمر کی تکلیف کے باوجود وہ صبح جلد اٹھنے کے عادی اور رات دیر تک کام کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ الغرض ایک متحرک رہنما اور بہترین ایڈمنسٹریشن کی بدولت اپنی پہچان رکھتے ہیں۔ دعا ہے کہ جو کچھ ہو وہ ملک کے لیے بہتر ہو اور یہ تبھی ممکن ہے جب آپ اپنے مخالفین ریلیف دیں گے!