گزشتہ سال کی آخری سہ ماہی فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی سے لہو لہان تھی جب ہم دھند آلود یخ بستہ دن گزارتے ہوئے 2023 سے 2024 میں داخل ہوئے۔زندگی کی تمام تر مشکلات کے باوجود ایک عزم ایک امید اور خواب درد دل پر دستک دیتے تھے مگر فلسطینی جو دن رات ہولناک بمباری اور موت کے وحشت ناک سائے میں سانسیں کھینچنے پر مجبور ہوں ان کی زندگی کے کرب اور اذیت کا اندازہ لگانا مشکل ہے ۔عالمی منڈی کے طاقتور ، ایک بدفطرت ،لہو کی پیاسی ویمپائر کی صورت ہیں جو فلسطین کے بچوں کے کومل بدنوں میں دانت گاڑے ان کا لہو چوس رہی ہے۔دولت مند عرب ملک چپ ہیں! مسلم دنیا بے حسی سے کنگ ہے! کوئی زبان نہیں کھولتا ! کوئی آواز نہیں اٹھاتا ! جنگ جاری ہے اور زندگی فلسطینی بچوں کے لیے ڈراونے خواب سے بھی زیادہ ڈراؤنی ہو چکی ہے ،فلسطینی بچے اپنی زندگیوں پر جنگ کی قیامت خیزی جھیل رہے ہیں۔اس جنگ میں 50 فیصد سے زیادہ مرنے والے معصوم بچے ہیں جنہوں نے کسی کا کچھ نہیں بگاڑا لیکن دنیا کی طاقتیں اپنے جدید ترین مہلک ہتھیاروں کے ساتھ ان کے کومل بدنوں کو روند دینا چاہتی ہیں۔غزہ کی جنگ میں بچ جانے والے بچوں کی لہو لہو داستانیں کون سنے گا ؟ ہر بچے کی ایک کہانی ہے ،وہ بچے جو شہید ہو گئے وہ تو جنت کے پھول ہوئے مگر جو زخمی ہیں ،ایسے ہسپتالوں میں ہیں جو خود بمباری کی زد میں ہیں، وہ ان ڈاکٹروں کے زیر علاج ہیں جو خود زخمی ہیں، دکھ سے نڈھال ہیں ،ناکافی دوائیں ،ناکافی خوراک اور شدید سردی میں غزہ کے بچے ہولناک زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ دس سالہ یوسف بھی انہی میں سے ایک ہے۔ 23 اکتوبر اس کے گھر پر بمباری ہوئی اور اس کی آنکھوں کے سامنے اس کی ماں باپ اور بھائی شہید ہو گئے۔ وہ اپنے خاندان میں تنہا رہ گیا اب وہ اپنے رشتہ داروں کے ہاں رہتا ہے۔یوسف کہتا ہے کہ وہ سونے سے پہلے اپنے ماں اور باپ کو تصور میں لاتا ہے اس کی ماں اسے کہانیاں سناتی تھی ،وہ اپنے باپ کے کاندھے پہ سر رکھ کے سوتا تھا۔ وہ اپنے بھائی کے ساتھ کھیلتا تھا پھر 23 اکتوبر کو جنگ کی بمباری میں اس کا گھر ملبہ بنا۔ یوسف کے ماں باپ اور بھائی اگلے جہان چلے گئے انہی شہادت نصیب ہوئی مگر اب یوسف اکیلا ہے اپنے رشتہ داروں کے ساتھ رہتا ہے۔ جو اسے بہلانے کی کوشش کرتے ہیں۔غزہ میں یتیم ہونے والے بچے، زخمی ہونے والے بچے، بے گھر، جنگ زدہ بچوں کی حقیقی تعداد نامعلوم ہے۔ کیونکہ لگتا یہ ہے کہ یہ جنگ غزہ کے بچوں کو ختم کرنے کے لیے شروع کی گئی اسلیے سب سے زیادہ بچے ہی اس جنگ کی زد پر ہیں۔ بمباری میں ٹوٹے پھوٹے ،نہ کافی سہولتوں والے ہسپتال ،زخمی بچوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ یہ جدید دنیا ہے اور حالات کے مطابق نئی نئی اصطلاحیں ایجاد کرتی رہتی ہے سو ایک نئی اصطلاح مغربی دنیا کے میڈیا میں لکھی جا رہی ہے ڈبلیو سی این ایف WCNSF یہ wounded family surviving no child کا مخفف ہے جنگ زدہ بچوں کی کہانیاں سماعتوں میں سیسہ اتارتی ہیں ،دل کو لہو لہو کر دیتی ہیں۔14سالہ کریم اپنی شہید ماں کو یاد کرتا ہے کہ ماں مجھ سے بہت پیار کرتی تھی وہ مجھے جب بھی کچھ نئی چیز دلانے کا وعدہ کرتی وہ ہمیشہ وعدہ پورا کرتی تھی۔ جب جنگ شروع ہوئی تو ماں نے وعدہ کیا تھا کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ جڑے رہیں گیتاکہ اس جنگ کی وحشت ناک بمباری میں اگر ہم مارے جاتے ہیں تو ہم اکٹھے اللہ کی راہ میں شہید ہوں۔مگر میری ماں نے 3دسمبر کو یہ وعدہ توڑ دیا اور مجھے اور چھوٹے بھائی کو چھوڑ کر چلی گئی ۔ میری ماں اور میرا باپ شہید ہو گیا ہے لیکن میں زندہ بچ گیا ہوں میں سوچتا ہوں ماں نے وعدہ کبھی نہیں توڑا تھا۔پھراب وہ اپنا آخری وعدہ کیوں پورا نہیں کر سکی ؟والدین کی شہادت سے پہلے کریم کا بڑا بھائی خاندان میں شہید ہوا وہ جس بیکری سے بریڈ لینے گیا وہ بمباری کی زد میں آگئی اس کا بڑا بھائی وہیں شہید ہو گیا۔کریم اپنی کہانی بتا کر رونے لگتا ہے اور کہتا ہے کہ میری تکلیف ناقابل برداشت ہے میں کیا کروں ؟کریم جنوبی غزہ میں اپنے رشتہ داروں کے ہاں رہتا ہے۔ وہ بچپن سے زیابیطس کا مریض ہے۔جنگ کے دنوں میں اس کا باپ ڈھونڈ کر اس کے لیے انسولین کے انجیکشن اور دوائیں لاتا تھا۔ان حالات میں کریم کے لیے دوائیں اور انسولین کے انجکشن ملنا دشوار ہو چکا ہے اس کی زندگی کے تکلیف اور مسائل کی کئی جہتیں ہیں جنگ زدہ کریں تکلیفوں کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔سیو دی چلڈرن کے کنٹری ڈائریکٹر نے رفح میں غزہ کے بچوں سے ملاقاتیں کی اور کہا کہ یہاں اتنی تکلیف ہے کہ جس کا بیان مشکل ہے۔ وہ بچے جن کے والدین بھی ان کے ساتھ ہیں اور وہ زخمی بھی نہیں ہیں لیکن جنگ کی وجہ سے ان کی مشکلات روز بڑھتی جا رہی ہیں۔وہ اپنے گھروں سے باہر خیموں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ گندا پانی پینے سے ایک لاکھ فلسطینی بچے ڈائریا کا شکار ہیں۔یہ بچے اپنی نارمل زندگیوں کو بہت یاد کرتے ہیں اور جنگ کے خوف اور سہم نے ان کو ذہنی مریض بنا دیا ہے ایسے بچوں کے لیے نفسیاتی سیشنز ہونے چاہیے جو بظاہر زخمی نہیں ہیں مگر ان کی معصوم روحیں زخمی ہو چکی ہیں۔ اس دنیا کے منافقت کا کیا کہیے ایک طرف بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کئی عالمی سطح کے ادارے غزہ میں بچوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھا رہے ہیں تو دوسری طرف انہی اداروں کو قائم کرنے والے مغربی طاقتیں فلسطینیوں کو کچل دینا چاہتی ہیں۔ وہ فلسطینیوں کی نسل کشی میں مصروف ہیں اور انسانیت کے تمام اصولوں اور قوانین کو جنگ میں جھونک چکی ہیں۔غزہ کے جنگ زدہ بچوں کی کرب اور چیخ و پکار پر دنیا کے طاقتور کان نہیں دھرتے۔ وہ معصوم فلسطینی بچوں کو کرب اور تکلیف میں مبتلا کر کے اپنے اندر کی خباثت کی تشفی کر رہے ہیں پھر یہی مغربی طاقتیں چھ جنوری کوجنگی یتیم ( war orphan )بچوں کے حقوق کا دن بھی مناتی ہیں۔عالمی منڈیوں میں اس وقت منافقت اونچے بھاؤ فروخت ہو رہی ہے !!