ان ممالک کو بھی معلوم ہے کہ اس کے جواب میں ان کو کچھ بھی حاصل نہیں ہوا۔ اس لئے ہم اس ابراہمی معاہدہ سے خوف زدہ نہیں ہیں۔ وہ خود اپنی موت آپ مریں گے۔ میں ابو مرزوق کی توجہ دلائی کہ دنیا بھر میں مسلح مزاحمتی تحریکوں کی اب شاید ہی کوئی گنجائش باقی رہ گئی ہے۔ ان گروپوں کو اب دہشت گروں کے زمرے میں رکھا جاتا ہے۔ جیسا آپ نے خود ہی دیکھا ، پورا مغرب اسرائیل کے پیچھے کھڑا ہو گیا ہے۔ کیا اس نئے ماحول میں آپ پر امن تحریک کی گنجائش نہیں نکال سکتے ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا ’’کہ 30 سال تک انہوں نے پرامن راستہ آزمایا۔ الفتح تحریک نے اوسلو معاہدے پر دستخط بھی کیے۔ 30 سال بعد نتیجہ کیا نکلا؟ ہمیں فلسطینی ریاست نہیں ملی جیسا کہ انہوں نے ہم سے وعدہ کیا تھا، اور مغربی کنارہ الگ تھلگ جزیرہ کی طرح رہ گیا ہے۔ یہودی بستیوں نے اسے ہڑپ کر لیا ہے، اور غزہ کا محاصرہ کر لیا گیا ہے۔ دونوں فلسطینی علاقوں کو ایک دوسرے سے جدا کر دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے لوگ اب صرف پرامن حل اور جدوجہد پر یقین نہیں رکھتے۔ ہم جامع مزاحمت پر یقین رکھتے ہیں جس میں مسلح مزاحمت اور عوامی مزاحمت بھی شامل ہے۔ ہمارے لوگوں نے عظیم مارچ میں شرکت کی اور سیکڑوں ہزاروں لوگ روزانہ غزہ کی سرحد پر محاصرہ توڑنے اورمغربی کنارہ کے ساتھ رابط کرنے کا مطالبہ کرتے تھے۔ مگر اس پر امن جدوجہد کا کیا نتیجہ نکلا؟ جدوجہد کو پر امن رکھنا یا اس کو پر تشدد بنانا ، قابض قوت کے اختیار میں ہوتا ہے۔ اگر وہ پر امن جدوجہد کو ایک اسپیس دے، تو یہ پرامن رہ سکتی ہے۔ ‘ ‘ ایک اور اہم سوال میرے ذہن میں تھا کہ 2006 میں حماس غزہ میں برسراقتدار آگئی۔ مغربی کنارہ کے برعکس اس خطے کے پاس سمندری حدود تھیں اور اگر گورننس پر توجہ دی گئی ہوتی تو اسکو علاقائی تجارتی مرکزمیں تبدیل کرکے مشرق وسطیٰ کے لیے ہانگ کانگ یا سنگاپور بنایا جاسکتا تھا۔اسے سے فلسطینیوں کا بھی بھلا ہوتا اور ایک طرح سے خطے میں مثالی علاقہ بن جاتا۔ مگر حماس نے اس کو میدان جنگ بنادیا۔ ابو مرزوق نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ الزام سن کر ہی عجیب لگتا ہے کہ غزہ کو ہم نے میدان جنگ بنادیا۔’’ حماس کی تحریک 1987 میں قائم ہوئی، ہم نے 2006 میں اقتدار سنبھالا، اور اسی کے ساتھ ہی ہمارا محاصرہ کیاگیا تاکہ ہم اچھی طرح حکومت نہ کر سکیں۔ اسرائیل، امریکہ، اور ظالم مغربی دنیا نے ہمیں ناکام بنانے کے لیے کوئی دقیقہ فرگذاشت نہیں کیا۔ پھر بھی ہم ثابت قدم رہے اور اسرائیل نے جان بوجھ کر ہمیں تباہ کرنے کے لیے منظم طریقے سے نشانہ بنایا۔اس صورت حال میں ہم کیسے ایک معیشت کو ترتیب دے سکتے تھے؟ کیا سنگاپور یا ہانگ کانگ کو اسی طرح کی صورت حال کا کبھی سامنا کرنا پڑا؟ خوشحالی کا پہلا قدم نظم و نسق اور مجرموں سے نجات اور پھر ریاست کی تعمیر ہے۔اسرائیلی قبضے سے قبل ہم واقعتاً خطے کے سب سے ترقی یافتہ علاقوں میں سے ایک تھے۔جب قبضہ آیا تو ہم پر جنگیں، نقل مکانی ٹھونس دی گئی۔ ہمارے آدھے لوگ فلسطین سے باہر پناہ گزین ہوگئے۔ہم ترقی اور خوشحالی کی زندگی جینا چاہتے ہیں۔ مگر کیا قبضے میں رہتے ہوئے ہم خوشحال ریاست بنا سکتے ہیں؟‘‘ میں نے پوچھا، خیر آپ نے تو اب جنگ شروع کردی ہے، اسکا انجام کیا ہوگا؟ ابو مرزوق نے جواب دیا کہ جنگ تو انہوں نیشروع کی ہے، جنہوں نے سرزمین پر قبضہ کیاہے۔ ’’میرے جوان خطے کی سب سے مضبوط ترین فوج کو بے بس کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ ہم اپنی مزاحمت اس وقت تک جاری رکھیں گے جب تک کہ ہم اپنی آزادی حاصل نہیں کر لیتے، اور ہماری آزادی ہی اس جنگ کا انجام ہے۔ ‘‘ عرب ممالک ہمیشہ ہی حماس سے خائف رہتے ہیں۔ کیونکہ حماس کو اخوان المسلمون ہی ایک شاخ تصور کیا جاتا ہے۔ ایران نے اس کی بھر پور مدد کی ہے۔ میں نے جب ان کی توجہ اس طرف دلائی، تو انکا کہنا تھا کہ فلسطینی مزاحمت ایرانی انقلاب سے پہلے موجود تھی۔ ’’ایران ہمیں مدد فراہم کرتا ہے، اور ہم اس کے لیے اس کا شکریہ ادا کرتے ہیں، اور ہم مختلف جماعتوں اور ملکوں سے ہر قسم کی حمایت حاصل کرنے کے لیے تیار ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ عرب عوام ان کے ساتھ ہیں، اور یہ ان کا بڑا سرمایہ ہے۔‘‘ خیر سوالوں کے سلسلہ کو آگے بڑھاتے ہوئے میں نے ان سے پوچھا کہ آپ اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتے۔ لیکن اسرائیل ایک حقیقت ہے۔ اگر آپ دو ریاستی فارمولے کو نہیں مانتے تو پھر آگے کا راستہ کیا ہے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ابو مرزوق نے پھر برصغیر کی تاریخ دہرائی ۔ آخر میں الٹے سوالات کا ایک بیراج میر ی طرف کرتے ہوئے کہا کہ جن فلسطینیوں نے اسرائیل کو تسلیم کیا ، تو کیا اسرائیل نے ان کی اس لچک کا جواب دے دیا؟ کیا دو ریاستی فارمولہ کو نافذ کیا ؟ کیا آپ کو پتہ نہیں کہ مغربی کنارہ میں کیا ہو رہا ہے؟‘‘ سوالات کے اس بیراج، جس کا میرے پاس ظاہر ہے کوئی جواب نہیں تھا ،کے بعد میں نے پوچھا کہ کیا مشرق وسطیٰ میں امن کی خاطر اسرائیل اور فلسطین کا ایک ساتھ رہنا ممکن ہے؟ حماس کے لیے یہ قابل قبول کیوں نہیں ہے؟ انہوں نے تاسف کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’آپ بھیڑ کے بچے سے یہ کہلوانا چاہتے ہیں کہ تم بھیڑیے کے ساتھ رہنے پر راضی ہوجائو؟ آپ کو یہ سوال بھیڑئے سے کرنا چاہیے جس کے پاس جوہری ہتھیار ہیں اور مشرق وسطیٰ میںانتہائی جدید ترین فوج کا مالک ہے۔ جہاں تک ہم فلسطینیوں کا تعلق ہے، ہم نے اوسلو میں مذاکرات کئے، دو ریاستی حل کی پری بھی ہمیں دکھائی گئی۔ پھر کیا ہوا، کیا ہمارے علاقے خالی کئے گئے؟ کیا ہمیں ریاست بننے دیا گیا؟ درحقیقت اسرائیل کے موجودہ وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو فلسطینیوں کے ذہنوں سے فلسطینی ریاست کے قیام کے تصور کو کھرچنا چاہتے ہیں۔ کیا ایسے افراد یا ایسے نظریہ کے ساتھ رہنا ممکن ہے؟ کیا ان لوگوں کے ساتھ رہنا ممکن ہے جو یہ مانتے ہیں کہ ایک اچھا فلسطینی مردہ فلسطینی ہی ہے؟‘‘ انٹرویو اختتام کو پہنچ رہا تھا۔ میں نے آخری سوال ایک توپ کی طرح داغ کر پوچھا کہ ا یک تاثر یہ بھی ہے کہ فلسطینی خود بکھرے ہوئے اور منقسم ہیں۔ دنیا میں کوئی منقسم تحریک کے ساتھ معاملات طے کرنا پسند نہیں کرتا ہے۔ سوال ختم ہونے سے قبل ہی ابومرزوق نے کہا کہ ایک مضحکہ خیز دلیل ہے۔ حماس تو 2006 میں غزہ میں برسراقتدار آئی۔ یعنی اسرائیل کے قیام کے چھ دہائیوں بعد، تو پھر ان دہائیوں کے دوران دنیا نے فلسطینی عوام کو آزادی کیوں نہیں دلائی؟ آج دنیا فلسطینیوںکے منقسم ہونے کا بہانہ ڈھونڈ رہی ہے تاکہ فلسطینیوں پر الزام دھرا جا سکے ۔ان کی بین الاقوامی پوزیشن مشکوک بنائی جائے۔۔ آزادی کے عمل کے دوران ہر ملک میں الگ اگ موقف اور رائے رہی ہے، کیا آپ کو برصغیر کی آزادی کی تحریک کی تاریخ معلوم نہیں ہے۔ مگر اس سے عمومی تحریک کی نفی نہیں کی جاسکتی ہے۔ وہ بہرحال برحق ہے۔