لاہور ہائیکورٹ میں پانچ رکنی بنچ کے سامنے یہ اہم ترین معاملہ زیر سماعت ہے کہ منحرف اراکین کے ووٹ شمار نہ کرنے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کا حمزہ شہباز پر اطلاق ہوتا ہے یا نہیں۔ حمزہ کے وکلا کی دلیل یہ رہی ہے کہ چونکہ سپریم کورٹ کا فیصلہ بعد میں آیا اور حمزہ پہلے وزیر اعلی بن چکے تھے لہذا حمزہ شہباز سپریم کورٹ کے فیصلے کی زد میں نہیں آتے ۔ ادھر پی ٹی آئی کے وکلاء کی جانب سے یہ دلیل دی جاتی رہی کہ حمزہ کے وزیر اعلی بننے سے پہلے ہی 63.A کی تشریح کا معاملہ عدالت کے پاس جا چکا تھا اور یہ کیس اسی پس منظر میں عدالت کے پاس پہنچا تھا لہذا سپریم کورٹ کے فیصلے کا ہر صورت حمزہ پر اطلاق ہو گا۔ گذشتہ روز عدالت فیصلہ سناتے سناتے رہ گئی، لاہور ہائیکورٹ نے مزید ایک دن مہلت دینے کی ایڈووکیٹ جنرل کی درخواست منظور تو کر لی لیکن جاتے جاتے اپنا ذہن واضح کر دیا جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عدالت 16 اپریل والی صورتحال پر جا رہی ہے جہاں وزیر اعلی کے لیے حمزہ شہباز اور پرویز الہی کے درمیان دوبارہ انتخاب ہو گا۔ اہم سوال یہ ہے کہ دوبارہ انتخاب کا یہ فیصلہ حمزہ شہباز کے حق میں ہو گا یا ان کے خلاف۔ میری رائے میں لاہور ہائیکورٹ کا یہ فیصلہ حمزہ شہباز کے حق میں جائے گا۔ وجہ یہ ہے عدالت بیرسٹرعلی ظفر کا دوسرا نکتہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہے ۔ بیرسٹر علی ظفر گذشتہ روز عدالت سے دو درخواستیں کرتے دکھائی دیے ۔ ایک یہ کہ عدالت دس روز کے اندر پنجاب کے وزیر اعلی کا دوبارہ انتخاب کرائے اور دوسرا یہ کہ اگر اس دوران مخصوص نشستوں والے پانچ اراکین کا نوٹیفیکشن جاری ہو جاتا ہے تو انہیں بھی ووٹ ڈالنے کا حق حاصل ہو گا۔ عدالت بیرسٹر علی ظفر کا یہ دوسرا نکتہ ماننے کو تیار نہیں ہے ۔ عدالت کہ کہنا ہے کہ جب ہم 16 اپریل والی صورتحال پر جائیں گے تو تب مخصوص نشستوں والے اراکین کا سٹیٹس بھی منحرف اراکین کا ہی ہو گا لہذا وہ ووٹ نہیں ڈال سکیں گے۔ بیرسٹر علی ظفر کا موقف ہے کہ الیکشن والے دن جس جس رکن کا نوٹیفیکشن ہو چکا ہو گا وہ ممبر کہلائے گا اور ممبر کو ووٹ ڈالنے کا اختیار ہو گا۔ کل جب سماعت ختم ہوئی ،اس وقت تک عدالت علی ظفر کی بات ماننے کے لیے تیار نہیں تھی۔ اب یہ اہم نکتہ بھی سمجھ لیجے کہ مخصوص نشستوں والے پانچ اراکین کا ووٹ ڈالنا یا نہ ڈالنا کیوں اہم ہے ۔اس کا جواب یہ ہے کہ اگر پچیس کے پچیس منحرف اراکین ووٹ کاسٹ نہیں کرتے تو پنجاب اسمبلی میں حمزہ شہباز کو دو ووٹوں کی برتری حاصل ہو جاتی ہے اور اگر مخصوص نشستوں والے پانچ اراکین کو ووٹ ڈالنے کی اجازت مل جاتی ہے تو پرویز الہی کو تین ووٹوں سے برتری مل جائے گی۔ یوں اگر آج لاہور ہائیکورٹ ممکنہ طور پر یہ فیصلہ سناتی ہے کہ پچیس منحرف اراکین کے بغیر حمزہ شہاز دوبارہ الیکشن کے میدان میں اتریں تو یہ فیصلہ حمزہ کے حق میں جائے گاکیونکہ انہیں دو ووٹوں کی برتری حاصل ہے ۔ اس سارے معاملے کا ایک اور پہلو بھی ہے اور وہ ہے سترہ جولائی کو ہونے والا ضمنی انتخاب۔ سترہ جولائی کو پنجاب کی بیس نشستوں پر ضمنی انتخابات ہونے جا رہے ہیں ۔ فرض کیجئے لاہور ہائیکورٹ میںوزیر اعلی پنجاب کے دوبارہ انتخاب کا معاملہ زیر سماعت نہ ہوتا یا اس کیس کا فیصلہ سترہ جولائی سے پہلے نہ آتا تو حمزہ کو اپنی برتری ثابت کرنے کے لیے بیس میں سے تیرہ نشستیں درکار ہوتیں ۔ اگر پی ٹی آئی حمزہ شہباز کو تیرہ سیٹیں جیتنے نہ دیتی تو پرویز الہی وزیر اعلی بن جاتے ۔ اب اگر ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد سترہ جولائی سے پہلے ہی انتخاب ہو جاتا ہے تو حمزہ کے لیے پنجاب کے ضمنی انتخابات اتنے اہم نہیں رہیں گے۔ ہاں البتہ اکثریت نہ لینے کے باعث ان پر اعتماد کا ووٹ لینے کی تلوار لٹکتی رہے گی۔لیکن اگر گورنر پنجاب انہیں اعتماد کا ووٹ لینے کا نہیں کہتے تو کم اکثریت کے ساتھ بھی وہ چلتے رہیں گے۔ ایک صورت اور بھی ہے کہ اگر سترہ جولائی کو تحریک انصاف پندرہ نشستوں پر کامیاب ہو جاتی ہے تو وہ حمزہ شہباز کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے آپشن پر بھی جا سکتی ہے لیکن موجودہ صورتحال کو دیکھاجائے تو اس میں بھی مہینوں لگ سکتے ہیں ۔ یوں آپ کہہ سکتے ہیں کہ آج اگر لاہور ہائیکورٹ کی طرف سے حمزہ شہباز کے خلاف فیصلہ آتا ہے تو یہ انہیں ایک نئی زندگی دے گا۔ 187کی اکثریت نہ سہی دو ووٹوں کی اکثریت سے دو مرتبہ انتخاب کرا کے وہ وزیر اعلی پنجاب بن جائیں گے اورحکومت کو کچھ عرصے کی مزید زندگی مل جائے گی۔ دوسری طرف پنجاب کے کئی حلقوں میں کانٹے دار مقابلے متوقع ہیں ۔ دونوں جماعتوں کے امیدوار سر دھڑ کی بازی لگانے کو بے تاب ہیں ۔ منحرف اراکین کے لیے اپنے موقف کو درست ثابت کرنے کی خاطر ہر حال میں جیت چاہیے۔ ن لیگ اور تحریک انصاف کے لیے بھی یہ انتخاب صرف وزیر اعلی کی نشستیں پوری کرنے کے لیے ہی ضروری نہیں ،اپنے بیانیے کی درستی ثابت کرنے کے لیے بھی ضروری ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پنجاب کا سیاسی درجہ حرارت بڑھ گیا ہے۔ لڑائی جھگڑے اور فائرنگ کے واقعات میں بھی اضافہ ہو گیا ہے ۔ ایک دوسرے پر ووٹ خریدنے کے الزامات بھی لگائے جا رہے ہیں ،وزرا بھی اپنا پورا زور لگا رہے ہیں۔ اندازہ ہوتا ہے کہ دونوں جماعتوں کے لیے ان انتخابات کے نتائج کتنے اہم ہیں۔ عدالت سے فیصلہ کچھ بھی آئے ، وزیر اعلی کے دوبارہ انتخاب کا نتیجہ کچھ بھی نکلے ، ضمنی انتخابات میںکسی ایک پارٹی کی دو سیٹیں کم ہوں یا زیادہ۔بہر صورت پنجاب میں سیاسی استحکام آتا نظر نہیں آتا۔ لگتا یوں ہے کہ جب تک دوبارہ انتخابات نہیں ہوتے ،زیادہ تر معاملات عدالت میں ہی رہیں گے اور حکومت پر جعلی حکومت ہونے کا الزام لگتا رہے گا،چاہے وہ حکومت ن لیگ کی ہو یا تحریک انصاف کی۔