اقتدار پاتے ہی حکمران اپنے وعدے یکسر بھول کیوں جاتا ہے۔ اس کی نفسیات بالکل بدل کیوں جاتی ہے۔ ایک دیوانگی سی کیوں اسے آ لیتی ہے؟امام شافعیؒ نے کہا تھا: میں یہ مان سکتا ہوں کہ ایک بادہ نوش کے حواس قائم ہوں مگر یہ تسلیم نہیں کر سکتا کہ کوئی صاحب اقتدار مدہوش نہ ہو۔ اپنے گائوں کا ایک پڑھا لکھا نوجوان یاد آتا ہے۔ ایک بزرگ نے بہت اہم دستاویز دے کر اسے لاہور بھیجا۔ ایک اہم شخصیت کو کوئی پیغام پہنچانا تھا۔ ان کے دفتر سے دو کلو میٹر دور‘ایک رشتہ دار کے ہاں تین دن وہ نوجوان مقیم رہا۔دن بھر دوستوں سے گپ شپ کیا کرتا۔رشتے داروں کے ہاں دعوتیں اڑاتا۔تیسرے دن کسی نے پوچھا کہ کیا خط پہنچا دیا؟۔جواب یہ تھا:فرصت ہی نہیں ملی۔ ذوالفقار علی بھٹو‘میاں محمد نواز شریف اور عمران خاں یکے بعد دیگرے تین سیاسی ہیرو‘اس سرزمین میں ابھرے۔تینوںمیں سے کسی ایک نے بھی اپنا پیماں پورا نہ کیا۔ دنیا بھر میں سوشلزم کا تجربہ ناکام ہو چکا تھا‘بھٹو جب اقتدار میں آئے۔روسی اور چینی معیشت گھٹنوں کے بل رینگ رہی تھی۔نجی کارخانوں کو قومیا کر معیشت کے فروغ کا امکان ہی مٹا ڈالا۔بلوچستان پہ فوج چڑھا دی ۔ایف ایس ایف کے نام سے ایک ذاتی لشکر تشکیل دیا‘جس کے دلاوروں نے احمد رضا قصوری کے والد کو قتل کیا۔اخبارات کا گلا گھونٹ ڈالا۔مخالفین کا ذکر ہی کیا‘اپنی پارٹی کے سیکرٹری جنرل جے اے رحیم کو پٹوایا۔فقط اس پر کہ تقریب میں تادیر انتظار کے بعد تھک کر بوڑھا آدمی گھر لوٹ گیا تھا۔اختلاف کرنے والے اپنے ساتھیوں کو آزاد کشمیر کے ایک دور دراز مقام پر قید کر ڈالا۔عدالت تک بات پہنچی تو صاف مکر گئے۔رہائی انہیں تب نصیب ہوئی‘قائد عوام کا اقتدار جب تمام ہوا۔جب خود جیل میں ڈالے گئے۔ 1977ء کے الیکشن کا مرحلہ آیا تو وہ بلا مقابلہ منتخب ہوئے۔اپنے حریف مولانا جان محمد عباسی کو اغوا کر لیا۔جماعت اسلامی کے جان محمد عباسی ایک سادہ سے نجیب آدمی تھے۔بہت ووٹ لے لیتے تو ذوالفقار علی بھٹو سے ایک تہائی۔ اخبارات کو ایک تصویر بھجوائی گئی۔حکم یہ تھا کہ صفحہ اول پر 8انچ تین کالمی شائع کی جائے اور اس عبارت کے ساتھ’’فخر ایشیا‘ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو جو لاڑکانہ کے حلقہ نمبر ۔۔۔۔۔۔سے بلا مقابلہ قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہو گئے‘‘ اطالوی نژاد‘اپنے عہد کی ممتاز اخبار نویس آریانا فلانچی نے وزیر اعظم کا طویل انٹرویو کیا تو ایک نکتہ یہ تھا:شخصیت کا اندازہ اس امر سے ہوتا ہے کہ مخالفین کے باب میں اس کا رویّہ کیا ہے۔ یاد نہیں کہ انہوں نے کیا جواب دیا۔واقعہ یہ ہے کہ فیلڈ مارشل ایوب خان فوت ہوئے تو سرکاری ریڈیو اور ٹی وی کو حکم دیا گیا کہ خبر جاری نہ کی جائے۔اخبارات کو بتایا گیا کہ اطلاع دوسرے صفحے پر چھپے اور پانچ چھ سطروں سے تجاوز نہ کرے۔ فقط وزیر اعظم ہی نہیں‘چاروں وزراء اعلیٰ اور حکمران جماعت کے کم از کم آٹھ ارکان بلا مقابلہ قومی اسمبلی کے ممبر بنے۔ غیر معمولی ذہانت کے اس عظیم لیڈر کے عہد میں‘شرح ترقی 2فیصد رہی۔ایوب خان کے دور میں اوسطاً جو سات فیصد رہی تھی۔صنعتی اور زرعی انقلاب جس کے زمانے میں برپا ہوا۔گندم کی فی ایکڑ اوسط پیداوار میں دوگنا سے زیادہ اضافہ ہوا۔تربیلا اور منگلا ڈیم تعمیر ہوئے۔ بھٹو کبھی یکسو ہوتے تو معجزہ کر دکھاتے۔1971ء کی المناک شکست کے باوجود‘اندرا گاندھی سے مذاکرات کئے اور تقریباً تمام مطالبات منوا لئے۔مقبوضہ علاقے خالی کرائے اور نوے ہزار قیدیوں کی رہائی کو ممکن بنایا۔بات چیت کیلئے شملہ روانہ ہونے سے پہلے اپوزیشن کے ہر قابل ذکر لیڈر سے ملاقات کی۔جماعت اسلامی کے امیر میاں طفیل محمد سمیت بیشتر اپوزیشن سیاسی لیڈر‘ لاہور کے ہوائی اڈے پر انہیں رخصت کرنے آئے۔ متفقہ دستور مرتب کیا۔پاسپورٹ پر عشروں سے چلی آتی پابندیاں ختم کر کے‘ عام پاکستانیوں پر‘سمندر پار رزق کے دروازے کھولے۔آج جو ہماری معیشت کا سب سے اہم ستون ہیں۔سب سے بڑھ کر یہ کہ ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی‘ جو آج ملک کے دفاع کی سب سے بڑی ضمانت ہے۔ 23مارچ 1973ء کو لیاقت باغ راولپنڈی میں‘خاکسار سٹیج پر موجود تھا‘جب سرکاری غنڈے اپوزیشن کے جلسہ عام پر گولیاں برسا رہے تھے۔سامنے مری روڈ پر ‘این اے پی کے کارکنوں کو جلسہ گاہ میں لانے والی بسوں کی قطار دھڑا دھڑ جل رہی تھی۔کم از کم نو کارکن مارے گئے۔ان سب کا تعلق عبدالولی خان کی پارٹی سے تھا۔چن چن کر وہ نشانہ بنائے گئے۔ایسا زہر سیاست میں گھلا‘ جس کا کوئی تریاق نہ تھا۔ الیکشن میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے لئے کہ صدارتی نظام نافذ کرنے کے آرزو مند تھے‘ڈٹ کر دھاندلی کی۔چیف الیکشن کمشنر کو کہنا پڑا:ہم نے تو دکان سجا دی تھی۔ڈاکو اگر لوٹ لے گئے تو کیا کریں؟ انجام کار خلق خدا سڑکوں پر تھی۔329لوگ قتل ہوئے ۔50ہزار جیلوں میں ڈالے گئے۔ یہ تھی ذوالفقار علی بھٹو کی جمہوریت۔ پیپلز پارٹی سے نجات پانے کے لئے افواج پاکستان اور آئی ایس آئی نے نواز شریف کی سرپرستی کی۔وزیر اعظم کے حلف اٹھانے کا وقت آیا تو آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل حمید گل‘میاں محمد شریف کی خدمت میں حاضر ہوئے۔غیر معمولی ذہانت اور قوت متخیلہ کے باوجود جنرل صاحب ایک سادہ لوح آدمی تھے۔وزیر اعظم کے والد گرامی سے‘ انہوںنے عرض کیا:اب جب کہ آپ اقتدار سنبھالنے والے ہیں‘اپنے کاروبار کو محدود کرنے کا اعلان کر دیں۔بہت امیدیں قوم نے آپ سے وابستہ کر لی ہیں۔ نواز شریف بھی موجود تھے۔ان سے کہا:کل سے ہمیں آپ کے احکام کی تعمیل کرنی ہے۔آج آخری بار مشورہ دینے آیا ہوں۔نواز شریف تو خاموش رہے‘میاں محمد شریف نے فرمایا:کمال کرتے ہیں آپ‘اب تو ہمیں موقع ملا ہے۔ مہنگائی کی ایک خوفناک لہر 1974ء میں تب اٹھی تھی ‘جب ایک شام ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستانی کرنسی کی قیمت اچانک پچاس فیصد کم کر دی۔ایسی ہی دوسری قیامت نواز شریف کے دور میں برپا ہوئی۔دیکھتے ہی دیکھتے‘اشیائِ صرف کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں۔انہیں اپنے کاروبار سے شغف تھا یا خورو نوش سے۔اموی خلیفہ سلیمان بن عبدالملک کی طرح جو دستر خوان پر بیٹھتا تو گھنٹوں بیٹھا رہتا۔ اسی میڈیا کو‘جس کے بل پر وہ اقتدار میں آئے تھے‘انہوں نے پابہ زنجیر کرنے کا فیصلہ کیا۔نجم سیٹھی گرفتار ہوئے اور ملیحہ لودھی کے خلاف بغاوت کا مقدمہ تراشا گیا۔1996ء ان کے دوسرے دور اقتدار میں عالم یہ تھا کہ ملک کے تین بڑے شہروں میں‘ ایک بڑے اخبار کے دفاتر کو پولیس نے گھیر رکھا تھا۔پرنٹنگ پریس تک کاغذ پہنچانے کی اجازت نہ تھی۔احتساب کے دیوتا سیف الرحمن آئے دن ادارے اور اس کے سربراہ کے خلاف نت نئے مقدمات درج کرتے۔ اپنے حلیفوں کو دھتکارا اور اس عسکری قیادت کو بھی‘جو ان کا سب سے بڑا سہارا بنی تھی۔عدلیہ سے متصادم ہوئے۔سپریم کورٹ پر ان کے جانبازوں نے حملہ کیا۔گوہر ایوب کے مطابق‘ایک دن ان سے سوال کیا:ایسا کوئی طریقہ بتائیے کہ کم از کم ایک دن کے لئے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو جیل میں ڈال سکوں۔ قوم کو سنہری خواب دکھانے میں عمران خان نے قائد عوام اور قائد اعظم ثانی کو بہت پیچھے چھوڑ دیا۔ ایک کروڑ نوکریاں‘پچاس لاکھ مکان‘نوے دن میں کرپشن کا خاتمہ‘ غیر ملکی قرضوں سے مکمل نجات‘ ’’دوسرے ممالک کے لوگ پاکستان میں نوکری کرنے آیا کریں گے‘‘ عملاً کیا کیا؟ اقتدار پاتے ہی حکمران اپنے وعدے یکسر بھول کیوں جاتا ہے اس کی نفسیات بالکل بدل کیوں جاتی ہے۔ ایک دیوانگی سی کیوں اسے آ لیتی ہے؟امام شافعیؒ نے کہا تھا: میں یہ مان سکتا ہوں کہ ایک بادہ نوش کے حواس قائم ہوں مگر یہ تسلیم نہیں کر سکتا کہ کوئی صاحب اقتدار مدہوش نہ ہو۔