کیا کسی کو علم ہے کہ اس وقت حکومت اپنے لیے خود مسائل کی بنیاد ڈال رہی ہے، وہ کبھی پرامن احتجاج کرنے والوں کو زدو کوب کر رہی ہے تو کبھی بغیر کسی مقدمے کے اپوزیشن رہنمائوں، صحافیوں اور سول سوسائٹی کے افرادکو ہراساں کر رہی ہے۔ اور اب کل ہی کی خبر ہے کہ پنجاب حکومت نے ’’سکیورٹی تھریٹس‘‘ موصول ہونے کے بعد اڈیالہ جیل سمیت صوبے کی 5 جیلوں میں ملاقاتوں پرعارضی پابندی لگانے کا فیصلہ کرلیا ہے، اڈیالہ کے علاوہ دیگر صوبوں سے ملحقہ سرحدی اضلاع اٹک، میانوالی، ڈیرہ غازی خان اور بھکر کی جیلیں شامل ہیں، اڈیالہ جیل میں قیدیوں سے ملاقات پر 2ہفتے کی پابندی عائد کردی گئی ہے،اڈیالہ جیل میں پابندی کا اطلاق بانی پی ٹی آئی عمران خان سمیت تمام اسیران پر ہوگاجن میں سابق وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی،سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، فواد چوہدری سمیت سابق وفاقی وزراء اور ہائی پروفائل قیدی موجود ہیں… اور اب بین الصوبائی جھگڑوں کا بھی آغاز ہونے والا ہے جس کے مطابق پنجاب حکومت نے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور کوسکیورٹی تھریٹ کے باعث بانی پی ٹی آئی کیساتھ ملاقات سے روک دیا ہے، اور پیاز و دیگر ضروری اشیاء کو مہنگا ہونے کے سبب پنجاب سے دوسرے صوبوں کو بھیجنے پر پابندی لگا دی ہے۔ اس سے بظاہر تاثر یہ جاتا ہے کہ حالات مزید خراب ہوں گے۔ لیکن یہ بات میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ جب تمام کیسز عدالتوں میں زیر سماعت ہیں تو پھر حکومت کیوں اپنے پائوں میں بیڑیاں ڈال رہی ہے۔ حکومت کیوں چاہتی ہے کہ حالات خراب ہوں ، اور پھر جب حکومت بن چکی ہے تو یہ کیوں چاہتے ہیں کہ حالات خراب ہوں؟ انہیں کس چیز کا خطرہ ہے ؟ یہ تو بالکل ایسے ہے جیسے جیتی ہوئی ٹیم ہی اپنے خلاف گول کرتی رہے۔ اور ایسا کرنے سے آپکو علم ہے کہ جیت شکست میں بدل جایا کرتی ہے۔ لہٰذاجس نے میچ جیتا ہو، کیا وہ بھی کبھی لڑتا ہے؟ حکومت کا تو کام ہوتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ ریلیف دے، زیادہ سے زیادہ مفاہمت کی طرف جائے اور اپنے لیے کم سے کم مسائل کھڑے کرے۔ معذرت کے ساتھ فی الحال تو وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز صاحبہ کا لب و لہجہ ہی ناقابل برداشت حد تک کر دھمکی آمیز ہے، ابھی گزشتہ روز ہی وہ فرما رہی تھی کہ اگر احتجاج کیا تو میں یہ کر لوں گی، وہ کر لوں گی… میں یہ نہیں ہونے دوں گی، میں یہ کردوں گی۔ میرے خیال میں ایسے الفاظ کسی منتخب وزیرا علیٰ کے منہ سے اچھے نہیں لگتے۔لیکن اس کے برعکس اگر حکومت خود ہی اقتدار چھوڑنا چاہتی ہے تو وہ اس قسم کے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنے کے بجائے کوئی اور راستہ اختیار کرلے۔ کیوں کہ یہ ’’وارداتیں‘‘ اب پرانی ہو چکی ہیں۔ نہیں یقین تو آپ ن لیگ کے اقتدار کی تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیں، کہ یہ جب بھی اقتدار میں آتے ہیں تو سب سے چھیڑ چھاڑ شروع کردیتے ہیں۔ اُس کے نتیجے میں ہوتا یہ ہے کہ سال دو سال میں ان کے مخالفین کی تعداد اتنی بڑھ جاتی ہے، کہ ان کے لیے حکومت کرنا مشکل ہوجاتی ہے۔ ابھی بھی کوئی شک ہے تو آپ خود دیکھ لیں کہ 1990ء کی حکومت اس لیے چلی گئی کہ نواز شریف کی غلام اسحاق خان سے نہ بن سکی، اور حکومت چلی گئی۔پھر 1997ء میں جنرل پرویز مشرف سے نہ بن سکی۔ اور پھر 2018میں جنرل باجوہ کے ساتھ ان کی ان بن ہوگئی۔ اور ایک بار پھر انہیں اقتدار چھوڑنا پڑا۔ اور پھر یہ صرف انہی کا مسئلہ نہیں بلکہ عمران خان کا بھی یہی مسئلہ رہا۔ انہوں نے ایڈمنسٹریٹو کام کرنے کے بجائے یہی کیا کہ اپنے مخالفین کی تعداد اتنی بڑھا لی کہ اُنہیںیعنی تمام پارٹیوں کو مقتدرہ قوتوں کے ساتھ مجبوراََ ملنا پڑا۔ لہٰذااگر ن لیگ نے اپنی تین حکومتوں کے ٹوٹنے سے کچھ نہیں سیکھا تو پھر اللہ ہی حافظ ہے۔ اور پھر اب ایک بار پھر اگر آپ اسی قسم کی سیاست کو آگے لے کر چلیں گے تو کون دعویٰ کر سکتا ہے کہ یہ حکومت ایک ڈیڑھ سال بھی چل سکے گی؟ آپ اس حوالے سے ’’طیب اردگان ماڈل‘‘کو استعمال کر سکتے ہیں، انہوں نے پہلے 10سال کسی کو نہیں چھیڑا ، صرف اور صرف کام پر فوکس کیا۔ 2003ء میں انہوں نے اقتدار سنبھالا تو اُس وقت ترکی کے حالات بھی پاکستان جیسے تھے۔ یہ وہی طیب اردگان ہیں جس نے 2001 میں اپنی سیاسی جماعت ’’جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی‘‘ بنائی اور 2002، 2007 اور 2011 کے انتخابات میں مسلسل کامیابی حاصل کی۔ طیب اردگان 2003 سے 2014 تک مسلسل ترکی کے وزیراعظم رہے اور 2014 سے اب تک ترکی کے 4مرتبہ صدر منتخب ہوئے۔ اتنے کم عرصے میں کوئی ’’سلطان ‘‘کیسے بن سکتا ہے؟یہ ہمارے حکمرانوں کے لیے سیکھنے کی بات ہے، اتنے کم عرصے میں سیاست میں آکر کوئی کیسے دنیا کی مضبوط ترین فوج کی بغاوت کو عوام کے ذریعے کچل سکتا ہے؟ کوئی کیوں کر طیب اردگان کے لیے سینے پر گولیاں کھانے کے لیے تیار ہوجاتا ہے اور بیچ سڑک میں آکر ٹینک کے سامنے کھڑا ہو سکتا ہے۔ یہ صرف اسی وجہ سے ہے کہ طیب اردگان نے ہمیشہ دنیا بھر میں اپنی قوم، اپنے ملک اور اپنی سرزمین کو بلند کرنے کے لیے کام کیا، امریکا و یورپ کے ساتھ برابری کی سطح پر بات کی۔ اگر مغربی ممالک نے ترکی کی معیشت کو دبائو میں لانے کے لیے اُس پر معاشی پابندیاں سخت کردیں تو اُس نے اس کے متبادل ممالک سے رابطے بڑھا کر اپنے ملک کی معیشت کو نہ صرف بچایا بلکہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے چنگل سے آزاد بھی کروایا۔ لیکن یہ سب کچھ انہوں نے اپوزیشن اور اتحادیوں اور مقتدرہ کو ساتھ لے کر چلتے ہوئے کیا۔ آپ یقین مانیں اگر موجودہ حکومت بھی اپوزیشن کو اگرفری ہینڈ دیتی ہیں تو دو چار مہینوں میں تحریک خود بخود کمزور ہو جائے گی۔ 1986ء میں جب محترمہ بے نظیر پاکستان واپس آئیں تو انہوں نے تاریخی جلسے کیے۔ اُس وقت وزیر اعظم جونیجو تھے، انہوں نے بے نظیر کو فری ہینڈ دیا تھا، جس کے بعد اگلے چند ماہ میں ہی محترمہ کی تحریک ماند پڑگئی تھی۔ بہرکیف اگر حکومت اپنے پانچ سال پورے کرنا چاہتی ہے، تووہ اپوزیشن اور اتحادیوں کو ساتھ لے کر چلے۔ اور پاکستانیوں پر رحم کریں ۔ ملک مزید کسی نئی لڑائی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ کیوں کہ کہیں نہ کہیں یہ شک پایا جاتا ہے کہ اس حکومت میں کوئی نہ کوئی بڑا حادثہ ہو جائے گا، جس کے بعد اس حکومت کا بچنا ممکن نہیں ہے۔ اور یہ حادثہ بھی حکومت کی اپنی غلطیوں کی وجہ سے ہوگا۔ اس لیے یہ بات حکومت کو یاد رکھنی چاہیے کہ اپوزیشن کی ہمیشہ خواہش ہوتی ہے کہ کوئی لڑائی ہو، حادثہ ہو جس سے حکومت کمزور ہو۔ مگر حکومت کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ لڑائی سے بچا جائے، مفاہمت کی پالیسی اختیار کی جائے۔ ہمارا مذہب بھی یہی کہتا ہے کہ معاف کرنا سب سے بڑی عبادت ہے، درگزر کرنے سے اللہ خوش ہوتا ہے۔ لحاظ کریں، پرامن احتجاج کو نہ روکیں۔ دنیا کی کوئی تحریک آج تک کسی کے دبانے سے ختم نہیں ہوئی؟ امریکا نے افغانستان میں 20سال جنگ لڑی، تو کیا افغان جہادی ختم ہوگئے؟ اسرائیل فلسطینیوں کو ختم کر رہا ہے، تو کیا اس سے فلسطینی اپنے مقصد سے پیچھے ہٹ جائیں گے؟ کیا ویت نام جنگ کی تاریخ کسی کو یا دہے؟ الغرض کسی کو دبانے کوئی پارٹی ختم نہیں ہوتی۔ اگر ختم ہونا ہوتا تو ضیاء الحق کی زور زبردستیوں کے بعد پیپلزپارٹی کا نام ختم ہوجاتا۔ اس لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ مفاہمت کرے اور بدامنی سے پرہیز کرے۔