پاکستان کا ہمہ پہلو بحران سکیورٹی صورتحال سے جڑ چکا ہے۔افغانستان میں قیام امن کے متعلق پاکستان کا کردار فراموش کر کے اسے ایک قابض اور دہشت گردی کی پشت پناہی کرنے والے ملک کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ساتھ ہی پاکستان میں دہشت گرد گروہ سرگرم کردئے گئے ہیں۔افغان سرزمین پر موجود دھشتگرد عناصر پاکستان میں کارروائیاں کر کے خطے کے امن کو سبوتاژ کرنے کی کوشش میں ہیں۔تازہ واقعہ چترال میں آنے والے عسکریت پسند ہیں جو خود کو ٹی ٹی پی کا کارکن بتا رہے ہیں۔عسکریت پسند دہشت گردانہ سرگرمیوں افغان سرحد کے اس پار آ رہے ہیں۔سکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کے پاکستان میں سلیپر سیل ہو سکتے ہیں، لیکن ان کی نمایاں موجودگی افغانستان کی سرزمین پر ہے۔پاکستان مسلسل افغانستان کی عبوری حکومت کو یاد دلا رہا ہے کہ دوحہ معاہدے کے تحت افغان سر زمیں پر سے کسی دوسرے ملک کی سلامتی کے لئے خطرہ بننے والوں کا انسداد آپ کی ذمہ داری ہے اور یہ ہمارے برادرانہ، ہمسایہ تعلقات کے حوالے سے کابل پر فرض ہے۔پاکستان اس امیدکا اظہار کرتا رہا ہے کہ افغان حکومت پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی اس نئی لہر کو لگام ڈالے گی اور افغان طالبان ان عناصر پر قابو پالیں گے، جو پاک افغان تعلقات پر حملہ کر رہے ہیں۔ اس امر کا اعداہ عشروں سے کیا جا رہا ہے کہ پاکستان اور افغانستان برادر اسلامی ممالک ہیں اور افغانستان میں امن و استحکام پاکستان کے سٹریٹیجک مفاد میں ہے۔پاکستان افغانستان کے ساتھ پر امن تعلقات کو ایک وسیع تناظر میں دیکھتا ہے ،ایک تجارتی راہداری، قیام امن میں معاون،ایک دوسرے کی ضروریات پوری کرنے والے ، تاریخی و مذہبی تعلقات اور نئے عالمی چیلنجز سے مشترکہ طور پر نمٹنے کے تناظر میں ہو سکتے ہیں۔افغانستان سے امریکہ افراتفری میں نکلا ، کابل میں طالبان کی واپسی نے خطے کی کچھ ریاستوں کے پرانے اندیشوں کو زندہ کر دیا ہے۔یہ ریاستیں اپنی بین الاقوامی حیثیت کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان کے سرحدی علاقوں اور افغانستان میں اپنے آلہ کاروں کی موجودگی کو ضروری سمجھتی ہیں۔ تاکہ تنازعات اور دہشت گردی دوبارہ علاقائی سلامتی کو لپیٹ میں لے۔ غیر مستحکم اور جنگ زدہ افغانستان کا مطلب منشیات کی اسمگلنگ کا دوبارہ سر اٹھانا ہے اور یہ افغانستان میں بین الاقوامی دہشت گرد تنظیموں کو پڑوسی ریاستوں میں مشکلات پیدا کرنے، علیحدگی پسندی، انتہا پسندی اور دہشت گردی کو ہوا دے سکتا ہے۔ افغانستان کا قریبی پڑوسی ہونے کے ناطے پاکستان کو افغانستان کے غیر مستحکم ماحول کا بہت نقصان ہوا ہے۔ بائیس سال کے بعد افغانستان ایک بار پھر ایک تاریخی دوراہے پر ہے۔ افغانستان کی صورت حال اس لحاظ سے سنگین ہے کہ ٹی ٹی پی کے ٹھکانے پاکستان کی جانب سے یاد دہانی کے باجود ختم نہیں کئے جا رہے ۔ پاکستان نے افغانستان کے معاملات کو درست سمت میں ڈالنے کے لیے شنگھائی تعاون تنظیم کے ساتھ مل کر کافی کوششیں کی ہیں۔ تاجکستان میں جولائی 2021 میں ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں تنظیم کے آٹھ مستقل ارکان نے افغانستان میں تنازع کے حل کے لیے اتفاق رائے پیدا کرنے کے عزم کا اظہار کیا ۔ تنظیم نے افغانستان رابطہ گروپ کو ایک میکانزم کے طور پر قائم کیا جو افغانستان کی خودمختاری، آزادی اور علاقائی سالمیت کے احترام کا اعادہ کرتا ہے اور تمام ثقافتوں، روایات اور نسلی گروہوں کا احترام کرتے ہوئے ایک پرامن، مستحکم افغانستان کی شدید خواہش کا اظہار کرتا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے اقدامات، خاص طور پر روس اور چین کے کردار نے پاکستان کو افغانستان میں امن اور استحکام کی سمت جانے کے قابل بنایا ۔ایسی رپورٹس موجود ہیں جن میں بتایا جا رہا ہے کہ خطے میں کچھ عناصر ٹی ٹی پی جیسے پراکسی دھشتگرد گروپوں کے ذریعے امن میں خلل ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ 2022 میں پاکستان کو کم از کم 376 دہشت گرد حملوں کا سامنا کرنا پڑا جن میں 533 افراد ہلاک اور 832 زخمی ہوئے۔ آخری بار ملک میں ایک سال میں 300 سے زیادہ دہشت گردانہ حملے 2017 میں ہوئے تھے۔اعلیٰ سول اور فوجی حکام نے چند ماہ قبل پشاور پولیس لائن مسجد حملے کے بعد کئی اجلاس بلائے اور دہشت گرد تنظیموں کے خلاف انٹیلی جنس پر مبنی ایک مربوط مہم چلانے کا فیصلہ کیا۔ حالیہ دنوں چترال میں ٹی ٹی پی نے سکیورٹی فورس کی چوکیوں پر حملہ کیا ،سکیورٹی فورسز ان سے نمٹ رہی ہیں تاہم بتایا گیا ہے کہ بڑے پیمانے پر آپریشن کی ابھی ضرورت نہیں ہے۔ پاکستان کے پاس جنگ کے لیے سخت، حوصلہ مند فورس ہے، اس فورس کے جوانوں نے ٹی ٹی پی اور دیگر تنظیموں کے خلاف کامیاب جنگ لڑی اور اب وہ ریاست مخالف عناصر کے خلاف انٹیلی جنس کی بنیاد پر کارروائیاں کر رہے ہیں۔ٹی ٹی پی پر پاکستان میں پابندی عائد ہے اور امریکہ اسے عالمی دہشت گرد تنظیم تصور کرتا ہے۔ اس تنظیم نے القاعدہ اور افغانستان سے پاکستان کے مفادات پر حملے کئے ہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی کے پس پشت غیر ملکی مداخلت کے آثار واضح ہیں اور امن بگاڑنے والوں کا مقصد افغانستان اور خطے کو نقصان پہنچانا ہے۔دنیا سمجھتی ہے کہ تشدد عالمی امن کا دشمن ہے ۔دھشتگرد گروپوں کے ٹھکانوں کی موجودگی افغانستان اور عالمی امن کے لیے شدید خطرہ ہے۔یہ امر کسی قدر اطمینان بخش ہے کہ افغان عبوری حکومت اور ملا ہیبت اللہ پہلے ہی اس بات کا اعلان کرچکے کہ پاکستان میں جہاد نافذ العمل نہیں ہے۔اس سے امید بندھتی ہے کہ افغان حکومت کم از کم مسئلے کی اہمیت سے واقف ہے لیکن انہیں یہ پتہ چلانا ہو گا کہ افغانستان میں کون لوگ ٹی ٹی پی کی پشت پناہ ہیں۔ افغانستان کی لاجسٹک سپورٹ کے بغیر کوئی دھشتگرد گروپ چترال جیسی کاروائی نہیں کر سکتا۔سکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ بارڈر پر کسی بھی قسم کی جارحیت عبوری افغان حکومت کی مرضی کے بغیر ناممکن ہے ۔