گزشتہ ماہ صیام میں عسکری اور سیاسی قیادت کی سینئر صحافیوں سے گھنٹوں طویل ملاقاتوں میں واضح کیا گیا قومی بیانیہ نئی قومی سلامتی پالیسی کی صورت میں سامنے آگیا ہے۔ آزاد خارجہ پالیسی اور آئین و قانون کی علمداری وہ بنیادی اصول ہیں جن پر چلتے ہوئے ریاست نے تیزی سے بدلتی دنیا میں اپنی آزادی اور خود مختاری کو یقینی بنا نے کا عزم کیا ہے۔ عسکری اور سیاسی قیادت دونوں پر واضح ہے کہ معاشی طور پر مستحکم ہوئے بغیر آزاد خارجہ پالیسی کے تصور کو عملی جامہ پہنانا ممکن نہیں۔ یہ بات واضح ہے کہ معاشی ترقی کا راز قانون کی عمل داری میں پوشیدہ ہے۔ دوسرے الفاظ میں، قومی سلامتی کو خطرہ باہر سے کہیں زیادہ اندر سے ہے۔ اس خطرے کا سدباب کرنا آسان نہیں ہے کہ ذمہ داروں نے اپنی انگلیاں ایک دوسرے پر اٹھائی ہوئی ہیں۔ بہتان تراشی، گالم گلوچ اور مار پٹائی سیاست کا وطیرہ بن چکا ہے۔ غداری کے الزامات عام سننے کو ملتے ہیں۔ سیاسی ناچاقی ایسی کہ آئین سازی کا کام ٹھپ ہوکر رہ گیا ہے۔ جمہوریت ہے، انتخابات ہوتے ہیں لیکن آئین سازی یا تو ہوتی نہیں ہے یا پھر اتنی کہ فقط چند سو خاندانوں کے مفادات کا ہی تحفظ ہو پاتا ہے۔ معاشی طاقت کا منبع یہ خاندان تو ہیں ہی کہ وہ زرعی وسائل اور سرمایہ پر قابض ہیں، سیاست بھی انہیں کی لونڈی بن چکی ہے۔ ایسے قوانین کس نے اور کیوں بنانے ہیں جو ملک میں دولت کی مساوی تقسیم کو یقینی بنائیں؟ صدیوں سے نافذ قانونی ڈھانچہ جو انہیں تو مراعات سے نوازتا ہے لیکن عوام ، چاہے وہ بھوک اور بیماری کے چنگل میں پھنسے ہوں، سے کاروبارِ ریاست چلانے کے لیے ٹیکس وصول کرتا ہے۔ہم افراد یا خاندانوں کی بات نہیں کرتے، قانون کی حکمرانی کی بات کر رہے ہیں۔ جن کے پاس سب کچھ ہے انہوں نے انکا تحفظ بھی کرنا ہے اورا س میں اضافہ بھی۔ فطری بات ہے۔ پسے ہوئے طبقات فطری طورپرغربت کے چنگل سے نکل کر باعزت زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ اگر ہم ایک جنگل میں رہتے ہوں تو معاشرتی اونچ نیچ کو قسمت کا لکھا سمجھا جاسکتا ہے۔ وسیع کرہ ارض میں انسانوں کے پاس ہجرت کا راستہ کھلا ہوتا ہے کہ موقع ملے تو ظلمت کے شکنجوں سے فرار ہوجائیں۔ چلیں ہم دولت کی مساویانہ تقسیم کی بات نہیں کرتے کہ اس پر 'سرخ پوش' بات کر چکے ہیں اور انکی حکمت عملی پِٹ چکی ہے۔ 'سبز لبادوں' میں لپٹے لوگوں کی اصلیت بھی سامنے آگئی ہے جنہوں نے گز گز لمبے فتوے دیے کہ کیسے استعماری دور کے مراعات یافتہ طبقے کی جائیدادیں نہ صرف جائز ہیں بلکہ مقدس ہیں۔ مان لیتے ہیں کہ کوئی، کسی بھی وجہ سے کسی کی دولت پر غلط نظر نہیں ڈال سکتا۔ جسے جو کچھ وراثت میں ملا ہے وہ نہ صرف اسی کا ہے بلکہ اگر وہ اس میں اضافہ بھی کرنا چاہے تو یہ اس کا حق ہے۔ ہم ریاست کی بات کر رہے ہیں اور قانون کی حکمرانی اس کے وجود کی ضامن ہوتی ہے۔ قانون کا مطمع نظر کیا ہے؟ استعماری دور کے تقاضے اور تھے۔ شہریت کا تصورا ور تھا۔ شہریوں کی مال و جان اور عزتِ نفس کا وعدہ تھا لیکن غلامی کا طوق بھی گلے میں لٹکا تھا۔ آزادی ملی تو وہی قانونی ڈھانچہ تعزیرات پاکستان کی صورت میں قائم و دائم رہا۔ جمہوریت کی آنیاں جانیاں رہیں لیکن پرنالہ وہیں پر اٹکا رہا۔ پھر جمہوریت اپنی پوری تابناکیوں کے ساتھ جلوہ فگن ہوگئی، مراعات یافتہ طبقے نے سیاسی پارٹیاں بنالیں ، ووٹ بھی لیتے رہے اور اقتدار کے مزے بھی۔ پارلیمانی نظام ، پر امن انتقال ِاقتدار اور خود مختار صوبوں کے لیے آئینی ترامیم بھی ہوگئیں لیکن جمہوریت کو محلات میں قید کردیا گیا عوام کو اس جمہوریت کی زیارت نہ کرانے کی قسم ہی اٹھالی گئی۔ نہ تو تعزیرات پاکستان میں ترامیم کی گئیں کہ لوگوں کو آزادی کے ثمرات ملیں اور نہ ہی مقامی حکومتوں کا نظام دیا گیا کہ اختیارات اور وسائل نچلی سطح پر منتقل ہوں۔ ٹیکسوں کے صدیوں پرانے نظام کو بھی نہیں چھیڑا گیا جو امیر طبقے سے ٹیکس لینے کی بجائے انہیں مراعات سے نوازتا ہے اور غریب سے اس کی جمع پونجی بھی چھین لیتا ہے۔ موجودہ حکومت کو یہ کریڈٹ بہرحال دینا چاہیے کہ وہ تعزیرات ِ پاکستان میں قریباً سات سو کے قریب ترامیم کرنے جارہی ہے۔ قومی سلامتی کی اساس کوشہریوں کی فلاح و بہبود قراردیا ہے۔ اگرچہ بات دیر سے ہوئی لیکن ہوئی تو ہے، راستے کا تعین تو ہوا ہے۔ لیکن ابھی سب یہ ارادے ہیں اور شاید اگلے انتخابات کے لیے چورن۔ آئین میں ترامیم ہونی ہیں اور خود مختار صوبوں نے عملی اقدامات اٹھانے ہیں۔ ہنوز دلی دور است۔ قانون کی حکمرانی کے لیے کنجی شہریت کا عالمی تصور ہے جو ہمارے آئین سے ہی غائب ہے۔ محصولات کا سب سے بڑا ذریعہ درآمدات ہیں یا پھر عام شہریوں پر لگائے گئے ٹیکس۔ وزیر اعظم نے اپنے دور حکمرانی میں کارپوریٹ اور بینکوں کو مراعات دی ہیں اور اب ان سے انکے ہوشربا منافع جات کو مہنگائی میں پسے طبقات کو منتقل کرنے کی اپیلیں کر رہے ہیں۔ سترہ فیصد جی ایس ٹی بلا امتیاز و تفریق نافذ ہوگیا ہے تو مہنگائی کا نیا طوفان آئیگا۔ خصوصی حالات میں خصوصی ٹیکس بھی تو لگائے جاسکتے تھے۔ مرے کو مارے شاہ مدار۔ خوابوں کی سوداگری بہت ہوچکی ، عملی اقدامات کب ہونگے؟