یہ منظر کسی پرائیویٹ اسکول یا کوچنگ سنٹر کی کلاس روم کا ہے، بچے پڑھائی میں منہمک ہیں کہ دھڑ کی آواز سے دروازہ کھلتا ہے ، دو افراد دندناتے ہوئے داخل ہوتے ہیں تیسرا دروازے پر کھڑا ہوجاتا ہے ، ان کے ہاتھوں میں پستول دکھائی دیتے ہیں یہ پستول کی نال سے طلبا کواشارہ کرتے ہیں دھاڑتے ہیں کہ جو بھی ہے نکال دو ،سہمے ہوئے طلباکے پاس کیا ہوگا جوتھا سمیٹا، ٹیچر سے موبائل فون لیا اور وہ دھمکاتے ہوئے واپس چلے گئے۔ یہ دوسرا منظر دیکھئے ایک نوجوان ہے گھر کے باہر گاڑی کھڑی کرکے دروازے لاک کر کے چیک کرکے اپنی تسلی کرتا ہے بیس قدم کے فاصلے پر سامنے گھر میں داخل ہونے کے لئے گھنٹی بجاتا ہے جانے اندر کہاں جا کر گھنٹی بجی ہوگی اور کون دروازہ کھولنے آرہا ہوگا لیکن اس سے پہلے ہی ایک موٹرسائیکل آکر رکتی ہے جس پر دو افراد سوار ہیں چلانے والا بیٹھا رہتا ہے اسکے پیچھے بیٹھا شخص نیچے اتر کر جینز میں اڑسا ہوا پستول نکال کرگھر کی دہلیز پر کھڑے نوجوان پر تان لیتا ہے اور اس سے بٹوہ موبائل فون مانگتا ہے وہ بلاچون چرا بٹوہ ،موبائل فون اس کے حوالے کردیتا ہے وہ تیزی سے پلٹتا ہے او ر پھرموٹرسائیکل پر یہ جا وہ جا۔ سیلانی ایک اور منظر آپ کے سامنے رکھ رہا ہے ، یہ ایک بازار ہے دن کا سپیدا ہے چہل پہل ہے اور یہ ایک ہارڈوئیر کی دکان ہے جس میں نلکے ٹونٹیاں، پائپ ، رنگ روغن کے لئے سیڑھیاں وغیرہ ملتی ہیں ، دکان کے باہرہی کرسی ڈالے ایک صاحب ہاتھ میں رجسٹر لئے مصروف ہیں سامنے دو افراد کھڑے ہیں۔ یقیناََلین دین کا معاملہ ہوگا، وہ اپنے حساب کتاب میں لگے ہوئے ہیں کہ سامنے سے موٹرسائیکل گزرتی ہے جس پر تین نوجوان بیٹھے ہوئے ہیں وہ ان پر ایک نظر ڈال آگے بڑھ جاتے ہیں اور پھر چند سیکنڈ میں ہی واپس پلٹتے ہیں بائیک ان کے سامنے رکتی ہے دو نوجوان تیزی سے نیچے اترتے ہیں جینز میں اڑسے ہوئے پستول نکالتے ہیں اور رجسٹر والے دکاندار کو اس کے بٹوے ، موبائل فون سے محروم کرکے باآسانی دیہاڑ ی لگا کر نکل جاتے ہیں۔ یہ ایک اور خوفناک منظر دیکھیں ، صبح سویرے کا وقت ہے ، شہر ابھی نہیں جاگا ، ایک فربہی مائل داڑھی والا ادھیڑ عمر شخص سر پر ٹوپی پہنے خراماں خراماں کہیں جارہا ہے، یہ مفتی عبدالقیوم ہیں جو نماز فجر کے بعد مسجد سے گھر کی طرف نکلے ہیں لیکن نہیں جانتے تھے کہ ان کے قدم سفر آخرت کی طرف اٹھ رہے ہیں وہ آج مسجد سے گھر کا تک کا فاصلہ طے نہ کرسکیں گے،وہ ذکر اذکار کرتے ہوئے اپنی دھن میں جارہے ہیں کہ اچانک سامنے سے موٹرسائیکل پر دو نوجوان آئے انہوںنے مفتی صاحب کے پاس موٹرسائیکل روکی ایک اتر کر ان کے پاس گیا کوئی بات کہی او ر پھر ٹی ٹی نکال کر دھائیں کی آواز سے ایک گولی مفتی صاحب پر چلا دی وہ تکلیف سے کراہتے ہوئے جھکے اور دوسری گولی سر پر مار کر وہ سفاک ٹارگٹ کلر اپنا کام تمام کرکے آگے بڑھ گیا ، مفتی صاحب کا لہو پیاسی زمین میںجذب ہوتا چلا گیا۔ ڈاکٹر بیربل آنکھوں کے ڈاکٹر تھے۔کوئی بھی مریض دھندلائی ہوئی آنکھوں کے ساتھ ان کے پاس پہنچا اور یہ مسیحائی میں لگ گئے ، بلاشبہ انہوں نے ہزاروں آپریشن کئے ہوں گے انہیں بھی دن دیہاڑے بھرے پرے روڈ پر کار میں بیٹھے بیٹھے ٹارگٹ کلرز نے نشانہ بنایا گیا۔یہ سب میرے کراچی میں ہوا اْس کراچی میں جہاں قائد اعظم پاک وطن کی مٹی اوڑھے سو رہے ہیں ۔ کوئی دن نہیں جاتا کہ کراچی سے کوئی دل کو رلا دینے والی خبر نہ ملتی ہو،۔یہ سحری کا وقت ہے اور یہ گورنرسندھ کامران ٹیسوری ہیں ،میڈیا کے جلو میں رپورٹروں کے ساتھ مسکراتے ہوئے دودھ میں گندھے آٹے کے گرماگرم روغنی نانوںکے ساتھ نلی نہاری سے لذت کام و دہن لے رہے ہیں ، میڈیا سے گپ شپ ہو رہی ہے ،لوگوں سے گپ شپ کر رہے ہیں کوئی ہاتھ ملانا چاہ رہاہے تو ہاتھ بھی بڑھا دیتے ہیں ، ہلکے پھلکے انداز میں سیاسی سوالوں کے جواب بھی دے رہے ہیں ، ٹیسوری صاحب ویسے بھی بڑے نرم دل کے ہیں کراچی کے چڑیا گھر کی ہتھنی کی بیماری پر تڑپ اٹھے تھے،جھٹ سے جا کر بیمار ہتھنی کو دیکھااور وہیں کھڑے کھڑے جانوروں کے اسپتال کا اعلان بھی کر ڈالا کہ تین مہینے میں یہاں جانوروں کا اسپتال بنا ہوگا، اس سے پہلے انہیں گولڈن ٹائیگر نامی شیر کی موت نے تشویش میں مبتلا کر دیا تھانوٹس لینے میں تاخیر نہیں کی تھی ، نرم دل ہیں حساس ہیں لوگوں کے دلوں میں گھر کرنا چاہتے ہیں انہیں احساس ہے کہ کراچی کا پرشکوہ گورنر ہاؤس لوگوںکی دسترس میں نہیں رہا سو انہوں نے گورنر ہاؤس کے دروازے کھول دیئے لیکن ٹارگٹ کلنگ میں مارے جانے والوں کے یتیم بچوں کی ہچکیاں کیوں نہ کھینچ سکیں ؟ سائیٹ میں راشن کی تقسیم میں بارہ مفلس وجود بھگدڑ میں جان سے گئے ۔ مفتی عبدالقیوم اسی شہر کے تھے نجس نے بھی ان کے قتل کی سی سی ٹی وی فوٹیج کی وڈیو دیکھی اشک ضبط نہ کرسکا۔ کیاگورنر صاحب بتا سکتے ہیں کہ دن دیہاڑے قتل ہونے والے ڈاکٹر بیربل کراچی کے محسن تھے یا نہیں۔سنجھور کا علاقہ اسی صوبے میں ہے ۔ہتھنی اور گولڈن ٹائیگر کی موت پر بے چینی فطری امر ہے یہ آپ کی نرم دلی ہے کہ چڑیا گھر پہنچے لیکن کراچی کے کسی بیٹے کے ناحق قتل پر آپ خود وہاں کیوں نہیں جاتے ؟ آپ کراچی والوں کے دکھ درد بانٹ کر اس تاثر کو مضبوط کیوں نہیں کرتے، ¿ بیمار ہتھنی کی عیادت بھی بہت خوب لیکن کبھی سول اسپتال یا جناح اسپتال کے برآمدوں اور آس پاس کے فٹ پاتھوں پر پڑے بیمار لاغر وجودوں کی عیادت بھی کر لی جائے تو کیا ہے۔غضب خدا کا چار ماہ میں بیس ہزار شہری لٹ چکے ہیں ،34 جان سے گئے 150 زخمی ہوئے لیکن گورنر صاحب کے پاس سفاک راہزنوں سے شہریوں کو بچانے کے لئے کچھ پاس نہیں۔