ماضی قریب میں ایک ایسی شخصیت کے سامنے شرف تلمذ حاصل ہوا،جو خیرالقرون کی یادگار، سلفِ صالحین کا نمونہ، اورعلم وفضل،زہد وتقویٰ، دینی ہمدردی،خیرخواہی،سادگی وتواضع، ان کا خاص وصف تھا ۔ دنیاوی ستائش سے بے پرواہ ہو کر تمام امور کی انجام دہی کا مقصد صرف رضائے الٰہی ان کا خاصہ تھا۔ شیخ الحدیث مولانا مشرف علی تھانویؒ کی تمام ترزندگی کتاب وسنت اور اسلام اوراہل اسلام کی خدمات سے منور وروشن ہے ، قرآن مجید کی تعلیم وتدریس ہو یا ترجمہ وتفسیر ، طباعت وکتابت ہو یا حفاظت واشاعت ،احادیث رسول کا درس و تدریس ہو یا شرح وحاشیہ ، نشرواشاعت ہو یا نصرت وحمایت ، مسائل فقہ کی ترویج وتصحیح ہو یا تعلیم وتبلیغ ،الغرض پاکستان میں خصوصاً اور پورے عالم میں عموما اسلام اوراہل اسلام کی مذہبی دینی ، علمی ، تفسیری ، حدیثی ، تشریحی ، فقہی ، تبلیغی اصلاحی ، اخلاقی ، روحانی ، سیاسی ان تمام خدمات میں نمایاں حصہ ان ادارے’’ اشرف التحقیق‘‘کا ہے ۔ جامعہ دارالعلوم اسلامیہ کی بنیاد 1947 میں شیخ الاسلام علامہ شبیراحمدعثمانی ؒنے رکھی تھی،قاری سراج احمد پہلے مہتمم مقرر ہوئے تھے،مگرا س ادارے کی نشاۃ ثانیہ 1984 میں ہوئی، سربراہ مجلس شوری مولانا عبدالمالک صدیقیؒ نے حضرت مولانا مشرف علی تھانویؒ کو مہتمم مقرر فرمایا۔اس کے بعد آپ نے شبانہ روز محنت کرکے یہ ثابت کیا کہ زندگی کا معنی کھانا پینا ،چلنا پھرنا ،سونا جاگنا نہیں،بلکہ صفات خاصہ کے ساتھ نام کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچانا اور بقائے دوام دینا ہے۔پانچ برس بیت گئے ،آپ ؒ کی یادیںاب بھی باقی۔ 5برس کا وقت اس تیزی سے گزرا کہ ادراک ہی نہ ہو پایا۔ان پانچ برسوں میں شیخ کا لگایا پودا پھلا‘ پھولا اور ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے۔ حضرت والا! اکثر دعا فرماتے تھے ،یارب! مدرسے کے لیے وسیع قطعہ اراضی عطا فرما۔آپ ؒ کے جنت البقیع میں محو استراحت ہونے کے بعد مانگا منڈی میںجامعہ کی ایک اور شاخ بن چکی ہے۔ جہاں قال اللہ و قال الرسول کی صدائیں گونج رہیں ہیں۔ مولانا مشرف علی تھانویؒ ’’بڑے متواضع، سیرچشم صاحب مروت اور فیاض شخصیت تھے۔ نیک نامی‘ خوش انتظامی اور ہر دل عزیزی ان کا نمایاں وصف تھا۔ غصہ کرنا‘ ڈانٹنا یا جھڑکنا شاید انہیں آتا ہی نہ تھا۔مقبولیت اور مغفوریت کے اتنے اسباب کم ہی اکٹھے ہوتے ہیں۔ مولانا مشرف علی تھانویؒ نے دارالعلوم الاسلامیہ کا انتظام سنبھالنے کے بعد ایک جدید نصاب تعلیم تشکیل دیا،جس نے اسے اپنے ہم عصر مدارس سے نمایاں کیا ۔آپؒ نے اپنے برادر اصغر الدکتور قاری احمد میاں تھانوی کو مدینہ یونیورسٹی سے واپس بلایا۔جنہوں نے جہد مسلسل،سعی و کوشش، محنت و لگن سے قرات سبعہ و عشرہ کا نصاب ترتیب دیکر علم و فن کا ایسا پھلدار باغ لگا دیا، جسکی خوشبو سے محض بر صغیر ہی نہیں بلکہ پورا عالم اسلام کے لوگ معطر ہے۔یہ وہ عظیم کارنامہ ہے ،جس نے اس ادارے کو ہم عصر اداروں سے ممتاز کیا ۔ آپ ؒ کے جنت البقیع کا مہمان بننے کے بعد ،الدکتور قاری احمد میاں تھانوی کو جامعہ کامہتمم اور ڈاکٹر قاری خلیل احمد تھانوی کو نائب مہتمم،آپؒ کے بڑے صاحبزادے ڈاکٹر مولانا اشرف علی فاروقی کو نائب مہتمم کا معاون مقرر کیا گیا جبکہ چھوٹے بیٹے مولانا محمد علی فاروقی کوناظم اعلی کا معاون ناظم اورناظم مطبخ مقرر کیا۔اس وقت جامعہ میں 1700طلبا ہیں ،جن میں سے 1000رہائشی ہیں۔اس مہنگائی کے دور میں ایک گھر چلانا مشکل ہو چکا ،مگر وہ ایک ہزار طلبا کی دیکھ بھال میں مصروف ہیں ۔سالانہ خرچہ9کروڑ ہے۔ جو محض اللہ کی مدد سے پورا ہو رہا ۔ اس جامعہ سے ہرسال ایسے با کمال فضلاء و مبلغین تیار ہو کر نکلے ہیں، جنہوں نے ہمیشہ صحیح دینی عقائد اور علوم نبویہ کی نشر و اشاعت کی قابل قدر فرائض و خدمات انجام دی ہیں۔یہاں کے فضلاء و مبلغین پوری دنیا میں تاہنوز علمی،دینی روحانی فرائض انجام دے رہے ہیں۔ سچائی یہی ہے کہ دارالعلوم الاسلامیہ نے احیاء اسلام اور تجدید دین کا ایسا نایاب اور مہتم بالشان کارنامہ انجام دیا ہے جسے تا قیامت یاد رکھا جائے گا۔ حضرت مولانا مشرف علی تھانویؒ دیدہ ور فقیہ، بے مثال خطیب، باریک بیں محدث دوربیں منتظم، باکمال مصنف، مفکر تو تھے ہی۔ زبان وادب، نظم ونثر کے رمزشناس زبان داں بھی تھے اور سب سے بڑھ کر وہ اپنے والد مفتی اعظم ؒکا عکسِ جمیل تھے، ان کی کتابِ زندگی کا ہر عنوان پرکشش تھا، ان کے فکر وفن کے نگارخانے کا ہرزاویہ اپنی رونق اور جدت طرازی میں دعوتِ نظارہ دیتا ہوا نظر آتا تھا۔ اپنی واردات قلبی کو شاعرانہ قالب میں ڈھالنے کا ہنرجانتے تھے، شاعری میں انھیں یدطولیٰ حاصل تھا، اگرچہ انھوں نے شاعری کو اپنا مشغلہ نہیں بنایا، مگر سوزِدروں نے جب بھی بے قرار کیا خود بخود جذبات واحساسات موزوں ہوتے چلے گئے، نہ اس کے لیے آپ کی مصروفیت مانع ہوئی اور نہ ہی ہجوم افکار، الفاظ، تراکیب، صنائع، بدائع، تخیل کی بلندی، مضامین کی بالیدگی، نکتہ آفرینی،اصولِ شاعری کی پابندی،غرض یہ کہ سارے شعری محاسن کلام میں موجود ہوتے، بڑے بڑے ادیب اور شاعر داددیے بغیر نہ رہتے! آپؒ بڑی دل سوزی سے یہ اشعار پڑھتے تھے : یا رب تیرے حبیب کے ہم بھی ہیں امتی دو گز زمیں ہمیں بھی عطا کر حرم کے پاس عارف ؔعطا ہو پھر سے مدینے کی حاضری کھل جائے جاکے اپنا مقدرحرم کے پاس چونکہ آپ ؒ اسلاف اوران کے علوم ومعارف کے امین ووارث تھے؛ اس لیے ان کا ادب وشعر بھی اسلام کے محور پر گھومتا ہے، اسلاف کی روش سے کہیں انحراف نہیں ملتا اور نہ ہی ان کی شاعری میں آورد ہے، کسی شخصیت سے متاثر ہوئے یا واقعات وحوادث نظر سے گزرے اور انھوں نے اظہار جذبات پر مجبور کیا تو خیالات وتاثرات اشعار کے سانچے میں ڈھلتے گئے اور ادبی دنیا میں ایک وقیع اضافہ ہوتاگیا، شعر وشاعری مستقل مشغلہ نہیں تھا اور ایک عالم باعمل اس کو مشغلہ بنائے بھی تو کیسے؟آپؒعابد‘ زاہد‘ چلہ کش و مرتاض بھی تھے‘ صاحب کشف و کرامات بھی تھے‘ مصلح ‘ مربی بھی ان کی مثل و نظیر کوئی نظر سے گزرا ہی نہیں۔ہر روز بعد از نماز عصر آپ کی مجلس ہوا کرتی تھی۔ایسی لطافت ‘ نظافت‘ پاکیزگی اور نورانیت ۔اللہ ، اللہ۔مرشد کی خوبیوںمیں اظہار کا طریق‘ اسلوب کا رنگ، الفاظ کا استعمال‘ معانی کا جمائو ،سلاست کا نکھار سب سے منفردہونا چاہیے۔ویسے کسی بھی تحریر و تقریر کی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے سامع اور قاری کے لئے بوجھل نہ ہو۔کسی مرحلے میں دماغ تھکاوٹ محسوس نہ کرے بلکہ یوں محسوس کرے کہ وہ اس میں کھو چکا ہے۔شخصیت میں حد درجے کی کشش کہ طبیعت کبھی نہ اکتائے۔آپؒ کی مجلس میں ان الفاظ کا مجموعہ تھی۔ جامعہ دارالعلوم الاسلامیہ کے بارے میں یوںکہا کرتا ہوں کہ برصغیر پاک و ہند میں اس مدرسے کے نصاب سے بہتر نصاب کسی کا نہیں ہوگا۔ یہاں حفظ سے لیکر درس نظامی، ایم فل، پی ایچ ڈی، کمپیوٹر اور قانون کی تعلیم تک فری دی جاتی ہے۔ دینی اور دنیاوی علوم ایک ہی چھت کے نیچے پڑھائے جاتے ہیں۔ اس مدرسے کے فارغ التحصیل طلبہ آج عدالتوں میں پریکٹس کر رہے ہیں ،فرقہ واریت سے پاک ماحول، دینی اور دنیاوی تعلیم کا مرکز، لیکن اسکے ساتھ ساتھ حضرت مولانا مشرف علی تھانویؒ کا خانقاہی نظام میں طلبہ کی تربیت کا سلسلہ قرونِ اولی کے بزرگوں کی یاد تازہ کرتا ہے۔آپ ؒ کے جانشین الدکتور قاری احمد میاں تھانوی اور الدکتورقاری خلیل احمد تھانوی کے ساتھ ساتھ آپ ؒ کے دونوں فرزند ڈاکٹر مولانا اشرف علی فاروقی اور مولانا محمد علی فاروقی اپنے والد کی خانقاہی ،تدریسی اور انتظامی وراثت کو بہتر انتظام میں چلا رہے ہیں ۔ پانچ برس بعدجامعہ میں آج افتتاح بخاری ہو رہامگر : کہاں کھو گئی وہ پیاری سی صورت جسے ڈھونڈتی ہیں نگاہیں ہماری