سنی اتحاد کونسل کا ایک زبردست چھکا ، وقت کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی جمہوری جماعت بنتی جا رہی ۔پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کو صدارتی امیدوار نامزد کر دیا۔دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے صدارتی الیکشن کی دوڑ میں شامل ۔الیکشن کمیشن نے 9 مارچ کو ہونے والے صدارتی انتخاب کا شیڈول جاری کر دیا ہے۔اگر بلوچستان کے ممبران اسمبلی کا ضمیر جاگ اٹھا تو آصف علی زرداری کا ایوان صدر میں بیٹھنے کا خواب چکنا چور ہو سکتا ہے ۔ صدر کے الیکشن کے الیکٹورل کالج کے تحت ووٹنگ ہوتی ہے ۔جس کی بنیاد بلوچستان اسمبلی ہے ۔جہاں پر کل ممبران اسمبلی کی تعداد 65 ہے ۔جن میں اس وقت 3 نشستوں پر نتائج التوا کا شکار ہیں ،جس کے بعد بلوچستان اسمبلی میں ممبران کی تعداد 62 ہے۔بلوچستان اسمبلی ،سینٹ اور قومی اسمبلی کے ہر رکن کا ووٹ ایک ووٹ شمار ہو گا جبکہ دیگر اسمبلیوں کے ممبران کے ووٹ 62 پر تقسیم ہوں گے ۔ بلوچستان اسمبلی میںپارٹی پوزیشن کچھ یوں ہے ۔الیکشن کمیشن کے نوٹیفکیشن کے مطابق بلوچستان اسمبلی میں پاکستان پیپلز پارٹی 17 نشستوں کے ساتھ اکثریتی جماعت ، مسلم لیگ (ن) 16 اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کو 12 نشستیں ملی گئیں۔بلوچستان عوام پارٹی 5، نیشنل پارٹی 4 جبکہ اے این پی کو 3 نشستیں ملیں۔ جماعت اسلامی اور حق دو تحریک کو صوبائی اسمبلی میں ایک ایک نشست ملی۔ بی این پی مینگل اور بی این پی عوامی کو بھی ایک ایک نشست ملی ہے۔ ایک آزاد رکن اسمبلی جبکہ 3 جنرل نشستوں پر حتمی اعلان زیر التوا ہے۔ صدارتی انتخاب کے لیے پولنگ 9 مارچ کو صبح 10 سے شام 5 بجے تک پارلیمنٹ ہاؤس اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں ہوگی۔صدارتی الیکشن پرسینٹ کی خالی دس نشستیں بھی اثر انداز ہوں گی، سوال یہ ہے کہ ان خالی نشستوں کا نقصان کس امیدوار کو ہوگا؟ بظاہر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے مشترکہ امیدوار آصف علی زرداری کو سینٹ میں خالی ہونے والی دس نشستوں کا زیادہ نقصان ہو گا۔ اس وقت تک پیپلز پارٹی جے یو آئی ف اور ایم کیو ایم کی حمایت حاصل نہیں کرسکی ،اگرچہ قومی اسمبلی ‘ سندھ اسمبلی ‘ پنجاب اسمبلی اور بلوچستان اسمبلی میں اس اتحاد کی اکثر یت ہے۔ایک باوثو ق ذرائع کے مطابق اچکزئی گیم پلٹ سکتے ہیں۔بلوچستان کے ممبران اسمبلی نے اپنے صوبے کی لاج رکھ لی تو پھر زرداری کے لیے مسائل ہی مسائل ۔ بلوچستان کے الیکشن میں انتخابی نتائج کے خلاف 4 جماعتی اتحاد کی جانب سے 2 ہفتے تک دھرنا جاری رہا ہے۔دھرنے میں گویا سمندر امنڈ رہا تھا ،محمود خان اچکزئی اس تہذیب کے پیروکار ہیں، جس نے اپنے مذہب کی پابندی کے ساتھ دوسرے مذاہب کوعزت دی ۔اصول پسندی ،وضعداری ،شرافت اور سچائی ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے ۔ محمود خان اچکزئی نے دھرنے سے خطاب میںبھی سخت زبان استعمال کی تھی جبکہ قومی اسمبلی میں بھی انھوں نے اسی لہجے کو برقرار رکھا ۔ بلوچستان کی زیادہ تر آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔ سونے چاندی اور دیگر قدرتی وسائل سے مالا مال زمین کے باسی آج بھی اپنی بے بسی پر روتے ہیں، بچے تعلیم سے محروم ہونے کے ساتھ ساتھ دو وقت کی روٹی تک کو ترستے ہیں۔ سات دہائیوں کے بعد بھی اِس صوبے کی حالت نہیں بدلی۔ بلوچستان میں محکمہ آبپاشی، محکمہ صحت تباہ ، محکمہ تعلیم کا کوئی پرسان حال نہیں، پینے کا پانی دستیاب نہیں، سڑکیں کھنڈرات کا منظر پیش کرتی ہیں۔ بندہ اپنی داستان غم سنائے کسے ؟ بلوچستان کو سونے چاندی کی نہیں بلکہ پینے کے پانی کی تلاش ہے۔ جی ہاں! پانی کی تلاش۔ منرل واٹر کی بھی نہیں بلکہ سادہ پانی کی تلاش ، جو انسانوں اور جانوروں کے کام آسکے۔ آج کل ہم بلوچستان کے عوام پانی کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن ،نسلوں اور پشتوں سے علم وفضل ،خدمت خلق ،مجاہدانہ سرفروشی ،عزیمت اور بلند ہمتی سے ہمکنار ہیں۔گزشتہ روز میاں نواز شریف نے مولانافضل الرحمان سے ان کی رہائشگاہ پر ملاقات کی ۔مگر کچھ حاصل نہ ہوا ۔مولانا فضل الرحمن کی جماعت کے ساتھ مسلم لیگ ن نے پنجاب بھر میں کسی ایک بھی سیٹ پر ایڈجسٹ منٹ نہیں کی تھی ۔میرے ذاتی ذرائع کے مطابق مسلم لیگ کو کچھ قوتوں نے اتحاد کرنے سے منع کر رکھا تھا ۔ورنہ ماضی میں جہاں مسلم لیگ جے یو آئی کے ساتھ اتحاد کرتی تھی ، اس بار کیوں نہ کر سکی حالانکہ ماضی کی نسبت اسے اچھے امیدوار بھی میسر تھے ۔رانا ثنا اللہ اور پروفیسر احسن اقبال ،عزیزم حافظ نصیر احمد احرار اور برادرم پروفیسر حافظ غضنفر عزیز کو ماڈل ٹائون کا طواف ہی کرواتے رہے ۔یہی کچھ ملتان میں پیپلزپارٹی کے سید یوسف رضا گیلانی نے کیا ۔ مولانا فضل الرحمان کا جو احترام میاں نواز شریف کی نظر میں اور مولانا کی نظر میں نواز شریف کا ہے وہ مثالی ہے۔ ہمیشہ دونوں نے ایک دوسرے کی بات مانی ہے۔ کبھی ایک دوسرے کی بات نہیں ٹالی۔لیکن یہاں معاملہ کچھ الٹ ہے۔سعد رفیق ،احسن اقبال اور رانا ثنا اللہ کے مولانا فضل الرحمن کے ساتھ ملاقات کے بعد محمود اچکزئی کے بارے میں خیالات کچھ یوں تھے ۔’’ محمود خان اچکزئی ایک معتبر اور محب وطن سیاست دان ہیں۔ ہم محمود خان اچکزئی کو بھی ساتھ جوڑیں گے‘‘۔مگرجیسے ہی سنی اتحاد کونسل نے اچکزئی کو صدارتی امیدوار نامزد کیا ۔مسلم لیگ ن نے اچکزئی کے قومی اسمبلی والے خطاب پر غصہ نکالناشروع کر دیا۔ جے یو آئی کے مولانا عبدالغفور حیدری نے بڑے واضح الفاظ میں کہا: ہمارا مؤقف قائم ہے ہم حکومت کا حصہ نہیں ہوں گے، ہم نے بڑا فیصلہ لیا ہے ہم اس فیصلے کو بدلنے کا اختیار نہیں رکھتے۔ جے یوآئی کے لیے آصف علی زرداری کو ووٹ دینا ویسے ہی بہت مشکل ہے کیونکہ جے یو آئی سندھ کے سومرو برادران کو کسی صورت ناراض نہیں کر سکتی ۔