میں دبئی کے ائیرپورٹ سے باہرنکلا تومیرے دوست ضیاء الحق میرے منتظر تھے۔ پرتپاک انداز میںگلے ملے اور پرجوش معانقہ کرنے کے بعد مجھے اپنی انتہائی خوبصورت قیمتی گاڑی میں بٹھاکر اپنے فلیٹ کی جانب روانہ ہوئے بڑی مدت کے بعد ملاقات ہونے کے با وصف حال و احوال پوچھے جانے کا ایک دراز اورلامتناہی سلسلہ شروع ہوا۔ درایں اثنا ہماری کار ایک بس کے ساتھ سائیڈ سے ٹکرا گئی۔ دونوں میں سے کسی نے بھاگنے کی کوشش نہ کی اوردونوں رک گئے۔ میں نے اللہ کے حضور ہاتھ جوڑے مناجات شروع کئے کہ یاخیرکے ہم طلب گار ہیں ۔ میں سوچ رہا تھا کہ ہمارے ملک کی طرح دونوں ڈرائیورں کے مابین دنگل شروع ہوجائے گی اور لوگوں کی بھیڑ جمع ہوجائے گی ۔ میں نے ضیاء بھائی سے کہا یار مہربانی کرکے لڑائی نہیں کرنا نرم اورملائم انداز میں معاملہ طے پا جانا چاہئے اگر ہمیںجرمانہ دینا پڑے تو میں دوں گا۔ بھائی آپس میں دست وگریبان اور گھتم گھتا نہ ہونا ،ضیاء بھائی بولے جناب یہاں کا نظام ایسا ہے کہ ہم آپس میں لڑ ائی کر ہی نہیں سکتے ۔ بہرکیف ضیاء بھائی اور بس ڈرائیوردونوں نیچے اترے اورمجھے اس وقت تعجب ہوا کہ جب میری ان آنکھوں نے ماجرا دیکھا کہ دونوں نے مسکرا کر ہاتھ ملائے ۔چائے منگائی گئی۔ دونوں نے نوش کی اورمجھے بھی پلائی ۔ میں بھی اپنی کار میں تھا اوربس مسافر بھی اپنی اپنی سیٹوں پرنہایت اطمینان کے ساتھ براجماں تھے ۔دونوں گاڑیاں کھڑی ہیں اوردونوں ڈرائیورکسی کا انتظارکر رہے ہیں۔کچھ وقت گزرا تو پولیس کا ایک بندہ آگیا۔ دونوں کوسی سی ٹی وی کی ویڈیوکلپ دکھائی اورپھراز خود بھی ملاحظہ کیا۔ میرے دوست ضیاء الحق گاڑی میں بیٹھے تومیں نے ان کے ہاتھ پہ ہاتھ دے مارا اوران سے کہا یارآپ دونوں میں سے ضرور ایک خطارکار ہو گا لیکن پھر بھی آپ ایک دوسرے سے بڑے پیاراورمحبت کے ساتھ چائے کی چکسیاں لیکر گپیں مارتے رہے۔ یہ تومیرے لئے ایک عجوبہ سے کم نہیں ۔ میرے دوست مجھ سے گویا ہوئے دیکھئے جی یہاں نظام ایسا ہے کہ انسان سے خطا ہوسکتی ہے لیکن خطا کارکونظام جرمانہ یاسزاسنائے گا کوئی اورہرگز نہیں۔ ضیاء بھائی کہہ رہے تھے کہ دبئی کے ٹریفک نظام سے وابستہ اہلکار نے ہمیں سی سی ٹی وی کا کلپ دکھا اورہمیں ساتھ رکھ کرخود بھی ملاحظہ کیا اوراس کے بعد نشاندہی کی کہ غلطی مجھ سے ہوئی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی بتا دیاکہ دبئی میں دس برسوں کے دوران یہ میری پہلی ٹریفک (volition) ہے اوریہ بتا دیا کہ میں نے یہ والیشن جان جوجھ کرنہیں کی۔ ضیاء بھائی سے کہا آپ جا سکتے ہیں تاہم بس ڈرائیورسے کہاکہ منزل مقصود پر پہنچ کر گاڑی کو ورک شاپ لے جائے۔اب ہوگا یہ کہ بس کاجتنا نقصان ہوا ،اس کے متعلق میری کمپنی کو آگاہ کیاجائے گا اوراسے بتا دیا جائے گاکہ آپ کے ملازم کی غیرارادی غلطی سے بس نمبر فلاں جوفلاں کمپنی کی ہے کو اتنا نقصان ہو چکا ہے ۔آپ کے ملازم کے ٹیکس سے بس کمپنی کو اتنی رقم دے دی گئی ہے اورمیری کمپنی مجھے باضابطہ طور پراس حوالے سے مطلع کرے گی ۔ میں نے اپنے دوست سے کہاکہ بس کو ہماری وجہ سے کتنا نقصان پہنچا ضیاء بھائی نے کہا اس کا معمولی رنگ اتر چکا ہے جس پرہمارے ملک کی کرنسی کے اعتبار سے سات سے آٹھ ہزار روپیہ جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔ یہ سارا معاملہ کس خوش اسلوبی سے طے پایا میں اسے اپنے الفاظ میں بیان کر ہی نہیں سکتا۔انسان سے غلطی ہوسکتی ہے مگرملکی نظام مستحکم اوراچھا ہوتو وہ اسے سدھارتا بھی ہے۔ شہریوں کو باہم لڑنے ،دست وگریبان ہونے آپس میں مغلظات بکنے کی نوبت بھی نہیں آنے دیتا۔اس سارے معاملے کے دوران میں نے کسی ایک فرد کو بھی اس معمولی سے حادثے کی طرف لپکتے ہوئے نہیں دیکھا جم گھٹا ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔یہ صرف دبئی کاایک واقعہ ہے جو میرے سامنے پیش آیا اورجس کا میں عینی گواہ ہوں ۔ لیکن آپ جب اپنے ملک سے باہر ان ممالک کی طرف رخ کریں گے کہ جہاں قانون کی حکمرانی قائم ہے اور نظام مضبوط ومستحکم ہے،طے شدہ اصولوں اورضابطوں پرعمل کیا جارہا ہے توہرلحاظ سے آپ پوری طرح محفوظ ہیں آپ پر کبھی ظلم نہیں ہوسکتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں ریاستی اداروں نے نظام چلانے کے لیے قواعد کے سیٹ بنا رکھے ہیں، جس پر ریاست اپنی عوام سے یہ امید لگاتی ہے کہ وہ ان قوانین پر عمل کرے گی۔ جیسے عوام اپنی کمائی کا ایک بھرپور حصہ ٹیکس کی شکل میں اس بھروسے پر حکومت کے حوالے کرتی ہے کہ حکومت ان کے محنت سے کمائے پیسے ان ہی کے فلاح پر خرچ کرے گی۔ عوام اور ریاست کے درمیان بھروسے کا یہ سسٹم خوب چل رہا ہے۔ترقی یافتہ ممالک میں بات بات پہ قانون اور قواعد موجود ہیں اوران پرعمل پیراہونے سے ریاست کوئی ایک فرد بری الذمہ نہیں۔ریاست کے تمام شہریوں اورملک میں رہنے والا ہرفرد چاہے اس کاتعلق تارکین وطن سے کیوں نہ ہو پر یکساں طور پر ریاست کا ڈنڈا موجود ہے۔جو عمل سے بھی نظر آتا ہے۔ اس ڈنڈے کی موجودگی کا احساس سب کو ہے اورملکی قوانین کی خلاف ورزی پر وضع کردہ اورمقرر سزائیں سب کے علم میں ہوتی ہیں کہ ان ہی قوانین میں ہے کہ گاڑی کی رفتار کب اورکہاں کیا ہونی چاہیے؟ ترقی یافتہ ممالک میں ریاست، قانون، اداروں اور افراد کا ایک دوسرے پہ اعتماد اور اندھا بھروسا دیکھیں۔ اس کا موازنہ اپنے دیسی معاشروں کی چھوٹی چھوٹی نوسربازی سے کریں تو اپنے لوگوں کی اخلاقی اور ذہنی پس ماندگی کا اندازہ خوب ہوتا ہے۔ہمارے معاشرے میں بے اعتمادی، چوری، وعدہ خلافی، جھوٹ اور خیانت جب تک بڑے ناقابل معافی جرائم تصور نہیں کیے جائیں گے، جب تک ہم بالروح والجسد اسلام کے دیئے ہوئے اصولوں اورضابطوں پرعمل پیرا نہیں ہونگے اور جب تک ہم اپنے ملک کے قوانین پردل وجان عمل نہیں کریں گے تب تک ہم اپنی دو نمبری کو نہیں سدھاریں گے، تب تک ہم صرف ایک انسانی ہجوم کہلائیں گے ۔اس کے علاوہ اورکچھ بھی نہیں۔