اس حقیقت کی صداقت سے کوئی باشعور پاکستانی انکار نہیں کر سکتا ہے کہ لوگوں کی غالب اکثریت موجودہ حالات اور بندوبست نظام حکومت سے مطمئن نہیں ہے _یہ عدم اطمینان صرف سطحی نہیں ہے بلکہ یہ ریاستی اداروں کی سیاسی ترجیحات اور عملی کارکردگی سے عوامی مایوسی کا عکاس ہے _آج وطن عزیز کو ایسے سماجی، سیاسی، معاشی اور علاقائی چیلنجز یا یوں کہیں کہ بحرانوں کا سامنا ہے کہ اگر ان کو نمٹنے کے لیے فوری تدابیری اقدامات نہ کئے گئے تو ہمارا ریاستی ڈھانچہ مزید شکست و ریخت کا شکار ہو جائے گا قانون کی حکمرانی کے فقدان، کرپشن، بیڈ گورنس، غلط سیاسی اور معاشی ترجیحات، قومی مفادات سے چشم پوشی، اسٹیبلشمنٹ کا جانبدارانہ رویہ، بالائی طبقات کی کوتاہ اندیشیانہ اور استحصالی رویہ، عوام کی اکثریت کی مختلف النوع محرومیاں اور ایسے بے شمار سنگین عوارض نے ہمارے قومی وجود کو کرچی کرچی کر دیا ہے۔ تن ہمہ داغ داغ شد پنبہ کجا کجا نہم پچھلے 76 سالوں سے ہمارے حکمرانوں نے پوری قوم کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا ہوا ہے ۔ جمہوریت ہو یا آمریت عوام کے حالات نہیں بدلے ہیں سوائے بالائی طبقات کے لوگوں کے جن کا مطمع نظر ذاتی مالی مفادات ہوتے ہیں پہلے نج کاری، پھر قومیا نے کی پالیسی، دوبارہ پھر قومی اثاثوں کی نجکاری سے ملکی معیشت نے تو کیا بہتر ہونا ہے البتہ بالائی طبقات کی اربوں کی دیہاڈی اور منافع جات میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے کبھی یہ طبقہ چینی، گندم، خوردنی تیل، ادویات کی مصنوعی قلت پیدا کر کے اور پھر اس کی درآمد سے اربوں کماتے ہیں حالیہ گندم کی غیر ضروری امپورٹ کا سابق نگران وزیراعظم انوار کاکڑ خوب دفاع کر رہے ہیں ۔ عوام کی جیبوں سے کیپسٹی چارجز تو دلوائے جارہے ہیں ملک کی آمدنی اور آخراجات میں فرق چار ہزار ارب تک پہنچ گیا ہے55 ہزار ارب روپے سے زائد قرضوں اور سود کی ادائیگیوں پر خرچ کرنے سے بھی سیھٹوں کے بنکوں کو اربوں کا منافع حاصل ہو رہا ہے مگر عام آدمی پٹرولیم 700 ارب کی لیوی کے علاوہ بالواسطہ ٹیکسوں کے بھاری بھر کم بوجھ اور مہنگائی کے ہاتھوں جیتے جی مر گیا ہے پتہ نہیں کون بے حس دانشور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ پاکستان میں کوئی بھوکا نہیں سوتا ہے 42 فیصد بچوں کی ناقص صحت اور کم قامت، اندر دھنسی آنکھیں۔ پچکے گال اور زرد رنگت کیا یہ ظاہر نہیں کر رہی ہے کہ وہ بھوک کے ہاتھوں قحط کا شکار ہیں مگر ریاست کے کرتا دھرتا تو آگر کوئی عوامی بہبود کا صحت کارڈ منصوبہ یا پناہ گاہوں کا منصوبہ ہو گا اسے ختم کرنے کو ترجیح دے گی کیونکہ یہ اقدامات ان کے مخالف سیاست دان نے کئے تھے ہمارے ارباب بست و کشاد اور کاروباری لوگوں کی نفسیاتی ساخت اور کردار کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ ہم ان سے منافع خوری کے علاوہ کسی دوسرے روپے کی توقع ہی نہیں کر سکتے ہیں آج ایک عام پاکستانی سوچنے پر مجبور ہے کہ لاکھوں جانوں اور عصمتوں کی قربانیاں دے کر آنے والوں کی نسلوں کو کیا حاصل ہوا؟ ۔ کیا عوام کی اکثریت کو بنیادی ضروریات زندگی اور با عزت زندگی میسر ہوئی ہے 10 کڑور سے زائد افراد غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں سسک سسک کر زندگی کے دن گزار رہے ہیں عام انسان کے گھر بار ایک طرف ڈاکوں لوٹ رہے ہیں تو دوسری طرف سیاسی وابستگی کے باعث، اپنے حقوق مانگنے پر، انتخابات میں دھاندلی پر احتجاج کی سزا کہ ان کے گھروں پر پولیس چڑھ دوڑتی ہے دہشت گردی کے مقدمات قائم کر دئیے جاتے ہیں جس ملک میں بے گناہ عورتوں کو قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں، سیاسی کارکنوں کے ساتھ جرائم پیشہ افراد کی طرح سلوک روا رکھا جائے چادر اور چار دیواری کو کوئی تحفظ نہ حاصل ہو تو کیا ایسے ملک کا کوئی عام شہری احساس تفاخر سے زندگی بسر کر سکتا ہے عام آدمی تو دور کی بات جو شخص قومی ہیرو تھا جسکی وجہ سے دنیا میں پاکستان کی پہچان تھی وہ 200 سے زائد مقدمات میں ٹرائل بھگت رہا ہے کیونکہ وہ سٹیس کو توڑ نے کی بات کرتا ہے تو کیسے اس ملک میں انارکی، سول وار اور اداراتی بریک ڈاؤن نہیں ہو گا ۔ آج ہماری پارلیمنٹ میں اقلیت کو اکثر یت پر حاکم بنایا گیا ہے جس کی وجہ سے پارلیمنٹ غیر متعلق ہو چکی ہے اگر چہ جنرل نعیم لودھی جیسے افراد عمران خان اور فوجی اسٹیبلشمنٹ میں قومی مفاد میں سمجھوتہ کرانے کے لیے کوشاں ہیں تو ان حالات میں ضروری ہے کہ اپوزیشن اور حکمران جماعتیں اپنے طور طریقوں کو بہتر کریں، بے کار محاذ آرائی اور انتقامی سیاست کا راستہ ترک کر کے معمول کے تعلقات قائم کریں حکومت اور اسمبلیوں کی مدت چار سال کر دی جائے انتخابی عمل کو صاف شفاف، کم خرچ، کرپٹ عناصر سے پاک اور ریاستی اداروں کی بے جا مداخلت روکنے کے لیے کوئی متفقہ میکانزم قائم کیا جائے حکمرانی کا حق صرف اسے ہی ملے جو عوام کے ووٹ کی طاقت سے جیتا ہو ریاستی ادارے۔عدلیہ اور بیوروکریسی آئین اور قانون کی حدود میں رہ کر اپنے قومی فرائض سرانجام دیں کسی بھی شخص کو اپنی ذات، سوچ و فکر ،اپنی پسند اور ناپسند کو عوامی مینڈیٹ پر حاوی کرنے کی ضد نہیں کرنی چاہیے کیونکہ کوئی بھی انفرادی شخص ملک و قوم کے لیے ناگزیر نہیں ہوتا ہے سب سے بڑھ کر ملک کا امیر طبقہ ایمان داری سے ٹیکس ادا کرے تمام سیاسی اور ریاستی سٹیک ہولڈرز ایک جامع سیاسی اور معاشی پیکج طے کر کے اس پر ایمانداری سے عمل پیرا ہوں گے تو تب امید کی جا سکتی ہے کہ اگلے چند سالوں میں ہم ارتقائی اصلاح کے راستے پر گامزن ہو کر معاشرے کے اندر کوئی جوہری تبدیلی لانے میں کامیاب ہو جائیں اگر اب بھی ہم نے اپنی اجتماعی بصیرت اور اہلیت کو ملک و قوم کی بہتری کے لیے استعمال نہ کیا تو پھر حالات کی خرابی کو دور کرنے میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا اور پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں رہے گا اسٹیبلشمنٹ کو بھی پاپولر سیاسی لیڈر شپ کی بالادستی کو قبول کرنا ہوگا عمران خان، فضل الرحمن، بلاول بھٹو اور نواز شریف جیسے پاپولر سیاست دانوں کو کارنر کر کے ٹسٹ ٹیوب افراد کو اہم حکومتی مناصب دینے سے دنیا میں پاکستان با عزت مقام حاصل نہیں کر پائے گا پک اینڈ چوز نظام حکومت کی ساکھ کبھی بھی برقرار نہیں رہتی ہے اور نہ ہی بڑے عہدوں پر بیھٹے چھوٹے قد کے لوگ ملک و قوم کی کچھ خدمت کر نے کے قابل ہو تے ہیں ___فاعتبروا یا اولی الابصار