ٍلانڈھی کی مانسہرہ کالونی میں غیر ملکیوں (جاپانی شہریوں)کی گاڑی پرحملہ ناکام بنادیاگیا‘دھماکے میں دو دہشت گرد ہلاک ہو گئے‘حملے میں ایک سکیورٹی گارڈ شہید جبکہ ایک سکیورٹی گارڈ اور شہری زخمی ہوا‘پانچوں غیر ملکی شہری واقعے میں محفوظ رہے۔تفصیلات کے مطابق مرتضیٰ چورنگی سی ون اسٹاپ کے قریب جمعہ کی صبح 6 بجکر 50 منٹ پر کلفٹن زمزمہ کے علاقے سے ایکسپورٹ پراسیسنگ زون جانے والے جاپانی شہریوں پر دہشت گردوں نے حملہ کیا‘ایک دہشت گرد نے گاڑی کے قریب آکر خود کو دھماکے سے اڑا لیا،غیر ملکیوں کے ساتھ موجود سیکورٹی گارڈز نے ملزمان کا مقابلہ کیا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ دہشت گردوں نے ملک کے مختلف حصو ں میں اپنے منحوس پنجے گاڑھ رکھے ہیں ،جب بھی انھیں موقع ملتا ہے تو وہ اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے مستعد ہو جاتے ہیں ۔ اگر دیکھا جائے تو دہشت گردوں کو یہیں سے فنانسراور سہولت کار مل جاتے ہیں ،قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ وہ ابھی تک دہشت گردی کے نیٹ ورک کو توڑ نہیں سکے ۔دہشت گرد تورہے ایک جانب ۔حکومت ابھی تک کچے کے علاقے سے ڈاکوئوں کا خاتمہ نہیں کر سکی ۔ اگر دیکھا جائے توصرف سال2023ء میں دہشت گردی کے 306 حملوں میں 693 لوگ جاں بحق اور1,124 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ 2022ء کے مقابلے پر 2023ء میں دہشت گردی کے واقعات میں 17 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ جانی نقصان 2022 ء کے مقابلے پر 65 فیصد زیادہ ہے۔یہ صورت حال انتہائی تشویش ناک ہے ۔اصولی طور پردہشت گردی کے واقعات میں کمی ہونی چاہیے تھی ۔مگر دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ سکیورٹی فورسز کے ادارے ابھی تک ناکام رہے ہیں ۔ بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات میں 39 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ مرنے والوں میں 330 افراد کا تعلق افواج اور قانون نافذ کرنے والوں اداروں سے ہے، جن میں سے 26 ایف سی کے اہلکار، 176 پولیس اہلکار، 110 فوجی، 11 لیویز، دو رینجرز شامل ہیں۔مرنے والوں میں 260 عام شہری بھی شامل ہیں۔ دوسری طرف عسکریت پسندوں کے جانی نقصان کا عدد103ہے اور 47 زخمی ہوئے ہیں۔اگر دیکھا جائے تو بلوچستان میں ایک دہشت گرد کی موت کے بدلے ، چھ لوگ مارے گئے ہیں۔جن میں سکیورٹی فورسز کے افسران اور جوان بھی شامل ہیں ۔بلوچستان میںامن و امان کی صورتحال انتہائی تشویش ناک ہے ۔بلوچستان میںایک طرف علیحدگی پسند ہیں تو دوسری جانب کالعدم تحریک طالبان۔ صوبے میں علیحدگی پسند گروہوں اور مذہبی عسکری گروہوں کی جانب سے 110 حملے کیے گئے جبکہ 2022 ء میں ان حملوں کی تعداد 79 تھی۔ بلوچستان میں ہونے والا جانی نقصان بھی 229 تھا جبکہ 2022 ء میں یہ 106 تھا۔بلوچستان لبریشن آرمی اور بلوچستان لبریشن فرنٹ کی جانب سے 78 حملوں میں 86 لوگ مارے گئے۔ بلوچستان میں دہشت گردی کا نشانہ 19اضلاع بنے، جن میں ہدف زیادہ تر سیکورٹی سے وابستہ ادارے تھے۔ گذشتہ برسوں میں جتنے حملے ہوئے ہیں، ان میں سے 93 فیصد صرف دو صوبوں خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ہوئے۔ سب سے بڑا نشانہ خیبر پختونخوا بنا ہے ،جہاں کل ہونے والے حملوں میں سے 57 فیصد ہوئے جن کے نتیجے میں 422 لوگ مارے گئے۔ان دونوں صوبوں میں دہشت گردوں کے علاوہ مذہبی گروہ بھی دہشگردی میںملوث ہیں۔ جن میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان، تحریک جہاد پاکستان، حافظ گل بہادر گروپ داعش خراسان شامل ہیں، جنہوں نے گذشتہ سال ہونے والے کل 306 حملوں میں سے 208 حملے کیے ہیں، جن میں 579 جانیں گئیں۔ انہی تنظیموں نے 2022ء میں 179 حملے کیے تھے۔ بلوچ علیحدگی پسندوں اور سندھی قوم پرستوں کی جانب سے گذشتہ سال86 حملے کیے گئے ،جن میں 90افراد مارے گئے، جبکہ 2022ء میں ان گروہوں کی جانب سے ہونے والے حملوں کی تعداد 79 تھی۔فرقہ وارانہ حملوں کی تعدادجو کہ 2022ء میں صرف 4تھی گذشتہ سال بڑھ کر 12 ہو گئی ہے جن میں 24 اموات ہوئیں اور 35افراد زخمی ہوئے۔گذشتہ برسوں کی طرح 2023ء میں بھی دہشت گردی کا سب سے بڑا ہدف قانون نافذ کرنے والے ادارے بنے ہیں جوکل ہونے والے دہشت گرد حملوں میں سے 67 فیصد کا نشانہ تھے۔ حیران کن صورتحال یہ ہے کہ ان حملوں میں امریکہ اسلحہ استعمال ہو اہے ۔ صاف ظاہر ہے یہ اسلحہ افغانستان کے راستے ہیں دہشت گردوںکے ہاتھ لگا ہے کیونکہ پینٹا گون خود اعتراف کرچکا ہے کہ امریکا نے افغان فوج کو مجموعی طور پر 4 لاکھ 27 ہزار 300 جنگی ہتھیار فراہم کئے، اور امریکی فوج کے انخلا کے وقت 3 لاکھ ہتھیار افغانستان میں ہی باقی رہ گئے۔جو اسلحہ افغانستان میں راہ چکا تھا ۔اب وہی پاکستان میں استعمال ہو رہاہے ۔اس لحاظ سے امریکہ نے بھی اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی ۔ حکومت پاکستان کو نا صرف دہشت گردی کے خلاف کمربستہ ہو نا چاہیے بلکہ کچے کے علاقے میں انسانی جانوں کے دشمنوں کے خلاف بھی کام کرنا چاہیے ۔ 2014ء میں نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا تھا جس کا مقصد دہشت گردی کے ناسور کا خاتمہ کرنا تھا ۔اسے دوبارہ سے فعال کیا جائے ،جدید ٹیکنالوجی کو استعمال میں لاتے ہوئے دہشت گردوں اور کچے کے ڈاکوئوں کے خاتمے کا آپریشن کیا جائے ۔رینجرز،پولیس ،ایف سی سمیت سبھی قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس میں شامل کیا جائے ۔