لوگوں کو ہمیشہ امتحان سے گزرنا ہوتا ہے۔ لازمی نہیں کہ ابتلا ہمیشہ بربادی لے کر آئے۔اگر انسانی حواس قائم رہیں اور صبر و استقامت اختیار کی جائے توابتلا نعمت بھی بن جاتی ہے۔حالیہ دنوں میں مملکت خداد داد میں عین اس وقت شدید بارشیں اور ژالہ باری ہوئی ،جب کسان اپنی محنت کا پھل سمیٹنے والا تھا ۔کئی مقامات پر فصلیں تباہ ہو گئیں،کسانوں کو دھاڑیں مار مار کر روتے دیکھا گیا۔مگر بعض جگہوں پر بارش ہونے کے باوجود فصلوں کو جزوی نقصان پہنچا۔بنیادی سوال یہ ہے کہ آخر کوئی سبق سیکھنے پر آمادہ کیوں نہیں؟ میرے ملک کا کسان اپنی فصل سے عشر کیوں نہیں نکالتا؟سورہ بقرہ کی آیت 261 میںراہِ خدا میں خرچ کرنے والوں کی فضیلت، ایک مثال کے ذریعے بیان کی ہے ۔فرمایا: یہ ایسا ہے جیسے کوئی آدمی زمین میں ایک دانہ بیج ڈالتا ہے، جس سے سات بالیاں اگتی ہیں اور ہر بالی میں سو دانے پیدا ہوتے ہیں۔ گویا ایک دانہ بیج کے طور پر ڈالنے والا سات سو گنا زیادہ حاصل کرتا ہے ، اسی طرح جو شخص راہِ خدامیں خرچ کرتا ہے ،اللہ تعالیٰ اسے اس کے اخلاص کے اعتبار سے سات سو گنا زیادہ ثواب عطا فرماتا ہے اور یہ بھی کوئی حد نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے خزانے بھرے ہوئے ہیں اور وہ کریم و جواد ہے ،جس کیلئے چاہے اسے اس سے بھی زیادہ ثواب عطا فرما دے۔ ہمارے ہمسائے ملک افغانستان میں طالبان نے حکومت سنبھال رکھی ہے ۔اس وقت طالبان کا پورے افغانستان پر کنٹرول ہے ۔ جولائی 2021ء میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ملک کی معاشی صورتحال بھی مخدوش ہوئی۔عالمی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق 368 ملین ڈالر جی ڈی پی کے ساتھ افغانستان دنیا کے سب سے غریب ممالک میں شمار ہوتا ہے۔اس لحاظ سے ملک کی تقریباً آدھی آبادی، یعنی چار کروڑ سے زیادہ افرادکو غذائی قلت کا سامنا ہے۔ یہ اعداد و شمار دنیا میں سب سے زیادہ ہیں۔مگر اس کے باوجود طالبان نے اس چیلنج کو قبول کیا ، 2021ء کے مقابلے میںاب افغانستان کے حالات بہتر ہیں۔ اس وقت طالبان معیشت چلانے کے لیے چند پرانے اور کچھ نئے ذرائع پر انحصار کر رہے ہیں۔طالبان نے اقتدار میں آنے کے بعد سب سے زیادہ ٹیکس اکٹھا کرنا شروع کیا ہے۔ ایک رپور ٹ کے مطابق دسمبر 2021ء سے اکتوبر 2022ء تک طالبان حکومت نے ڈیڑھ ارب ڈالر سے زیادہ ٹیکس اکٹھا کیا، جو اس سے پہلے دو سال کے اسی عرصے میں اکٹھا ہونے والے ٹیکس سے زیادہ ہے۔ اہم بات جس کی جانب میں سب کسان بھائیوں کی توجہ دلانا چاہتا ہوں ۔افغانستان کا ہر شخص اپنی آمدنی میں سے حکومت کو حصہ دیتا ہے۔جبکہ پاکستان میں سالانہ315ارب روپے کی ٹیکس چوری سے قومی خزانے کو نقصان پہنچایا جاتا ہے۔آخر کب تک ؟ہم غیروں کے سامنے جھولی پھیلا کر آنسو بہاتے رہیں گے ۔ ایک رپورٹ کے مطابق تمباکو کی غیر قانونی تجارت میں 81 ارب ، چائے کی صنعت میں 36 ارب ، ٹائروں اور لبریکنٹس کی صنعت میں 91 ارب ، فارما سیٹیکل سیکٹر میں 47 ارب اور رئیلٹ اسٹیٹ سیکٹر میں 62 ارب روپے کا نقصان پہنچایا جا رہا ہے جس طرح دنیا کی بلوچستان کے ذخائر پر نظر ہے ،ایسے ہی افغانستان کے ذخائر پر بھی نظر تھی ،کیونکہ افغانستان میں زیر زمین سونا، تانبا اور لیتھیم بھرا پڑا ہے، کوئلہ، تیل، قدرتی گیس، تانبا اور قیمتی پتھروں جیسی معدنی دولت افغانستان میں وافر مقدار میں موجود ہے۔ان وسائل کی مجموعی قیمت کا تخمینہ امریکی محکمہ دفاع کے ماہرین کی جانب سے تقریباً ایک کھرب ڈالر لگایا گیا تھا۔اگر افغان طالبان کے پاس مشینری آگئی تو وہ اپنی قوم کی قسمت بدل دیں گے ،کیونکہ عیش وعشرت ،فضول خرچی اور کرپشن تو ان کے نزدیک سے بھی نہیں گزری۔اسی جذبے نے افغانستان کو’ ’سلطنتوں کا قبرستان‘ ‘بنایا ہے۔ طالبان حکومت کے پہلے سال میں کوئلے کی فروخت میں 20 فیصد اضافہ ہوا ،جو حکومتی اعداد و شمار کے مطابق تقریبا روزانہ 10 ہزار ٹن کے قریب ہے۔ 2021ء تک افغانستان میں 126 چھوٹی کانیں موجود تھی اور طالبان کی وزارت معدنیات اور تیل کے مطابق ایک سال میں اس تعداد میں 60 کانوں کا اضافہ ہوا ہے جبکہ متعدد نئے معاہدے بھی کیے جا رہے ہیں۔ عظیم دانشور نے کہا تھا :امتحانوں میں مواقع چھپے ہوتے ہیں۔ بحرانوں سے نمٹ کر ہی قومیں سرفراز ہوتی ہیں۔ پاکستان اس وقت کئی قسم کے مسائل میں گھرا ہوا ہے ،سر فہرست معاشی اور سیاسی مسائل ۔جس طرح سیاسی قیادت نے سر جوڑے ہیں ،اگر اسی طرح وہ تحمل ،بردباری اور صبر سے ایک دوسرے کا نقطہ نظر سمجھ کر آگے بڑھے تو ہم نہ صرف ان چیلنجز سے نبرد آماز ہو سکتے ہیں بلکہ مسلم امہ کی قیادت کرنے کے قابل بھی ہو سکتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ کیاایک ایٹمی طاقت پاکستان اپنے عوام کو خوشحالی کے راستے پر نہیں ڈال سکتا ہے ؟افغان قوم خوش بخت ہے کہ وہاں تخریب کاری کا اندیشہ ختم ہوا۔ہم تب خوش قسمت بنیں گے جب مانگنے کی بجائے دینے والے بنیں گے ۔اللہ کے آخری رسولﷺ کا فرمان ہے :اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے،اور اوپر والا ہاتھ خرچ کرنے والا ہاتھ ہے اور نیچے والا ہاتھ مانگنے والا ہاتھ ہے۔ تحمل، صبر اور سلیقہ مندی سے ہمیںمعاشی خود مختاری کا تہیہ کرنا چاہیے۔ جبکہ معاشی خود مختاری ، سیاسی استحکام اور سول اداروں کو مستحکم کیے بغیر ممکن نہیں ہوتی۔ پختہ عزم کے بغیربھی نہیں۔یاد رکھیں ! صحیح سمت میں کی جانے والی کوشش کبھی رائیگاں نہیں ہوتی۔ بے سرو ساماں طالبان نے اگر دوعالمی طاقتوں کو مار بھگایا،توہم ان چیلنجز سے کیوں نجات نہیں پا سکتے؟