مکرمی ! مادیت پرستی کی دوڑ میں جیسے جیسے انسانوں نے ایک دوسرے کو شہ اورمات دینے میں سبقت لے جانے کی کوشش کی ویسے ویسے تعلقات اور انسان سے انسان میں ایک وسیع خلیج کے آہنی پردے گرنے لگے۔اور وہ پردے اس قدر دقیق ہو گئے ہیں کہ انہیں نہ پارکیا جا سکتا ہے نہ گرایا جا سکتا ہے بلکہ بعض اوقات تو انسان انہیں گراتے گراتے خود بھی گرجاتا ہے۔ تعیشات زمانہ کے حصول کے چکر میں انسان دو جمع دو کے چکر میں ایسے الجھا کہ اس نے اپنے ہی رشتوں کو گنجھلک بنا کے رکھ دیا۔آج کے انسان کے پاس اپنے پیاروں کے پاس بیٹھنے کا بھی وقت نہیں ہے۔یا پھر جب کوئی انسان معاشی برتری حاصل کرلیتا ہے تو پھر اسے اپنوں سے ہی گِھن آنے لگتی ہے۔ایسے انسان کے ساتھ وہی چل سکتے ہیں جو اس جیسے ہوں دگر انسان اس دوڑ میں کہیں بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔اس لئے ہمیں اپنے اسلاف کی میراث کے حامل بزرگوں کی صحبت میں ضرور بیٹھنا چاہئے اور ان کے مشاہدات وتاثرات سے مستفید ہونا چاہئے اور ہمارے بزرگوں کو بھی چاہئے کہ اپنا وقت اور خیال اپنے بچوں میں جب موقع ملے تقسیم اور منتقل کرتے رہنا چاہئے کہ اس عمل سے آپ کا علم کم نہیں ہوگا بلکہ آپ کی بصیرت اور بچوں کے علم میں اضافہ کا باعث بنے گا۔ (مرادعلی شاہد‘دوحہ)