بھارت میں مسلمانوں کا قتل عام جاری ہے۔مسلمانوں کو بے روزگار اور بے گھر کیا جا رہا ہے۔مسلمانوں کو شہریت کے نئے قوانین کے تحت بھارتی شہریت سے محروم کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے جبکہ بھارت میں عرصہ دراز سے مسلمان خواتین و مرد حضرات کی جبری نس بندی(اولاد کی پیدائش سے محروم کرنے کا طریق کار) کی جا رہی ہے، اس جبری نس بندی کی پالیسی نے مسلمان عوام کے لئے ہسپتال میں علاج کرانا جوئے شیر لانے کے برابر بنا دیا ہے آئے دن مسلم کش بلوے ہو رہے تھے جو اب مکمل سرکاری سرپرستی اور نگرانی میں منظم اور موثر انداز میں بڑھ گئے ہیں۔مسلمان کے لئے پہلے ہی تعلیم‘ تجارت اور صنعت کے راستے مسدود تھے اب مکمل ختم کر دیے گئے ہیں۔کبھی حجاب کا مسئلہ اور کہیں اسلام کی شناخت کا بہانہ بنایا جاتا ہے ہم سب ایک ہیں کی بنیاد پر ہندوتوا کو پروان چڑھایا گیا اور کہا گیا ہندوستان میں رہنا ہے تو ہندو بن کر رہو۔غیر ہندو کی ہندوستان میں کوئی جگہ نہیں۔بعض شہروں ‘ جگہوں اور محلوں میں مسلمانوں کا گھر سے نکلنا مشکل بلکہ بعض اوقات ناممکن بن گیا ہے ۔اب گھروں کو سرکاری سرپرستی اور نگرانی میں مسمار کرنے کی مہم شروع کر دی گئی ہے ۔مساجد اور مدارس پہلے ہی گرائے جا رہے ہیں،اب اسلامیہ یونیورسٹی علی گڑھ اور دیو بند مدرسہ بھی نشانے پر ہے۔عدالتی نظام اور انصاف کا حال یہ ہے کہ سپریم کورٹ بھارت نے افضل گورو کو پھانسی کا حکم صادر کیا جس میں لکھا کہ ملزم کے خلاف کوئی شواہد اور ثبوت نہیں ہیں کہ افضل گورو نے بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ کیا ہے مگر پھانسی کی سزا اس لئے دی جا رہی ہے کہ یہ بھارتی جنتا کی آشا ہے۔ہندو انتہا پسند اور آر ایس ایس RSSکے غنڈے گودھراں ریلوے سٹیشن پر ہندو بوگی میں آگ لگاتے ہیں اور مسلمانوں پر الزام دھرکے گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام (27فروری 2002ئ) Gujrat Massarreکیا گیا۔ بھارتی لکھاری مثلاً افتخار گیلانی‘ نعیمہ احمد مہجور ‘ ارون دھتی رائے وغیرہ کشمیر اور مسلمانوں کی حالت زار پر تحقیقی صحافت کا فریضہ سرانجام دیتے رہتے ہیں۔ بھارت ریاست کا نام ہے‘ مذہب کا نہیں بھارت میں ہندوتوا کے زیر اثر ہندو ریاست اور رام راج کی تحریک انتہائی مہلک ہو سکتی ہے۔بھارت مختلف مذاہب اور اقوام کا دیس بلکہ دوست مشترکہ ہے۔بھارت کے پہلے وزیر قانون اور آئین ساز دلت لیڈر ڈاکٹر امبیدکر نے آئین کی منظوری کی تقریب میں کہا تھا کہ بھارت کا نام USI(united states if india)ہونا چاہیے جدید/ماڈرن انڈیا کی بقا سیکولر جمہوریت میں ہے۔بھارت رام راج کی کوشش اور مہم بھارت کو کمزور بلکہ برباد کر دے گی۔نیز اگر شہریوں کو برابر حقوق نہ دیے گئے اور ریاستی ٹیکسز سے نہ بچایا گیا تو ماضی کی تاریخ دوبارہ دہرائی جائے گی جس میں عوام نے نئے غزنوی نئے غوری اور نئے ابدالی کو نجات دہندہ تسلیم کرنا ہے۔علاوہ ازیں ہندواتا کی مہم سے خانہ جنگی بڑھے گی۔امن‘ سکون‘ سلامتی اور ترقی نہیں ہو گی۔ ڈاکٹر امبیدکر نے برملا کہا کہ اگر ماڈرن انڈیا کوئی مذہب ہو سکتا ہے تو وہ اسلام ہو گا۔ آج بدقسمتی سے بھارت کی سیاست اور حکومت ہندوتوا کی ترجمان اور نمائندہ بن کر رہ گئی ہے۔برطانوی راج میں آل انڈیا کا چار بار صدر رہنے والا RSSکا سرپرست تھا۔ہندو مہا سبھا‘ سنگھٹن ‘ شدھی ‘ راشٹریہ سوائم سیوک سنگھRSSاور سینکڑوں دوسری انتہا پسند تنظیمیں بھارت میں باسنیا کے Basniaمسلمانوں کی طرح نسلی تطہیر کے نام پر مسلمانوں کا قتل عام کر رہی ہیں۔ہندوتوا کی رام راج اور اکھنڈ بھارت کی غیر حقیقی اغراض و مقاصد کو بیان کرتے ہوئے (بحوالہ مضمون از نعیمہ احمد مہجور مشمولہ اخبار92) برلن جرمنی میں مقیم پروفیسر روہت لکھتے ہیں۔اکھنڈ بھارت کے تصور میں پاکستان‘افغانستان‘ وسط ایشیائی اسلامی ریاستیں سے انڈونیشیا بشمول بنگلہ دیش میانمار (برما) بھی شامل ہے(ہندواتا کی حماقت یہ ہے کہ اگر مذکورہ علاقوں کو ضم کر کے اکھنڈ بھارت تصور میں پاکستان‘ افغانستان‘ وسط ایشیائی اسلامی ریاستیں سے انڈونیشیا بشمول بنگلہ دیش میانمار (برما) بھی شامل ہے(ہندواتا کی حماقت یہ ہے کہ اگر مذکورہ علاقوں کو ضم کر کے اکھنڈ بھارت جنم لیتا ہے تو وہ اسلامی انڈیا کے سوا کچھ ہو گا) اگر مذکورہ بالا ریاستیں متحد ہو کر ماڈرن بھارت پر حملہ آور ہو جائیں تو ہندو اپنے ہی خطے میں قلیل اقلیت بن کر رہ جائیں گے۔ بھارتی مردم شماری 2011ء کے مطابق مسلمانوں کی تعداد 20کروڑ 80لاکھ ہے جبکہ آج ہندو انتہا پسند لیڈرز کے مطابق مسلمان آبادی 30کروڑ سے زیادہ ہے۔اسی طرح دلت عوام کی تعداد بھی 20کروڑ سے متجاوز ہے۔اسی طرح مذکورہ مردم شماری2011ء کے مطابق سکھ آبادی دو کروڑ 80 لاکھ اور عیسائی آبادی دو اور 3کروڑ کے درمیان ہے۔بھارت کے مشہور دلت لیڈر اور عالمی شہرت کے حامل مدیر دلت کی آواز Dalit voiceوی ٹی راج شیکھر ہندو کی جاتی آبادی کی تقسیم بطور کرتے ہیں کہ برہمن3فیصد ‘ کھشتری1فیصد‘ ولیش1فیصد اور شودر 10فیصد بھارت کی کل آبادی کا تقریباً 15فیصد بنتا ہے جبکہ بھارت کے جملہ مالیاتی وسائل پر برہمن کا قبضہ ہے۔ جو دیوتا کہلانے کے ساتھ ساتھ بھارت کا کارپوریٹ سرکل Corporate circleکہلاتا ہے۔یہی بھارت کی سیاست و حکومت پر قابض ہے جو بے روزگار دلت جنگجو آبادی کو پیسہ پھینک ‘ تماشا دیکھ کی بنیاد پر مسلم کشی کے لئے استعمال کرتا ہے۔یاد رہے کہ عالمی شہرت یافتہ دلت لیڈر اور بھارت کے پہلے وزیر قانون ڈاکٹر امبیدکر کا بیان ہے کہ ہم دلت ہندو نہیں ہندو کلچر میں پیدا ہوئے ہیں۔ ہمیں ہندو مت کہو۔تقریباً یہی حالت زار سکھ آبادی کی ہے۔دلت اور سکھ قوم کا برطانوی راج میں کامیاب مطالبہ تھا کہ ہم بھارت انڈیا میں مسلمانوں کی طرح جداگانہ اقلیت ہیں اور ان دونوں اقوام آل انڈیا مسلم لیگ اور مسلم قیادت علامہ اقبال‘ قائد اعظم کی حمایت اور اعانت سے کمیونل ایوارڈ 1932ء میں جداگانہ تشخص کی بنیاد جداگانہ حق رائے دہی کا ووٹ حاصل کر لیا تھا۔آج بھارت میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے حق رائے دہی بلکہ بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ باہمی اتحاد اور متحدہ کوشش میں مضمر ہے۔آل انڈیا مسلم لیگ کا دوسرا معنی آل انڈیا مینارٹی لیگ بھی ہے اور آج ایم ایلMLکو یقین محکم‘ اتحاد اور تنظیم کے تحت ازسر نو برہمن گردی سے نجات کے لئے گول میز کانفرنسز 1930-32ء اور کمیونل کی روح کو زندہ کرنا ہے۔موجودہ بھارت کے جملہ مسائل کا واحد حل مینارٹی لیگ MLکا قیام ہے۔وگرنہ ہندوتوا کے ہاتھوں ایک ایک کر کے مارے جائیں گے۔