سردار عبدالرب نشتر جب 14 فروری 1958ء کو انتقال کر گئے تو پاکستان کے پہلے متفقہ آئین کے تحت الیکشن ہونے والے تھے۔ یہ آئین پاکستان کی پہلی آئین ساز اسمبلی نے 29 فروری 1956ء کو منظور کیا تھا۔ اس کی اہم ترین بات یہ تھی کہ یہ مشرقی اور مغربی پاکستان کو بلا تخصیص آبادی، رقبہ اور وسائل برابری کا درجہ دیتا تھا۔ دُنیا کے لاتعداد ممالک جہاں مختلف قومیتیں اور نسلیں آباد ہیں، وہاں استحصال کو روکنے کے لئے آبادی کے لحاظ سے بڑے یا چھوٹے صوبوں کو مرکز میں برابر کا درجہ دیا جاتا ہے۔ قائد اعظمؒ کے ساتھی مشہور بنگالی رہنما حسین شہید سہروردی کہا کرتے تھے کہ میں نے بنگالیوں سے برابری (Parity) کا اُصول بڑی مشکل سے منوایا ہے اور یہ اُصول دونوں صوبوں کے رشتے کو مضبوط کرے گا۔ سردار عبدالرب نشتر کے انتقال کے بعد جیسے ہی خان عبدالقیوم خان کو متفقہ طور پر مسلم لیگ کا صدر چنا گیا تو پارٹی میں جان سی پڑ گئی۔ ان کی شہرت خیبرپختونخوا (سابقہ صوبہ سرحد) میں 23 اگست 1947ء سے 23 اپریل 1956ء تک چھ سال بحیثیت وزیر اعلیٰ انتہائی شاندار تھی۔ انہوں نے کانگریس کے زیرِاثر صوبے اور سرحدی گاندھی عبدالغفار خان کی سرخپوش سیاست کو عوامی فلاح وبہبود، خصوصاً تعلیم کے ذریعے جڑ سے اُکھاڑ پھینکا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جوں جوں الیکشن نزدیک آ رہے تھے مسلم لیگ کی جیت یقینی ہوتی جا رہی تھی۔ پاکستان میں ’’رجیم چینج‘‘ (Regime Change) کا پہلا تجربہ 7 اکتوبر کو سکندر مرزا کے مارشل لاء کے ذریعے اسی عوامی جمہوری تبدیلی کو روکنے کے لئے کیا گیا تھا۔ 27 اکتوبر کو جب جسٹس منیر نے اسے عدالتی تحفظ فراہم کیا تو قوت کے اصل مالک کمانڈر ان چیف جنرل محمد ایوب خان اقتدار کی کرسی پر متمکن ہو گئے۔ یہ پاکستان کے انتخابی نظام پر پہلی براہِ راست، واضح اور کھلی دھاندلی تھی۔ براہِ راست ووٹوں سے گھبرائے ہوئے حکمران جو سول اور ملٹری بیوروکریسی کی صورت مسلّط تھے، اب ایک منظم دھاندلی کے منصوبے پر عمل پیرا ہو گئے۔ عوام کو براہِ راست ووٹ کے حق سے محروم کرنے کے لئے 1962ء کا ایسا آئین مرتب کیا گیا جس کے تحت عوام اپنے حلقے سے ایک بی ڈی ممبر منتخب کر کے پھر مزید انتخابی عمل سے لاتعلق ہو جاتے، ایسے بی ڈی ممبران کی کل تعداد اسّی ہزار تھی، وہ جسے چاہیں صدر منتخب کریں اور جسے چاہیں ممبر اسمبلی۔ یہی اسّی ہزار بی ڈی ممبران تھے جنہیں پرغمال بنا کر محترمہ فاطمہ جناحؒ کو الیکشن ہروایا گیا تھا۔ یہ اس ملک کے انتخابی نظام کی دوسری لیکن پہلی منظم (Engineered) دھاندلی تھی۔ اس دھاندلی کو عوام نے تسلیم نہیں کیا اور اس سے عوامی تحریک کی جو چنگاری سُلگی اس نے صرف چار سال کے عرصے میں ایوب خان کے کاغذی آئینی ڈھانچے کا محل مسمار کر کے رکھ دیا اور ملک ایک بار پھر ایک مارشل لائی وقفے میں چلا گیا۔ جنرل یحییٰ خان نے 25 مارچ 1969ء کو اقتدار سنبھالا تو اس نے گذشتہ بائیس سالہ آئینی دفاتر پر خطِ تنسیخ پھیرتے ہوئے اور خود کو ایک جمہوریت پرست ثابت کرنے کے چکر میں، پاپولر جمہوری تصورات کی بنیاد پر پہلے انگریز کے بنائے گئے انتظامی یونٹس یعنی صوبوں کو بحال کر دیا۔ سرحد، پنجاب، سندھ اور بلوچستان کی یہ لکیریں تو انگریز نے اپنی انتظامی آسانی کے لئے کھینچیں تھیں، مگر وفاق دُشمن سیاست دانوں نے انہی صوبائی اقلیتوں کے نام کو نعرہ بنایا اور قوم پرستانہ سیاست کرتے رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان چاروں صوبوں میں اکثریت کے ساتھ مختلف اقلتیں بھی آباد ہیں۔ مثلاً بلوچستان میں بلوچ اکثریت اور پشتون، بروہی اقلیت، صوبہ سرحد میں پشتون اکثریت اور ہندکو اقلیت، پنجاب میں پنجابی اکثریت اور سرائیکی اقلیت جبکہ سندھ کے شہری علاقوں میں آباد مہاجر اب ایک ناقابلِ تردید حقیقت بن چکے ہیں۔ ان تمام اقلیتوں کے برعکس مشرقی پاکستان میں ایک ہی قوم آباد تھی جو زبان، رنگ، نسل، علاقے یہاں تک کہ مذہب کے حوالے سے بھی یکساں ماضی رکھتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ شیخ مجیب نے ان کو استحصال کے نام پر متحد کر لیا۔ ایسی صورتِ حال میں ایک فرد ایک ووٹ کا انتخاب خاصا تباہ کن ہو سکتا تھا لیکن پاکستان کی منہ زور اندھی اسٹیبلشمنٹ اپنے ہی خمار میں تھی۔ سات دسمبر 1970ء کو ہونے والے انتخابات کے بارے خفیہ اداروں نے جو رپورٹیں مرتب کیں، ان کے مطابق ملکی سیاست ایسی اُلجھی ہوئی دکھائی گئی کہ کوئی بھی پارٹی الیکشن میں واضح اکثریت حاصل نہ کر سکے گی۔ یہی وجہ ہے کہ یحییٰ خان نے بے فکر ہو کر صاف شفاف الیکشن کروانے کا فیصلہ کر لیا۔ یہ ملک کے واحد الیکشن ہیں کہ جن میں کسی بھی قسم کی دھاندلی کا ثبوت نہیں ملتا۔ تمام ڈپٹی کمشنروں کو ہدایات دے دی گئی تھیں کہ آپ نے آزادانہ، صاف اور شفاف الیکشن کروانے ہیں۔ الیکشن میں دھاندلی ضلعی انتظامیہ کے بغیر دشوار ہی نہیں بلکہ ایک طرح سے ناممکن ہوتی ہے۔ ملک کے ان ’’واحد صاف اور شفاف‘‘ الیکشنوں میں حیران کن نتائج برآمد ہوئے۔ تین سو تیرہ اراکین کی اسمبلی میں سے شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے 167 سیٹیں حاصل کیں جو سب کی سب مشرقی پاکستان سے تھیں۔ بھٹو کی پیپلز پارٹی نے سندھ اور پنجاب سے 86 سیٹیں جبکہ باقی دو صوبوں میں نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علماء اسلام کا جمہوری غلبہ مسلّط ہو گیا۔ اب تیسری اور مجرمانہ قسم کی دھاندلی کا آغاز ہوا۔ مشرقی پاکستان میں آرمی ایکشن شروع کیا گیا پھر عوامی لیگ کالعدم قرار دے کر ان کی 167 قومی اسمبلی کی نشستوں پر ضمنی انتخابات کرائے گئے۔ اپنی مرضی کے نتائج حاصل کئے گئے اور یوں 7 دسمبر 1971ء کو نورالامین کو وزیر اعظم اور ذوالفقار علی بھٹو کو نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ نامزد کر دیا گیا۔ لیکن اس کے صرف نو دن بعد ہی 16 دسمبر کو سقوطِ مشرقی پاکستان کا سانحہ ہو گیا۔ صاف شفاف الیکشن، نتائج توقع کے برعکس، دوبارہ دھاندلی زدہ الیکشن، عوام کا ماننے سے انکار اور سقوطِ ڈھاکہ۔ یہ ہے تلخ تاریخ۔ 1970ء کے براہِ راست صاف اور شفاف الیکشنوں کے نتائج نے اس ملک کی اسٹیبلشمنٹ کو خوفزدہ کر کے رکھ دیا، یوں لگا جیسے کنٹرول ان کے ہاتھ سے نکل رہا ہے۔ انگریز کی سو سالہ مسلسل محنت سے وہ گھرانے جو 1920ء سے اپنے حلقوں میں مسلسل جیتتے چلے آ رہے تھے، وہ بنگال اور پنجاب کی حد تک مکمل طور پر اسمبلیوں سے آئوٹ ہو گئے۔ مجیب اور بھٹو نے جن کے سروں پر ہاتھ رکھا، انہیں کوئی جانتا تک نہ تھا، مگر وہ الیکشن جیت گئے۔ ان نو وارد انِ سیاست سے معاملہ کرنا بہت مشکل کام تھا۔ اس لئے اسٹیبلشمنٹ نے اپنی بقا کے لئے ایک فیصلہ کیا کہ اب الیکشن کی طنابیں ہمیشہ ہمارے ہاتھ میں ہی ہوں گی۔ الیکشنوں میں دھاندلی کی پلاننگ جہاں بھی ہو اس پر عملدرآمد مقامی سطح پر ہی ہوتا ہے۔ کوئی بھی ادارہ خواہ عدلیہ، فوج یا الیکشن کمیشن کیوں نہ ہو، کسی کے پاس نہ وہ صلاحیت موجود ہے اور نہ ہی انتظامی ڈھانچہ کہ وہ ہر حلقے میں ایک منظم دھاندلی کر سکے۔ ہر کسی کو اس ’’بدمعاشی‘‘ کے لئے سول ایڈمنسٹریشن کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 1977ء کے الیکشنوں میں ذوالفقار علی بھٹو نے بھر پور دھاندلی کے لئے ہر ضلع کے ڈپٹی کمشنر اور ایس پی پولیس کو اپنے ساتھ اس طرح ساتھ ملایا کہ پارٹی کے ٹکٹ بھی ان کی سفارشات کی بنیاد پر بانٹتے گئے۔ 1974ء میں شناختی کارڈ آنے کی وجہ سے دھاندلی ذرا سی مشکل ہو گئی تھی، لیکن شاطر انتظامیہ نے پہلے کچھ سیٹوں پر بلا مقابلہ جیت اور پھر الیکشن کے دن کھلی طاقت کے استعمال سے دھاندلی کا ایک ایسا تماشہ لگا دیا کہ 7 مارچ 1977ء کی شام کو جب قومی اسمبلی کے نتائج سامنے آئے تو لوگوں نے انہیں ماننے سے انکار کر دیا۔ جیسے ہی پیپلز پارٹی کی جیت کا اعلان ہوا تو پاکستان قومی اتحاد نے 11 مارچ 1977ء کے صوبائی اسمبلی کے الیکشنوں کا بائیکاٹ کر دیا۔ یہ بائیکاٹ اس قدر کامیاب ہوا تھا کہ خود پیپلز پارٹی کا ووٹر بھی عوامی ردّعمل کے خوف سے ووٹ دینے نہیں نکلا تھا۔ یہ اسٹیبلشمنٹ کا براہِ راست الیکشنوں میں دھاندلی کا پہلا بھر پور تجربہ تھا جو انتہائی بھونڈا اور ناکام ثابت ہوا۔ (جاری ہے)