یورپ صنعتی دور کی لائی آلودگیوں سے اپنے آپ کو پاک کرنے پر کمر بستہ ہے۔ منصوبہ ہے کہ اگلے تیس سال میں ان سے مکمل جان چھڑالے۔ اس پالیسی کی زد میں آیا توانائی کاشعبہ اس وقت موضوع بحث ہے۔ کوئلہ سے چلنے والے بجلی گھر کب کے بند ہوگئے ہیں۔ دریاوں پر ڈیم کا تصور متروک ہوچکا ہے کہ ایک تو یہ منصوبے طویل المدت سرمایہ کاری مانگتے ہیں دوسرے جنگلات اور آبی حیات کا نقصان ہوتاہے اور کناروں پر انسانی آبادی غذائی عدم تحفظ کا شکار ہوکر نقل مکانی پر مجبور ہوتی ہے۔ ہوا اور سورج کی روشنی کا استعمال محفوظ ہے لیکن عبوری مدت کے لیے کیا کیا جائے، اس سوال کا حل ڈھونڈا جارہاہے۔ یورپین کمیشن نے ایٹمی توانائی تجویز کی ہے تو جرمنی معترض کہ اس کے تابکاری فضلے کے مضر اثرات کو زائل ہونے میں مدتیں لگتی ہیں۔ جرمنی نے توانائی کی پیداوار میں استعمال ہونے والے ایٹمی بجلی گھر تقریباً بند کردیے ہیں۔ روس سے گیس خریدنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ فرانس جہاں ایٹمی توانائی پر انحصار زیادہ ہے ، مزید پلانٹ لگانے کے منصوبے بنا رہا ہے۔ یورپی اتحاد کی علمبردار ان دونوں طاقتوں نے ظاہر ہے ایک عبوری مدت کے لیے نسبتاً کم خطرناک راستہ اپنا یا ہے۔ لیکن یورپ کا سفر بظاہر آسان نہیں ہے۔ ایسے میں جب یورپ چاہتا ہے کہ اپنی دنیا میں مگن ہوجائے، دامن کھینچنے اور دھکا دینے والوں کی کمی نہیں۔ ایک تو برطانیہ ساتھ چھوڑگیا ہے، دوسرے روس نے یوکرائن کی سرحدوں پر ایک لاکھ فوج لاکر بٹھا دی ہے کہ کہیں یہ ملک نیٹو کا ممبر نہ بن جائے اور اس طرح مشرقی یورپ میں امریکہ کے قدم مضبوط نہ ہوجائیں۔ اب مسئلہ روس کا امریکہ کے ساتھ ہے لیکن جان بلب ہے۔یورپی یونین نیٹو پر تنازعے میں یوکرائن کے علاقے کریمیا پر روس نے چھ سال پہلے بھی قبضہ کرلیا تھا۔ امریکہ گیدڑ بھبکیوں سے آگے تک نہ بڑھ سکا البتہ یورپی یونین کی مٹی ضرور پلید ہوگئی۔ روس کہہ رہا ہے کہ وہ جنگ نہیں چاہتا ، محض امریکہ سے گارنٹی چاہ رہا ہے کہ نیٹو کے قدم مشرقی یورپ میں نہیں پڑیں گے لیکن امریکہ یورپ کو باور کرانے میں لگا ہوا ہے کہ روس یوکرائن پر حملہ کرنے والا ہے۔ یورپی یونین سہمی ہوئی کہ کہیں امریکہ ، جسے اس کا وجود روز اول سے ایک آنکھ نہیں بھاتا، روس کے ہاتھوں اس کاکوئی اور نقصان نہ کرادے۔ تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ امریکی صدر کے یورپ کی دلجوئی میں کیے گئے رواں ہفتے کے دورے میں ایک طرف یہ خیال ظاہر کر گئے ہیں کہ روس یوکرائن پرحملہ ضرور کرے گا اور دوسری طرف روس کو شہہ بھی دے گئے کہ اس کی طرف سے کی گئی کسی معمولی در اندازی پر امریکہ کوئی بڑا ردعمل نہیں دکھائے گا ۔ اگرچہ ان کے وزیر خارجہ انٹونی بلنکن ، جو اس ہفتے سر پر منڈلاتے خطرے پر یورپ میں مشاورت میں کافی مصروف رہے نے وضاحت کی کوشش کی کہ امریکہ کسی ناگہانی صورت میں یورپ کو تنہا نہیں چھوڑے گا۔لیکن غالباً معاملہ یہ ہے کہ ایک تو یوکرائن ابھی نیٹو ممبر نہیں بنا دوسرے واشنگٹن یورپی یونین پر واضح کرنا چاہتا ہے کہ آزادی کی ایک قیمت ہے اور اسے یہ قیمت ادا کرنا ہوگی۔ کم وبیش وہی بات جو سابق امریکی صدر ٹرمپ کہہ رہے تھے کہ جمہوری قدروں پر استوار یورپ کو روس کی دستبرد سے بچانے کا واحد راستہ یہ ہے کہ فرانس اور جرمنی دفاعی بجٹ بڑھائیں۔ جمعے کو وزارت خارجہ کی سطح پر جنیوا میں ہونے والی ملاقات میں روسی وفد نے یوکرائن پر حملے کے امکان کو رد کرتے ہوئے بحران کے حل کے لیے امریکہ کے سامنے تین شرائط رکھی ہیں۔ اول، یو کرائن کو نیٹو کی ممبر شپ نہ دی جائے۔ دوئم، اتحادیوں کے ہتھیار روس کی سرحد پر نصب نہ ہوں۔ تین، نیٹو مرکزی اور مشرقی یورپ سے بوریا بستر لپیٹ لے جائے۔ امریکی وفد نے اس حوالے سے تحریری جواب دینے کا وعدہ کرتے ہوئے ایک اور ملاقات کی خواہش ظاہر کی ہے۔ اگرچہ انٹونی بلنکن نے کہا ہے کہ معاملہ سلجھائو کی طرف بڑھا ہے، لیکن ان کے روسی ہم منصب سرگی لاروف ایسا نہیں سمجھتے۔ وجہ وہ شواہد ہیں جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ امریکہ اور اس کا دیرینہ ہمدم، برطانیہ، مشرقی یورپ میں انتشار پھیلا کر روس کو حملے کے لیے اکسانا چاہتے ہیں۔ یعنی، شرارتِ محض کہ مسئلہ کسی طور پر حل نہ ہو، تنازعہ بڑھے، روس جارح بنے اور یورپی یونین کی سبکی ہو۔ نیٹو کی تحلیل اس غیر رسمی سمجھوتے کا حصہ ہے جو یورپی اور روسی قیادت کے درمیان سوویت یونین کے انہدام کے وقت ہوا تھا۔ یورپ نے سرمایہ دارانہ نظام کی دنیا میں سرپرستی نہ کرنے کا عہد کیا تھا تو روس نے سوشلزم کا۔ امریکہ اس سمجھوتے سے باہر تھا۔ یورپ کی نیٹو سے دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اخراجات زیادہ تر امریکہ ہی اٹھاتا ہے۔ کسی جنگ میں حصہ لینا ہو یا افواج بھیجنا، یورپ کا جواب حوصلہ افزا نہیں ہوتا۔ ٹرمپ اس معاملے میں حقیقت پسند تھا کہ اس نے نیٹو کا پتہ ہی صاف کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ اگر دوبارہ جیت جاتا تو نیٹو ا ور امریکہ دونوں سے یورپ کی جان چھوٹ جاتی اور روس کے ساتھ تعاون کا نیا راستہ کھل جاتا۔ لیکن بائیڈن کے اقتدا میں آنے سے معاملات الجھ گئے ہیں کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ جہاں ایشیا میں جمہوری ملک اس کے ساتھ مل کر چین کا گھیرائو کریں وہیں پر جمہوری اقدار کا علمبرادار یورپ روس کے گرد گھیرا تنگ کرنے میں ہراول دستے کا کام کرے۔ یورپ، اپنے طور پر دنیا کو اس کے حال پر چھوڑنے کے لیے تیار ہے۔ جنگ تو کیا کسی سے الجھنے تک کو تیار نہیں۔ یورپ نے فطرت کے ساتھ مطابقت کا فیصلہ کیا ہے تو اس کی راہیں روشن ہیں۔ چین اس سے مثالی تعلقات چاہتا ہے۔ روس کی سیاست اس کے حق میں جارہی ہے اور اس ملک کے ساتھ یہ دیرینہ اور پر امن تعلقات کا حامی ہے کہ دونوں کے پاس ایک دوسرے کو دینے کے لیے بہت کچھ ہے۔ امریکہ یورپ کی طرز سیاست میں سد راہ ہے۔ پہلے اس نے اسے سرد جنگ میں پھنسایا، وہاں سے جان چھڑوائی تو برطانیہ کی آڑ لیکر افغانستان اور مشرق وسطیٰ میں الجھا دیا۔ اب یورپ امریکہ کی ٹیڑھی کھیر کھانے کے لیے بالکل تیا ر نہیں۔ فی الوقت، یورپ کوصرف اور صرف امریکہ سے خطرہ ہے اور اس سے بچنے کا اس کے پاس راستہ نہ تو جنگ ہے اور نہ ہی اس کے ساتھ اتحاد بلکہ صنعتی انقلاب، جو دو عالمی جنگوں اور ماحولیاتی آلودگی پر منتج ہوا، کی باقیات سے جان چھڑانا۔ کوئی جلدی نہیں ہے، پورے تیس سال ہیں اس کے پاس۔ نہ رہے گا بانس، نہ رہے گی بانسری!