زمانہ قدیم سے عرب اور ایران میں پاگل کر دینے والی نفرت پائی جاتی ہے ۔ کئی سنگین مسائل سے دوچار پاکستان نے، عرب و ایران کشمکش کی ایک بھاری قیمت ادا کی ہے۔فرقہ ورانہ تصادم میں جید علما کرام کے علاوہ ہزاروں شہریوں کا قتل ہوا۔دوسری جانب شام اور یمن بھی ایک دوسرے کے خون کے درپے رہے۔انہی نفرتوں سے عراق و ایران جنگ نے جنم لیا۔ پاکستانی معاشرے میں عرب ایران کشمکش سنگین تر ہوئی،تو سابق وزیراعظم عمران خاں نے صلح کی کوششیں کیں ۔تاکہ مسلم امہ اپنے مسائل خود حل کرنے کے قابل ہو سکے ۔کیونکہ پاکستان سے زیادہ اس کا نقصان خود انہی کو پہنچ رہا تھا۔ماضی کی بنا پردونوں جانب تنگ نظری اوراحساس تفاخر تھا ۔ایک دانشمند کا قول ہے : قومیں جب تنگ نظری اور جذباتیت کا شکار ہو جائیں، تو صحرا کے مسافروں کی طرح ویرانوں ہی میں گردش کیا کرتی ہیں۔ اس خلیج ،نفرت،دوری اور بغض و عداوت کا براہ راست فائدہ اسرائیل کو پہنچ رہا تھا ۔کیونکہ احمقوں اور دیوانوں کے لیے کوئی جنت نہیں ہوتی۔ ظہورِ اسلام کے وقت ایران ایک طاقتور ملک گردانا جاتا تھا۔ عسکری حوالے سے بھی اور تہذیب وتمدن کے لحاظ سے بھی۔اسی پر ایرانیوں کو تفاخر تھا۔ جب رسول اللہ ﷺ کو نبوت عطا ہوئی ،تو اس وقت عرب کے اطراف میں دو بڑی طاقتیں موجود تھیں۔ ایک روم دوسری ایران۔ رومی عیسائی تھے، جو دو باتوں میں مسلمانوں سے قریب تھے۔ ایک یہ کہ دونوں اہلِ کتاب تھے، دوسرے دونوں آخرت پر یقین رکھتے تھے، لہٰذا مسلمانوں کی ہمدردیاں انہی کے ساتھ تھیں۔ مسلمانوں کی عیسائی حکومت سے ہمدردی کی ایک اور وجہ یہ بھی تھی کہ اس زمانہ میں مسلمانوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی اور قریشیوں کی مسلمانوں کو واپس لانے کی کوشش کے باوجود حبشہ کے عیسائی بادشاہ نے مسلمانوں کو اپنے ہاں پناہ دی اور قریش کی سفارت بری طرح ناکام ہوئی اور انھیں خالی ہاتھ لوٹنا پڑا تھا۔ حضور ﷺ کو نبوت ملی تو اس وقت روم و ایران میں جنگ شروع تھی اور اس کی خبریں مکہ میں بھی پہنچتی رہتی تھیں۔ جب ایران کی فتح کی کوئی خبر آتی تو مشرکینِ مکہ بغلیں بجاتے اور اس خبر کو اپنے حق میں نیک فال قرار دیتے اور کہتے کہ جس طرح ایران نے روم کا سر کچلا ہے، ایسے ہی ہم بھی کسی وقت مسلمانوں کا سر کچل دیں گے۔ اس جنگ میں ایرانیوں نے رومیوں کو فیصلہ کن شکست دی، جس کے نتیجے میں عرب کے ساتھ ملنے والے علاقوں میں روم کا اقتدار بالکل ختم ہو گیا۔ یہ خبر مشرکین کے لیے بڑی خوش کن اور مسلمانوں کے لیے بہت صدمے کا باعث تھی۔ مشرکین نے انھیں یہ کہہ کر چھیڑنا شروع کردیا کہ جس طرح ایران نے روم کو ختم کر دیا ہے، ایسے ہی ہم بھی تمھیں مٹا ڈالیں گے۔ ایسے حالات میں سورۃ الروم نازل ہوئی۔اگرچہ بظاہر اہلِ روم کی فتح کے کوئی آثار نہیں تھے مگر مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کی آیات پر پورا یقین تھا۔ اسی یقین کی بنیاد پر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مشرکین کے ساتھ شرط بھی باندھ لی تھی۔ اسی بنا پر ایران کو اس عہد کی سپر پاور سے تعبیر کیا جاتا تھا۔اس کے علاوہ عرب کے مشرق میں ایران ہمیشہ سے اس بات کا مدعی تھا کہ فلسفہ و حکمت نے وہاں نشو و نما پائی اور بعد میں یونان پہنچے۔ مگر ظہورِ اسلام سے قبل جہالت کی جو آندھی دنیا میں چل رہی تھی، ایران بھی اس سے محفوظ نہ رہ سکا۔ فارس کا قدیمی علمی سرمایہ سکندر لوٹ کر لے گیا تھا۔ ساسانی عہد میں اس نقصان کی تلافی کی کوشش کی گئی مگر وہ علمی اعتبار سے اتنی غیر اہم تھی کہ تاریخ نے اس کی تفصیل یاد رکھنے کی ضرورت نہیں سمجھی حالانکہ ایران کی سیاسی فتوحات اور ملکی عظمت کی جزئیات تک محفوظ ہیں۔ اسلام سے پہلے ایران کی اخلاقی بنیادیں زمانہ دراز سے متزلزل ہو چکی تھیں۔ فکری اور نظری زوال و انحطاط ایرانیوں کی سوچوں پر غالب تھا۔اس کے علاوہ ایران کے احساس تفاخر اور بھی بہت سی وجوہات ہیں ۔مگر عرب بھی کسی سے کم نہ تھے ۔آپ ﷺ کا عربی ہونا ،قرآن مجید کا عربی زبان میں نازل ہونے سمیت کئی وجوہات کی بنا پر عرب کسی کو قریب نہیں بھٹکنے دیتے۔پھر قبائل میں بھی قریش سب سے اعلیٰ خاندان تھا ۔ اس میں کوئی دو رائے نہیںکہ قوموں میں صحت مندانہ طرزِ احساس ضروری ہے مگر تعصب سے اوپر اٹھنا ہوتاہے۔کوئی فریق طعنہ زنی کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا ۔ طعنے بھی ایسے کہ جن کے پیچھے بغض و عناد کے شعلوں کی لپکتی ہوئی زبانیں چھپائے نہیں چھپتیں۔ دونوں جانب ملّا ہیں ،جبکہ ملّا اشتراکی ہو یا مذہبی ،معافی کا لفظ اس کی لغت میں ہوتا ہی نہیں۔ یہ فیصلہ تو تاریخ ہی کرے گی کہ ان کا یہ انداز درست ہے یا افسوسناک حد تک تباہ کن۔ چین کی ثالثی میں سعودی عرب اور ایران ایک بار پھر گلے مل چکے ہیں ۔جبکہ ماضی میں بھی کئی بار ایسا ہو چکا ۔ کچھ ممالک اور تنظیمیں ابھی تک شاک اور صدمے میں ہیں ۔کیونکہ ان کا گزر بسر دونوں ملکوں کی آپسی نفرت اور لڑائی جھگڑے پر تھا۔لہذا سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور ایرانی سپریم لیڈرآیت اللہ خامنائی کا امتحان ہے کہ وہ کس طرح اپنے اپنے احساس تفاخر کو پش پشت ڈال کر ،رقیبوں ،باغیوں اور مفاد پرستوں سے بچ کر مارچ 2023کے معاہدے کو پایہ تکمیل تک پہنچاتے ہیں ۔ سفارتی تعلقات کی بحالی عالم اسلام میں سازشوں کے ذریعے تفریق ڈالنے والی قوتوں کی حوصلہ شکنی ہے، دونوں ممالک عالم اسلام کے سربرآوردہ ممالک ہیں۔ مسلمانوں کی اکثریت ان دونوں ممالک میں موجود مقامات ِمقدسہ اور دینی شخصیات کے ساتھ قلبی عقیدت رکھتی ہے اور چاہتی ہے کہ وہ آزادانہ طور پر اپنے اپنے عقیدے کے مطابق اپنی عقیدت کا اظہار کرسکے۔ رہی فرقہ ورانہ کشمکش تو معاف کیجیے ، اس میں جیسا المناک طرزِ عمل عربوں نے اختیار کیا، ویسا ہی ایرانیوں نے۔ یاد رکھیں !دانائی تعصبات سے بلند تر ہوجانے کا نام ہے۔ افغانستان اور پاکستان کی طرح دونوں ملکوںکا مْلاّ سخت گیر اور بے لچک ہے۔انھیں بتائیںکہ انتہا پسندی کی عمر مختصر ہوتی ہے۔ حالیہ تبدیلی خوش آئند ہے ۔ مگرپاکستان کو صبر و تحمل کے ساتھ رفو گری کرنی چاہیے ۔