سال یاد ہے نہ مہینہ، مگر یہ طے ہے کہ تین چار عشرے قبل کا قصہ ہے۔ سب رنگ ڈائجسٹ میں پہلی بار آرٹ بک والڈ کے بعض شگفتہ کالموں کے تراجم پڑھے۔منفرد انداز، خاص ذائقہ اور عجب انداز کی خستگی تھی ۔ بہت اچھا لگا۔ آرٹ بک والڈ کا تعارف بھی سب رنگ کے مدیر شکیل عادل زادہ نے اپنے مخصوص فسوں خیز انداز میں کرایا۔ معلوم ہوا کہ موصوف صحافی، مصنف، استاد اور کالم نگار ہیں۔ امریکہ کے ممتاز ترین کالم نگار جن کا سنڈیکیٹ کالم دنیا کے چھ سو سے زیادہ اخبارات میں شائع ہوتا ۔ تب سنڈیکیٹ کا بھی علم نہیں تھا، کہیں سے معلوم ہوا کہ امریکہ اور یورپ کے بعض کالم نگاروں کے کالم اپنے اخبار کے علاوہ بہت سے چھوٹے بڑے مختلف ممالک کے اخبارات وجرائد میں شائع ہوتے ہیں اور اسے ہی سنڈیکیٹ سسٹم کہتے ہیں۔ آرٹ بک والڈ کا کالم بنیادی طور پر نیویارک ٹائمز کے گلوبل ایڈیشن نیویارک ہیرالڈ ٹریبیون میں شائع ہوتا تھا۔ سب رنگ کی مختلف اشاعتوں میں آرٹ بک والڈ کے تراجم شائع ہوتے رہے۔ سلیم انور یہ ترجمہ کرتے تھے، ایسا اچھا اور رواں ترجمہ ، لگے کہ کالم لکھا ہی اردو میں گیا ہے۔کمال یہ ہوا کہ سب رنگ میں چھپے ان کالموں کو اب بک کارنر جہلم نے کتابی صورت میں شائع کر دیا ہے۔ پچھلے دو تین برسوں سے سب رنگ کہانیوں کی کتابی شکل میں اشاعت کی ایک سیریز چل رہی ہے۔ اب تک سب رنگ کہانیوں کی چھ جلدیں شائع ہوئی ہیں۔حسن رضا گوندل نے یہ بڑا کام سرانجام دیا۔ ان کی محنت اور کوشش کے بغیر سب رنگ ڈائجسٹ کا یہ سرمایہ کبھی کتابی صورت میں نہ آتا۔سب رنگ کہانیوں کی سیریز ابھی مزید چلے گا، اس دوران سائیڈ سیریز کے طور پر آرٹ بک والڈ کے کالموں کی کتاب چھپی ہے۔ سب رنگ کا یہ تمام تر مواد بک کارنر ہی سے شائع ہو رہا۔ اس کتاب سے چند منتخب کالموں کے اقتباسات قارئین کے ساتھ شیئر کرتا ہوں۔ ابتدا بک والڈ کے ایک مشہور کالم سے ، جس میں انہوں نے امریکی صدر آئزن ہاور کے ترجمان کی(فرضی )پریس کانفرنس کا نقشہ کھینچا تھا۔ ’’ان دنوں پیرس میں نیٹو کانفرنس جاری ہے۔ پریس کو صدر کی مصروفیات سے آشنائی وآگاہی کے لئے ہوٹل میں صبح، دوپہر اور شب کے اوائل میں بریفنگ کا اہتمام ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ رات گئے ایک سپیشل بریفنگ ان صحافیوں کے لئے ہوتی ہے جو سو نہیں سکتے یا شب بیداری جن کا خاصہ ہے۔ ایسی ہی رات گئے کی ایک بریفنگ میں شریک ہونے کا موقعہ ملا۔ ’’ترجمان جم کی آمد ٹھیک ساڑھے بارہ بجے ہوئی جینٹلمین ، مجھے افسوس ہے کہ کسی قدر تاخیر ہوگئی ۔ جناب صدر آرام کے لئے آج شب گیارہ بج کے چھ منٹ پر بستر پر دراز ہوگئے تھے۔ س: جم !کیا صدر نے سونے سے قبل کسی سے بات کی تھی ؟ ج: انہوں نے سیکرٹری آف سٹیٹ سے بات کی تھی۔ س: انہوں نے سیکرٹری آف سٹیٹ سے کیا بات کی تھی جم ؟ ج: انہوں نے کہا تھا، شب بخیر ۔ س: سیکرٹری آف سٹیٹ نے خوش گوار خوابوں (سوئیٹ ڈریمز)کے بارے میں کچھ نہیں کہا؟ ج: یہ میرے علم میں نہیں ہے۔ میں کچھ بتا نہیں سکتا۔ س: آپ بتا سکتے ہیں کہ صدر اس لمحے کیا خواب دیکھ رہے ہوں گے ؟ ج : نہیں ، صدر نے اپنے خوابوں کے بارے میں مجھے کبھی کوئی بات نہیں بتائی۔ س: تو کیا ہم فرض کر لیں کہ صدر کو خواب نہیں آتے ؟ ج: میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ خواب دیکھتے ہیں یا نہیں، میں تو بس یہ کہہ رہا ہے کہ مجھے اس بارے میں علم نہیں۔ س:صدر صبح کس طرح بیدار ہوں گے؟ الارم بجنے سے یا کوئی دروازے پر دستک دے گا؟ ج: اس بارے میں کچھ طے نہیں ہوا، جیسے ہی کوئی فیصلہ ہوا، میں آپ لوگوں کو بتا دوں گا۔ س : کیا اندازہ ہے کہ صدر صبح سب سے پہلے کسے ملیں گے؟ ج: میرا خیال ہے کہ وہ سیکرٹری آف سٹیٹ سے ملاقات کریں گے؟ س: وہ سیکرٹری آف سٹیٹ سے کیا بات کریں گے؟ ج: صدر کا یہ ارادہ ہے، صبح بخیر ۔ س: سیکرٹری آف سٹیٹ جواباً کیا کہیں گے ؟ ج: صبح بخیر جناب صدر۔ س: بس صرف اتنا ہی ؟ ج: اس وقت تو میں آ پ کو یہی کچھ بتا سکتا ہوں۔ س: صدر جب رات سوئے تھے تو کیسا محسوس کر رہے تھے ؟ ج:وہ دن بھر کی مصروفیت سے کچھ تھک گئے ، مگر پھر بھی تروتازہ اور خوش لگ رہے تھے۔ س: ان کے بستر پر کتنے کمبل ہیں ؟ ج : میں یقین سے نہیں کہہ سکتا۔ شائد دو یا تین کمبل ۔ س: کیا ہم تین کہہ سکتے ہیں ؟ ج: بہتر ہوگا کہ میں پہلے تصدیق کر لوں۔ مجھے یہ تو معلوم ہے کہ تین کمبل مہیا کئے گئے ، مگر ہو سکتا ہے ایک کمبل پیروں کی حرکت سے نیچے گر گیا ہو۔ ‘‘ اس طرح کی فرضی پریس کانفرنس کی تفصیل جب آرٹ بک والڈ کے قلم سے شائع ہوئی تو اس صدارتی ترجمان پر جو گزری ہوگی، اسے سمجھنا مشکل نہیں۔ ویسے سچی بات ہے کہ اسے غور سے دیکھیں تو ہمارے ہاں کی بھی بہت سی ایسی رسمی، بور، تھکی ہوئی پریس بریفنگز یاد آ جاتی ہیں، مکھی پر مکھی مارنے کا بیوروکریٹک طریقہ کار وغیرہ بھی۔ اس کتاب میں آرٹ بک والد کا ایک اور کالم مزے کا لگا۔ بوبی فشر مشہور امریکی شطرنج کے کھلاڑی اور عالمی چیمپین تھے۔ اس زمانے میں جب امریکہ اور روس کی سرد جنگ عروج پر تھی، دونوں ممالک میں ہمارے مقامی محاورے کے مطابق خوب لگتی تھی۔ شطرنج کے بیشتر چیمپین روسی تھی، گیسپا روف وغیرہ۔ ایسے میں ایک امریکی بوبی فشر نے یہ برتری ختم کی اور پہلی بار کوئی ا مریکی شطرنج کا عالمی چیمپین بنا۔ بوبی فشر بڑا مردم بیزار، جھکی اور خبطی سا آدمی تھا، ایک کلاسیکل اینٹی ہیرو۔ چیمپین شپ میں بھی اس کے خراب رویے پر واشنگٹن پوسٹ میں ایک قاری کا تبصرہ چھپا جو خاصا مشہور ہوا کہ بوبی فشر وہ واحد امریکہ ہے جو امریکہ کے ہر فرد کو روسیوں کے لئے تالیاں بجانے پر مجبور کر سکتا ہے۔ بک والڈ نے امریکی صدر نکسن کی بوبی فشر کو چیمپین شپ جیتنے کے بعد کی گئی خیرسگالی (فرضی )کال کی تفصیل کچھ یوں لکھی: ’’ہیلو بوبی، میں صدر نکسن بول رہا ہوں میں تمہاری شاندار فتح پر مبارک باد پیش کرنا چاہتا ہوں۔ ‘‘ بوبی فشر: بات ذرا مختصر کیجئے گا، میں بے حد تھکا ہوا ہوں۔ صدر نکسن: آج امریکہ کے لئے عظیم دن ہے، بوبی ! بوبی فشر: یہ میرے لئے عظیم ترین دن ہے، میں نے ڈیڈھ لاکھ ڈالر کا انعام جیتا ہے۔ صدر نکسن: جانتے ہوبوبی ! جب میں کالج میں پڑھتا تھا تو میں نے شطرنج کی ایک ٹیم تیار کی تھی۔ بوبی فشر:( تمسخر سے) بڑا کارنامہ سرانجام دیا تھا۔ صدر نکسن : پھر اس کے بجائے میں نے فٹ بال کھیلنا شروع کر دیا۔ بوبی فشر: کیا آپ نے مجھے یہ فضولیات سنانے کے لئے فون کیا ہے؟ صدر نکسن: ایک منٹ ٹھیرو بوبی، میں تمہاری واپسی پر وائیٹ ہائوس میں وائٹ ٹائی ڈنر دینا چاہتا ہوں۔ بوبی فشر: مجھے اس میں شریک ہونے کا کیا معاوضہ ملے گا؟ صدر نکسن: معاوضہ ؟ وائیٹ ہائوس میں ڈنر پر آنے والوں کو معاوضہ نہیں دیا جاتا۔ بوبی فشر: پھر میرے لئے اس میں کیا رکھا ہے؟ صدر نکسن: ڈنر میں پوری کابینہ، سپریم کورٹ، کانگریس کے عمائدین کے علاوہ ملک کے دولت مند ری پبلکن اور شطرنج کے کھلاڑی ہوں گے۔ اعلیٰ موسیقی سنائی جائے گی۔ بوبی فشر: اچھا، میں آ جائوں گا،مگر مجھے لینے کے لئے اپنا صدارتی طیارہ بھیجنا ہوگا، خود جہاز پر آ کر میرا استقبال کیجئے گا۔ اس علاوہ لیموزین کار، اعلی درجے کے ہوٹل میں کئی کمروں کا سوئٹ وغیرہ۔ اور ہاں وائٹ ہائوس میں کیمرے نہیں ہوں گے۔ کھانے میں کوئی بات بھی نہیں کرے گا۔ صدر نکسن۔ باقی سب ہوجائے گا۔ یہ البتہ مشکل ہے کہ وائٹ ہائوس کے اتنے بڑے ڈنر میں کوئی بات نہ کرے ۔ بوبی فشر: یہ آپ کا مسئلہ ہے۔ میرے کان میں کسی کی آواز آئی تو پھر اپنے لئے کوئی دوسرا شطرنج چیمپین ڈھونڈ لینا۔ نکسن: ٹھیک ہے بوبی، جیسا تم کہو، آخر یہ پارٹی تمہارے اعزاز میں ہو رہی ہے۔ بوبی فشر: آٹھ بجے پارٹی ہے تو میں نو بجے آئوں گا، میں نہیں چاہتا کہ مجھے وقت گزاری کے لئے سیاستدانوں کے درمیان ٹہل کر گفتگو کرنی پڑے۔ میں اپنی کرسی ساتھ لائوں گا اور ہاں کھانے میں تیز روشنیاں مجھے پسند نہیں ۔ تیز روشنی ہوئی تو میں کھانا شروع نہیں کروں گا۔ نکسن: میں تمہارا مطلب سمجھ گیا بوبی۔ میں پھر کہنا چاہتا ہوں کہ ہم سب کو تم پر کتنا فخر ہے۔ صدر نے فون بند کر دیا۔ صدر نے پھر سی آئی اے کے ڈائریکٹر کو اپنے دفتر میں طلب کیا۔’’ سنو ، میں بوبی فشر کے لئے اپنا صدارتی طیارہ بھیج رہا ہوں۔ مجھ پر ایک نوازش کرو۔ بوبی فشر طیارے میں سوار ہوجائے تو طیارہ اغواکرکے کیوبا پہنچا دیا جائے۔ کیا سمجھے ؟‘‘ (جاری ہے)