محبت کی نظمیں کہنے والے نے بہار کے دنوں میں رخت سفر باندھ لیا۔امجد صاحب کے حوالے سے بہت سی یادیں در دل پر دستک دیتی ہیں۔ ٹی وی پر ان کے مشاعرے سننا ، خواتین اور شعاع ڈائجسٹ میں چھپنے والی ان کی نظموں کو اپنی ڈائری میں نوٹ کرنا۔پھر پی ٹی وی پر ان کے لازوال ڈراموں سے لطف اٹھانا اسی دور کی بات ہے۔ اپنی پیاری دوست کی سالگرہ پر امجد اسلام امجد کی نظموں کی کتاب تحفہ دینے کو خریدی تو رات بھر بیٹھ کر ساری نظمیں اپنی ڈائری پر کاپی کیں۔ یادوں کے اس ہجوم میں ایک یاد وہ ہے جو آج تک دل سے محو نہ ہوسکی۔اور زندگی کے ہر موسم میں لو دیتی رہی۔ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کا انگلش ڈیپارٹمنٹ ،کیٹس، براوننگ ، فاسٹس پڑھتے ہوئے یہ خبر دل کو خوشی سے بھر جاتی ہے کہ نامور شاعر اور ڈرامہ نگار امجد اسلام امجد یونیورسٹی کے آڈیٹوریم میں مہمان بن رہے ہیں اور ہم ان سے ان کی شاعری سن سکیں گے۔امجد اسلام امجد کا انتظار ، یونیورسٹی آڈیٹوریم کا طالبعلموں سے کھچاکھچ اس طرح بھرنا کہ تل دھرنے کو جگہ نہ بچے، طالب علم سیڑھیوں میں بیٹھے ہوئے ہیں جن کو جگہ نہیں ملی وہ کھڑے رہنے کو غنیمت سمجھ رہے ہیں۔ سینکڑوں پر شوق نگاہیں اپنے محبوب شاعر کو دیکھنے کے لیے دروازے پہ لگی تھیں ۔معروف شاعرہ نوشی گیلانی اور اردو ڈیپارٹمنٹ کے دیگر اساتذہ کے ہمراہ امجد اسلام امجد آڈیٹوریم میں داخل ہوئے۔وہ نوشی گیلانی کی خصوصی دعوت پر اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور آئے تھے۔ امجد اسلام نے اپنی نظمیں سنانا شروع کیں: تم خواب میں آنکھیں کھولو اس کا روپ امر۔۔ کہاں جا کے رکنے تھے راستے ،کہاں موڑ تھا اسے بھول جا زندگی کے میلے میں تم سے کیا کہیں جاناں ،اس قدر جھمیلے میں ۔ پھر اپنی لازوال نظم سنانے لگے: اگر کبھی میری یاد آئے تو نرم دلگیر روشنی میں کسی ستارے کو دیکھ لینا۔ نظم کے اس مصرعے پر پہنچے تو جیسے یادداشت سے کچھ محو ہو گیا ہو۔ اگر وہ نخل فلک سے اڑ کر تمہارے قدموں میں آ گرے تو، یہ جان لینا وہ استعارہ تھا میرے دل کا۔۔۔اگر نہ آئے۔ خدا جانے یہ شاعر کی کوئی ادا تھی کہ سچ مچ نظم کا البیلا مصرع یاد داشت سے نکل گیا۔ کچھا کھچ بھرے ہوئے ہال کی گھمبیر خامشی میں ،میں نے نظم کا اگلا مصرعہ اٹھایا : مگر یہ ممکن ہی کس طرح ہے کہ تم کسی پر نگاہ ڈالو تو اس کی دیوار جاں نہ ٹوٹے وہ اپنی ہستی نہ بھول جائے! ہال تالیوں کی گونج سے بھرنے لگا اور شاعر کے چہرے پر تائید اور تعریف کے ملے جلے جذبات کا عکس جھململایا۔ انہوں نے مصرح مکمل کرنے والی طالبہ کو مسکرا کر دیکھا۔ اپنے پسندیدہ شاعر کے ساتھ کنکنشن کا یہ لمحہ ایک مداح طالبہ کے لیے سرشار کر دینے والا تھا۔ امجد صاحب سے آٹو گراف لینے کے لیے جنوبی پنجاب کی یونیورسٹی کے طالب علموں نے ڈائریوں کا ڈھیر لگا دیا۔ ڈائریاں نوشی گیلانی کے پاس جمع ہو رہی تھیں اور مجھے ڈائریوں کے اس ڈھیر میں اپنی ڈائری ہرصورت پہنچانی تھی۔ مجھے امجد اسلام امجد کا آٹو گراف چاہیے تھا ۔امجد صاحب کے دستخط اور ایک شعر سے سجی ہوئی ڈائری آج تک میرے پاس ہے۔ہم ادبی مراکز سے دور رہنے والے طالبعلم تھے۔ اس دور میں فیس بک اور سوشل میڈیا کے وسیلہ سے اپنے شاعروں ادیبوں تک رابطہ نہیں ہوتا تھا۔ اس لیے بری طرح شاعر کے گلیمر کے زیر اثر تھے۔پھر زندگی مجھے صحافت میں لے آئی۔ شعر و ادب کے ساتھ تعلق بنا۔بچوں کے صفحہ کے انچارج کے طور پر میں نے سب سے پہلی نشست چلڈرن کمپلیکس کے چیئرمین جناب امجد اسلام امجد کے ساتھ رکھی۔بظاہر تو یہ اسائنمنٹ بچوں کے ایڈیشن کے لیے تھی، لیکن درحقیقت گفتگو کی یہ نشست میں نے اپنے لیے رکھی ۔ یہ یادگار نشست تھی۔ بہت سی باتیں ہوئیں۔ اس روز میں نے انہیں اسلامیہ یونیورسٹی میں ان کی آمد بطور ایک مداح کے اپنے جذبات کے بارے میں بتایا۔ امجد اسلام امجدکے ساتھ بہت سے یادگار مشاعرے پڑھے ۔ ان کے ساتھ شعری نشستوں میں شرکت کی۔ان سے مل کر وقت ہمیشہ بہت قیمتی ہوجاتا۔ امجد صاحب کو میں نے بہت اعلی ظرف ،شفیق اور وضع دار انسان پایا۔ان سے آخری ملاقات سعود عثمانی کی کتاب مسافر کی تقریب پذیرائی پر ہوئی۔قذافی اسٹیڈیم کی ای لائبریری کے لان میں چائے پیتے ہوئے گفتگو میں سعود عثمانی، ڈاکٹر معین نظامی،ڈاکٹر خورشید رضوی اور سلمی اعوان شریک تھے ۔ انہوں نے جلیبیوں کی طرف ہاتھ بڑھایا تو سلمی اعوان صاحبہ نے کہا امجد فردوس ایتھے ہوندی تے تینوں روکدی شوگر ودھ جائے گی۔ امجد صاحب خوشگوار موڈ میں تھے ۔ انہوں نے ایک جاندار قہقہہ لگایا ۔ ایک سموسہ اور جلیبی پلیٹ میں ڈال لی۔وہ جہاں جاتے تقریب ان کی موجودگی سے بھر جاتی ۔وہ لاہور شہر کا ادبی چہرہ اور پہچان تھے۔آخر وقت تک شعر و ادب سے جڑے رہے تقریبات میں برابر شرکت کرتے رہے ۔امجد اسلام امجد کی وفات کی خبر ادبی برادری میں رنج وغم میں ڈوبی اس حیرت سے سنی گئی کہ گمان بھی نہ تھا کہ وہ شخص بچھڑنے والا ہے۔دنیا سے رخصت ہونے سے صرف چند روز پہلے وہ اللہ کے گھر حاضری دیکر آئے تھے اور اس سفر کو سوشل میڈیا پر تشہیر کی آلائش سے پاک رکھا۔ نہ جانے وہ حضوری کی کون سی کیفیت میں تھے۔ ہمارے محبوب و مقبول شاعر امجد اسلام امجددس فروری2023 کی ایک صبحِ نیند کی حالت میں ان دیکھے جزیرے کے سفر پر نکل گئے۔۔فضا میں نظم کے مصرعے گونجتے ہیں: اگر کبھی میری یاد آئے تو نرم دلگیر روشنی میں کسی ستارے کو دیکھ لینا۔۔