پی ٹی آئی کے نامزد امیدواروں کی طرف سے آئے روز پاکستان مسلم لیگ ن کی حمایت میں الیکشن سے دستبرداری کے نہ ختم ہونے والے سلسلے کے بعد پانچویں دفعہ پی ٹی آئی نے اپنے حمایت یافتہ امیدواران کی لسٹوں کو اپڈیٹ کیا ہے۔الیکٹیبلز اورسیاست کے کنگ میکر سمجھے جانے والے بڑے نام مسلم لیگ ن کی کشتی میں سوار ہوچکے ہیں۔پی ٹی آئی کے باقی مانندہ امیدواروں کی اکثریت شوقیہ فنکاروں اور نئے ناموں کی ہے جن کو حلقے میں کہیں کوئی ویلکم کرنے کوئی تیار نہیں۔ایسی صورت حال میں بعید نہیں کہ الیکشن سے چند روز قبل پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواران کی اکثریت الیکشن سے فرار اختیار کرلے۔ سابق صدر آصف زرداری نے لاہور این اے 127میں بلاول کی کامیابی کوپنجاب میں پیپلز پارٹی کی بقاء و انا کا مسئلہ بنا لیا ہے۔21جنوری کے جلسے کیلئے پیپلز پارٹی کی آدھے سے زیادہ قیادت تین ہفتوں سے لاہور میں موجود تھی جبکہ اندرون سندھ سے ٹرینوں کے زریعے خصوصی قافلے لاہور پہنچے اور پنجاب بھر سے بسیں بھر بھر کے لائے گئے کارکنان کے باوجود بھی متاثر کن پاوور شو کرنے میں ناکام رہی۔اس جلسے کے زریعے پیپلز پارٹی پنجاب میں اپنا بیانیہ بنانا چاہتی تھی لیکن تمام تر وسائل اور میڈیا مینجمنٹ کے باوجود ناکام جلسے نے سارا پلان فیل کردیا۔ بلاول کے مقابلے میں کوئی پرانا کھلاڑی لانا چاہئے تھا تو لیڈرشپ کا کہنا تھا کہ لاہور مسلم لیگ ن کا گڑھ ہے، بلاول کو پہلی دفعہ الیکشن لڑنے والا عطاء تارڑ ہی شکست سے دوچار کرے گا۔یہ واضح اور سٹرونگ پیغام ہو گا کہ نواز شریف کا عام سپاہی بھی پیپلز پارٹی کی مرکزی لیڈرشپ سے زیادہ عوامی مقبولیت و قبولیت رکھتا ہے۔ن لیگ کے دعوے کی تصدیق اب تک کے تمام عوامی سروے میں بھی ہوچکی ہے کہ مذکورہ حلقے سمیت پورے لاہور اور پنجاب میں مسلم لیگ ن کو ووٹ دینے والوں کی تعداد 70فیصد سے زائد جبکہ باقی ووٹ آزاد امیدواروں میں تقسیم ہے۔کراچی کے شہروں علاقوں میں بھی ن لیگ اور ایم کیو ایم کا پلڑا بھاری دکھائی دیتا ہے۔ پیپلز پارٹی سکڑتے سکڑتے رورل سندھ تک محدود ہوتی جارہی ہے۔اس لیے یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ پیپلز پارٹی کے پاس سوائے بھڑکوں اور کھوکھلے نعروں کے کچھ باقی نہیں رہا۔دھمکی امیز لہجوں اور خوابی نعروں کا التجا ئیہ مقصد یہی ہے کہ کم از کم سندھ پاس رہ جائے۔ جہاں بلوچستان کی عوام اس بات پر متحد و متفق ہے کہ ووٹ کا حقدار سی پیک لانے والے نواز شریف ہی ہے۔نواز شریف کی گزشتہ حکومت میں بلوچستان میں تاریخی ترقی ہوئی اور نہ صرف روزگار کے نئے مواقع میسر آئے بلکہ نئے کالجز اور یونیوسٹیز کا قیام عمل میں لایا گیا جس سے بلوچ طلبہ و طالبات کیلئے معیاری تعلیم کا حصول ممکن ہوسکا۔بطور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے بلوچستان،خیبرپختونخوا،کشمیر اور گلگت بلتستان کے ذہین طلبہ و طالبات کیلئے پنجاب کی یونیوسٹیوں میں سپیشل کوٹہ قائم کیا اور ان کو فری ایجوکیشن،ہاسٹل اور کھانے کی سہولیات مہیا کیں۔آرمی، ججزپولیس اور سی ایس پی افسران سمیت سرکاری ملازمین اور کامیاب افراد کی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے شہباز شریف دور میں تعلیمی وظائف کی بدولت اپنی تعلیم مکمل کی اور آج ایک کامیاب زندگی گزار رہے ہیں۔ ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے پی ٹی آ ئی نے سرکاری ہسپتالوں کو لاورث کردیا تھا۔ہم نے کورونا میں دن رات کام کیا اور ڈاکٹرز کی شہادتیں بھی ہوئیں لیکن پی ٹی آئی حکومت کی طرف سے سہولیات فراہم کرنا تو دور ہماری قربانیوں کے عوض کبھی شاباش تک نہیں ملی۔شہباز شریف نے وزیر اعظم بنتے ہیں ڈاکٹرز کیلئے جدید سہولیات کی فراہمی کا سلسلہ شروع کیا اور تاریخ میں پہلی دفعہ شہباز شریف کی وزارت عظمیٰ میں ڈاکٹرز اور طب کے شعبہ سے وابستہ افراد کوسب سے زیادہ حکومتی اعزازات سے نوازا گیا۔ماضی میں سب سے پہلے صحت کارڈکا آغاز مسلم لیگ ن کے دور میں ہوا۔ دیہی ہیلتھ مراکز کو جدید ترین طبی سہولیات کے ساتھ تحصیل ہیڈ کوارٹرز میں تبدیل کرنا مسلم لیگ ن کا ہی کارنامہ ہے۔پنجاب کے ڈسٹرکٹ ہسپتالوں میں لاہور کے برابر جدید طبی سہولیات اور سینئر ڈاکٹرز کی تعیناتی شعبہ صحت کی تاریخ کا اہم ترین موڑ تھا۔جگر کی پیوندکاری کیلئے بھارت اور دیگر ممالک سے علاج کیلئے کروڑوں روپے خرچ کیا جاتا تھا پی کے ایل آئی کی بدولت کروڑوں روپے والا علاج مفت کروانے والے مریض جھولیاں اٹھا اٹھا کر شہباز شریف کو دعائیں دیتے ہیں۔ اساتذہ کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کے دور میں تکریم اساتذہ ڈے منایا جاتا تھا اور پولیس والوں کو حکم ہوتا تھا کہ اساتذہ کو سلوٹ کریں جبکہ پی ٹی آئی دور حکومت میں بنیادی سہولیات کے حصول کیلئے مسلسل سڑکوں پر مار کھانے میں گزر گیا۔سرکاری اساتذہ نے شکوہ کیا کہ آخری دفعہ اساتذہ کی بھرتی شہباز شریف دور میں ہی کی گئی تھی اس کے بعد پی ٹی آئی نے تو سرکاری سکول ختم کرنے کا سلسلہ شروع کردیا تھا۔ شہباز شریف کے دورمیں بننے والا پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ پاکستان کا پہلا اور جدید ترین آئی ٹی ادارہ ہے۔پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بدولت ہزاروں نہیں لاکھوں نوجوان روزگار حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے وہیں پر پنجاب کے تقریباً تمام اداروں کو سینٹرلی ڈیجیٹل کرکے جدید پنجاب کے خواب کو عملی تعبیر دی گئی۔پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کا قیام شہباز شریف کا وہ کارنامہ ہے جس کی بدولت لاانفورسمنٹ ایجنسیز اور پولیس نے کبھی نہ حل ہونے والے ہزاروں نہیں لاکھوں کیسز ناقابل تردید شواہد کے ساتھ حل کیے۔مقام فخر ہے کہ مختلف ممالک سے فورسز کے وفودپنجاب فرانزک سائنس ایجنسی سے تربیت کیلئے آتے ہیں۔میٹرو بس اور اورنج لائین ٹرین کے زریعے انتہائی سستے ٹکٹ اور کم وقت میں منزل مقصود پر پہنچنے والے ’’اک واری فیر شیر‘‘پر ٹھپہ لگانے کیلئے بیتاب ہیں۔