نجیبہ عارف کی آپ بیتی کو میں نے ابھی گزرے سرما کی راتوں میں پڑھا اور بہت دنوں تک اس کی گرفت میں رہی۔ کتاب انتہائی دلچسپ ہے۔اس کی نثر بہت طاقتور ہے۔زندگی کی بہت سی ان کہی حقیقتوں کو اور روح میں سر اٹھاتے سوالوں کو جس سچائی اور قادر الکلامی سے انہوں نے سچ سچ بیان کیا ہے وہ بہت پر اثر ہے۔ اس کتاب کی بنیادی طور پر دو سطحیں ہیں، ایک تو اس کی اوپری سطح ہے، جس میں تحریر کا جمالیاتی اور تخلیقی حسن ہے اور وہ کشش جو ایسی آپ بیتی میں ہوتی جسے لکھنے والے نے زندگی کے کھردرے سچ کو بھی سہولت سے بیان کردیا ہو ۔کتاب کی دوسری سطح نجیبہ عارف کے اس روحانی سفر کا بیان ہے جو درحقیقت کتاب کا بنیادی موضوع ہے۔ نجیبہ عارف کی زندگی میں خود سے خدا تک کا سفر کیسے شروع ہوا، اس راستے میں کون سے کردار ملے کن سوالوں کے جوار بھاٹا زندگی کے مختلف مراحل میں ان کے اندر سر اٹھاتے رہے اور کس طرح سے وہ مختلف کرداروں سے ہوتی ہوئی اپنے مرشد تک پہنچتی ہیں۔جن کرداروں کا اس کتاب میں بیان ہے وہ کردار بھی اپنے اندر ایک روحانی گہرائی رکھتے تھے وہ بھی دراصل اسی راستے کے مسافر تھے۔ آغاز کے باب میں نجیبہ لکھتی ہیں کہ انہیں شروع سے ہی بابوں کو تلاش کرنے کا شوق تھا۔ یہ شوق انہیں ممتاز مفتی کے پاس لے جاتا ہے۔ ممتاز مفتی انہیں اکثر استانی کہہ کر چھیڑتے جس پر وہ زچ ہوتی اور کہتیں کہ ہاں میں استانی ہوں اسی لیے اتنے سوال کرتی ہوں۔ ممتاز مفتی نے انہیں پروفیسر رفیق اختر کے پاس بھی بھیجا جس کا حال بیان کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ پروفیسر صاحب نے ہمیں دیکھتے ہی ہمارا کچا چھٹا بیان کر دیا جس پر میں دنگ رہ گئی۔ ممتاز مفتی کے توسط سے وہ اسلام آباد میں مقیم قاضی سعید تک رسائی حاصل کرتی ہیں۔ قاضی سعید ایک بڑے سرکاری عہدے پر فائز ہیں مگر اتوار کے روز وہ ہومیوپیتھک کلینک کرتے ہیں۔ جہاں وہ خلق خدا کو مفت ادویات دیتے ہیں۔ یہاں پر نجیبہ عارف قاضی سعید کے کلینک پر ہومیوپیتھک ادویات کی پڑیاں بنانے کے کام پر فائز ہو جاتی ہیں۔ اتوار کے اتوار وہ یہ کام کرتی ہیں۔ یہ بہت دلچسپ حال ہے جس کو بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ اس کلینک پر بڑے بڑے لوگ آتے تھے ۔ریٹائرڈ جج ،بیوروکریٹ مگر ان تمام لوگوں کو اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا تھا۔۔قاضی سعید، درانی صاحب کے مرید تھے یہی تعلق نجیبہ عارف کو اپنے مرشد محمد عبید اللہ درانی سے روحانی طور پر جوڑتا ہے۔ والدہ اور والد پر لکھے دونوں باب بے حد دلچسپ ہیں جنہیں پڑھ کر ہمیں اس ماحول میں جھانکنے کا موقع ملتا ہے جس میں نجیبہ عارف نے آنکھ کھولی اور ان کے شعور اور لاشعور کی بنیادی بنت ہوئی۔ والد پر لکھا خاکہ پدرم سلطان بود اپنی جگہ ایک ماسٹر پیس ہے۔ وہ بڑی سچائی سے بتاتی ہیں کہ والد اور والدہ دو مختلف مزاجوں کے انسان تھے۔ والد تو ایک ایسا کردار تھے جس کو انگریزی زبان میں eccentric یعنی عجیب اطوار کا مالک کردار کہہ سکتے ہیں۔وہ اپنے ظاہری اور باطنی دونوں رویوں میں مختلف انداز کے انسان تھے اور یہی باتیںنجیبہ عارف نے بڑی سچائی سے بیان کی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ بہت الگ کردار کے مالک تھے اور ان کی کچھ باتیں اتنی عجیب تھیں کہ جنہیں میں لکھ نہیں سکی۔ وہ روزانہ رات کو تین بجے اٹھ جاتے تھے اور اپنے ہی انداز میں اپنے رب کو پکارا کرتے۔ وہ اپنے والد کے ان عجیب طور طریقوں سے اسوقت بہت نالاں ہوتیں۔ ان کے ڈی این اے کو روحانیت اور تصوف کی جاگ اپنے والد کے طرف سے لگی۔خود کہتی ہیں کہ یہ ڈی این اے میں پہلے سے طے ہوتا ہے کہ انسان کس طرف کا سفر کرے گا لکھتی ہیں: " بچپن ہی سے حقیقت اور تخیل میرے اندر گڈمڈ سے ہوگئے تھے۔مجھے ہر ظاہری حقیقت کے ارد گرد کچھ سائے سے دکھائی دینے لگے۔وقت کے ساتھ ساتھ میں باتوں کو ،نگاہوں کو ،حرکات و سکنات کو جوں کا توں دیکھنے اور قبول کرنے کے لطف سے محروم ہوتی چلی گئی۔ زندگی مجھ پر سوال کی صورت اترتی آرہی تھی۔ زندگی کیا ہے، کیسے جنم لیتی ہے ؟کیسے فنا ہوتی ہے، خوشی کیا ہے، غم کیا ہے، ہار کیا ہے، جیت کیا ہے ،گناہ کیا ہے، ثواب کیا ہے ؟یہ سوال اتنے فلسفیانہ انداز میں براہ راست مجھ پر وار نہیں کرتے تھے کہ میں ایک پسماندہ شہر کے بے مایا گھر میں پلنے والی چھوٹی سی بچی ہی تو تھی۔ ایک تذبذب ایک کشمکش ایک مسلسل بے قراری زندگی کی پرتیں کھول کھول کر دیکھنے کا جنون بند دروازوں کے پیچھے چھانکنے کا شوق، وجود عدم، بود و نبود کا فرق سمجھ لینے کی عجلت، مگر اس دیوانگی کے سوا میرے سامنے کچھ بھی نہیں تھا" وہ لکھتی ہیں کہ میں ایسی شخصیت ڈھونڈنا چاہتی تھی جو بیک وقت قلبی، ذہنی اور روحانی تقاضوں کو سمجھ سکے ۔میں عشق اور عقل کو ہم آمیز کرنا چاہتی تھی۔ میں چاہتی تھی کہ میری سرشاری اور بے اختیاری کو فہم اور ادراک کی تصدیق و توصیف مل جائے۔ یہی تلاش مجھے درانی صاحب تک لے گئی۔ درانی صاحب جن کو میں نے اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا لیکن ان آنکھوں کو دیکھا تھا جنہوں نے انہیں دیکھ رکھا تھا۔ اپنے مرشد کے جو حالات زندگی کتاب میں انہوں نے لکھے ہیں وہ پڑھنے والے کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتے ہیں۔ اس روحانی سفر کے حوالے سے میں نے سوال کیا کون سی منزل میں ہے عشق بلا خیز کا قافلہ سخت جاں؟ سوال سن کر مسکرائیں اور کہا اس سفر میں منزل کہاں بس ہر قدم ایک سفر ہی درپیش رہتا ہے۔ آپ کو اپنے اندر اور باہر کی دنیا میں کبھی تضاد محسوس ہوتا ہے؟ میں نے سوال کیا بہت زیادہ! ایک زنجیر سی محسوس ہوتی ہے۔ کبھی جی چاہتا ہے کہ سب کچھ چھوڑ کے کہیں دور نکل جائیں۔ یہ انتہائی دلچسپ کتاب ہے جس میں آپ بیتی کی کشش ،خاکہ نگاری کا لطف اور علم، روحانیت ،فلسفے اور تصوف کی گہرائی باہم مدغم ہیں نجیبہ عارف بطور لکھاری کے ہمیں بلند مقام پر نظر آتی ہیں۔کتاب کی فضا اتنی اثر انگیز ہے کہ پڑھنے والا خود کسی "راگنی کی کھوج میں" نکل پڑتا ہے۔ ٭٭٭٭٭