پاکستان کے موجودہ حالات اس قدر تکلیف دہ اور قابلِ رحم ہو چکے ہیں کہ کالم لکھتے وقت یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ کس موضوع پر بات کی جائے اور کسے نظر انداز کیا جائے۔ایک طرف عدلیہ اور پارلیمان کی محاذ آرائی اور دوسری جانب زمان پارک جوملکی و غیر ملکی میڈیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے‘توہین ِ عدالت کا مرتکب کون اور حقیقی غدار کون ‘یہ فیصلہ کرنا بھی مشکل نہیں رہا۔آئین بنانے والے آئین سے کھلواڑ کر رہے ہیںمگر کوئی ان سے پوچھنے والا نہیں‘عدلیہ پر دن دیہاڑے شب خون مارا جا رہا ہے مگر کوئی ان پر توہین عدالت کا پرچہ نہیں کاٹ سکتا‘اداروں کو دھمکیاں دینے والے اور اداروں کو یرغمال بنانے والے سرِعام یہ’ خدمت‘کر رہے ہیں مگر مجال ہے جو کسی نے انھیں کان سے پکڑ کر پوچھا ہے کہ جناب!یہ ملک ساڑھے چوبیس کروڑ عوام کا ہے‘اس ملک میں اصل حکومت عوام کی ہونی چاہیے۔کتنی تکلیف دہ بات ہے کہ ایک طرف سپریم کورٹ بے بس نظر آ رہی ہے اور دوسری طرف عوام الناس،چند لاڈلے حکومت میں بیٹھے مکا لہرا کر دھمکیاں دے رہے ہیں کہ ہم جو چاہیں گے وہی ہوگا‘الیکشن یا سلیکشن،سب پر اختیارہمارا ہے۔مکا لہرا کر دھمکیاں دینے والے شاید مشرف کا انجام بھول گئے‘وہ پاکستانی تاریخ کا سب سے طاقت ور باوردی صدر تھا‘وہ موچھوں کو تائو دیتا‘مکا لہرا کر کہتا جو میں کہوں گا وہی ہوگا،زمانے نے اس رعونت پہ کیسی خاک ڈالی،ہم سب جانتے ہیں۔ہمارے سیاست دانوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ خداکے لہجے میں بات کرنے والوں کا انجام بہت برا ہوتا ہے‘طاقت کا مرکز بہرحال عوام ہی ہوتے ہیں۔ گزشتہ روز قومی سلامتی کا ان کیمرہ اجلاس ہوا‘چیف آف آرمی اسٹاف کی باتوں نے دل موہ لیا مگر سوال یہ ہے کہ ہمارا پاکستان کون کہے گا اور کون سمجھے گا۔بدقسمتی سے پاکستان کے لیے نعرہ لگانے والے برسوں سے دیکھ رہے ہیں کہ حکومت میں بیٹھے افراد بھی خود کو محب وطن کہتے ہیں اور اپوزیشن والے بھی۔اداروں کو یرغمال بنانے والے بھی خود کو محبت وطن کہتے ہیں اور آئین توڑنے والے بھی،بلکہ یہاں تو عدلیہ سے غدار ڈکلیئر ہونے والے بھی’’سب سے پہلے پاکستان‘‘کا نعرہ لگاتے ہیں۔ہر دس سال بعد پاکستانی عوام کو ایک نئی کہانی اور ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا جاتا ہے۔آئین بنتا ہے صرف ٹوٹنے کے لیے‘حکومتیں آتی ہیں صرف اپنی کرپشن چھپانے اور کیسز معاف کروانے کے لیے‘اپوزیشن بنتی ہے صرف بلیک میلنگ کے لیے‘اداروں سے محبت کا نعرہ لگانے والے سب سے پہلے خود اداروں کو کمزور کرتے ہیں‘اداروں سے کھلواڑکرتے ہیں۔ہم کس دور سے گزر رہے ہیں‘کیا کبھی ہمارے حالات ٹھیک ہوں گے یا ہماری آنے والے نسلیں بھی اسی حبس زدہ ماحول میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوں گی؟یہ سوال مسلسل دماغ میں ہے،اس کا جواب تلاش نہیں کرپا رہا۔ کیا ’’ہمارا پاکستان‘‘کا نعرہ عمران خان لگائے گا جس نے پہلے نیا پاکستان کا نعرہ لگایا ‘حکومتی بینچوں پر بیٹھے ضمانتی افراد ہمارا پاکستان کا نعرہ لگانا گوارا کریں گے اور’’پاکستان کھپے‘‘کا نعرہ لگانے والوں کو کون سمجھائے کہ ’’ہمارا پاکستان‘‘کا علم بلند کریں۔حکومتوں اور اداروں نے پاکستان کی جو حالت کر دی ہے اور پاکستانی عوام کو جس اذیت سے دوچار کر دیا ہے‘اس کے بعد ہم صرف یہی کہ سکتے ہیں کہ ہمیں نہ پرانا پاکستان چاہیے اور نہ ہی نیا،نہ ہمیں’’ہمارا پاکستان‘‘کی بات کرنی ہے،ہمیں صرف اور صرف’’غریب کا پاکستان‘‘ چاہیے جس میں غریب کی بات ہو‘جس میں مفلوک الحال شخص کی آواز ایوانوں تک پہنچے‘جس میں غریب کو مرنے کے لیے لائن میں نہ لگنا پڑے،آٹا دینے کے بہانے غریب کو جس اذیت سے گزارا گیا‘آٹے کے نام پر جیسے موت بانٹی گئی‘کیا یہ قوم کبھی بھولے گی؟غریب کا پاکستان ہوگا تو کم سے کم یہ احساس تو ہوگا کہ ہم ہیں اور ہمارا ملک ہے اور ہم نے یہاں رہنا ہے۔ اس سے بڑی تکلیف کی بات کیا ہوگی کہ گزشتہ ایک سال میں ستر لاکھ سے زائد پڑھے لکھے نوجوان ملک چھوڑ چکے‘فارن آفسز میں جائیں تو قطاریں لگی ہیں اور یہ قطاریں ان لوگوں کی ہیں جو پرانے اور نئے پاکستان سے مایوس ہو چکے‘یہ لوگ جانتے ہیں کہ ہر دو چار سال بعد اسے ایک نیا ’’لالی پاپ‘‘دیا جاتا ہے تاکہ ہم پرانے زخموں کو بھول جائیں‘ہر دن نیا زخم لگتا ہے‘ہر دن نئی کہانی سنا کر ہمیں بلیک میل کیا جاتا ہے‘کیا یہ ملک نعروں کے لیے ہی بنا تھا؟آپ ظلم کی انتہا دیکھیں کہ عدلیہ گزشتہ ایک ماہ سے شور ڈال رہی ہے کہ آئین سے کھلواڑ نہ کرو اور نوے دن میں الیکشن کروائو مگر حد ہے جو حکومتی بینچوں پر بیٹھے ضمانتی افراد کے کانوں پہ جوں تک بھی رینگی ہو،کون ہے جو بلیک میلر کو سپورٹ کر رہا ہے‘کون ہے جو ان کے کاندھے ہر تھپکی دے کر کہتا ہے کہ آپ انجوائے کریں‘ہم سنبھال لیں گے‘ عدالتی مارشل لاء کی باتیں کرنے والے مولانافضل الرحمن سے کوئی پوچھنے والا ہے کہ آپ نے گزشتہ تین دہائیوں میں کون سے ایسے کام کیے کہ پاکستانی عوام کو آپ پر فخر ہونا چاہیے؟ مولانا کس منہ سے کہتے ہیں کہ ملک میں آئین اور قانون کی پاسداری ہونی چاہیے۔عدالتوں اور آئین کو یرغمال بنانے والے ملک میں دندناتے پھر رہے ہیں مگر کوئی ان سے پوچھنے والا نہیں،دنیا کے کس ملک میں ایسا ہوتا ہے کہ نوے فیصد کابینہ کرپشن کیسز میں ضمانتوں پر ہے اور پھر وہی لوگ پارلیمان میں بیٹھ کر عدالتی قوانین میں ردوبدل کر رہے ہیں‘کیا کبھی یہ دیکھا یا سنا کہ عدالتوں سے ڈکلیئر مجرم عدالتی قوانین میں من مرضی کی تبدیلیاں کر رہے ہیں،کہاں گئے ادارے اور کہاں گئے ملک پاکستان سے محبت کا دعای کرنے والے فنکار اور اداکار؟کہاں گئے آئین کے رکھوالے اور کہاں گئے غداری اور حب الوطنی کے تمغے بانٹنے والے‘کسی کو کچھ نظر نہیں آ رہا کہ آئین اور قانون کے ساتھ پارلیمان میں کیا کھلواڑ کیا جا رہاہے۔ہم ضرور ’’ہماراپاکستان‘‘کا نعرہ لگائیں گے مگر پہلے یہ بتایا جائے کہ ہمارا پاکستان میں غریب کے ساتھ کیا ہوگا؟