یہ اپنی حد سے نکل کر حدود ڈھونڈتی ہے کہ خاک بار دگر بھی قیود ڈھونڈتی ہے ابھی ستارا سا چمکا تھا میری پلکوں پر کوئی تو شے ہے جو بودو نبود ڈھونڈتی ہے اس کائنات کو چلانے والے نے سارا بندوبست بھی کر رکھا ہے کہ مظاہر فطرت ہماری آنکھ کو ٹکنے نہیں دیتے ۔یہ بو قلمونی اور رنگا رنگی اور ہما ہمی ہمہ وقت ہمارے سامنے ہے۔اصل میں مجھے آج ایک نہایت اہم موضوع پر بات کرنی ہے کہ ربیع الاول کی مناسبت سے ہونے والے لیکچرز کے سلسلہ میں سید ڈاکٹر قمر علی زیدی صاحب کو ایک موضوع دیا گیا تھا کہ سیرت النبیؐ کی روشنی میں دور جدید میں مسلمانوں کا نشاۃ ثانیہ کیسے ممکن ہے یہ ایک ایمان افروز لیکچر تھا کہ سید صاحب گو صاحبان علم سے بھی گفتگو کرنا تھی۔ ذھن میں رہے کہ قمر علی زیدی صاحب پروفیسر تو ہیں ہی، اور کئی اور مناصب پر بھی جلوہ افروز رہے ا۔نہوں نے گفتگو کے آغاز ہی میں انجام رکھ دیا کہ جو مطلوب تھا بڑے سلیقے سے حضور ﷺکی سیرت پاک کو موضوع سے جوڑا کہ اسی مرکز کے ساتھ ہع مسلمان کی وابستگی ضروری ہے جو تمام انسانیت کا محور ہیںَ اللہ نے جبرائیل علیہ السلام کی وساطت سے آپؐ پر تمام عالم کی ہدایت اتاری اس دل کے ساتھ ہماری وابستگی کیسے نہ ہو کہ حضورؐ ہمارے پیش نظر ہیں۔ سید ڈاکٹر قمر علی زیدی نیسامعین و حاضرین کو وقفے وقفے کے ساتھ اتنی مرتبہ کلمہ پڑھایا کہ مجھے عبداللہ درخواستیؒ یاد آ گئے کہ جو اپنی تقریر میں بار بار فرمایا کرتے تھے سب کہہ دو سبحان اللہ۔سید صاحب پہلی گواہی ہی قرآن سے لائے کہ دلیل برحق ہے اور ایک سطر میں کیا کچھ سما گیا ہے۔ لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنہ سادہ سا ترجمہ تو یہی ہے کہ بے شک تمہارے لئے رسول اللہ ؐ کی سیرت پاک کی پیروی بہتر ہے،ہاں ساتھ یہ بھی کہا گیا جو اللہ اور پچھلے دن کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت یاد کرتا ہو آپ اس کے ساتھ وہ آیت بھی ذھن میں رکھیں کہ ان سے کہہ دیجیے کہ اگر تم اللہ سے محبت کرنا چاہتے ہو تو میری یعنی رسول اکرمؐ کی پیروی کرو ،اللہ آپ سے محبت کرے گا کیا زبردست بات ہے کہ اللہ خود عاشق رسول ؐ سے محبت کرنے لگے گا۔ بس اس نکتہ کو سمجھنے کی ضرورت ہے تو آپ کو بھی سب کچھ شرح صدر ہو جائے گا کہ اقبال نے کیوں کہا تھا کہ : لوح بھی توؐ قلم بھی توؐ تیرا وجود الکتاب گنبد آبگینہ رنگ تیرے ؐمحیط میں حباب آپ کو یہ شعر بھی اس کا ہی مترادف لگے گا کہ’ کی محمدؐ سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں۔ یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں ‘مقصد یہ کہ جو اللہ کے محبوب کے ساتھ وابستہ ہو گیا اللہ اس کا ہو گیا تو لوح و قلم کیا چیز ہیں مقصد تو اتباع رسولؐ ہے اور یہ دراصل اللہ کی اطاعت ہے اور یہی چیز ہر نبی کے ہاں تھی اور یہی دین ہے جو چلا آ رہا تھا اور آپؐ آخری نبی ٹھہرے اور اسلام آخری پیغام اور مسلمان آخری امت۔ بات تو ساری یقین محکم اور عزم مصمم کی ہے۔ سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتباع کیسے کی جائے۔ اتباع میں اپنی مرضی نہیں چلے گی کہ جیسا آپ کا نفس کہتا ہے، اپنے انداز و اطوار سے اطاعت کرنا نہیں ،یہ نفس پرستی ہے۔ ہمیں صحابہ کو دیکھنا پڑے گا ،ہمیں بلالؓ کو دیکھنا پڑے گا، ہمیں خلفائے راشدین ؓکی طرف جانا پڑے گا۔ وہ بادیہ نشین جو حضورؐ کی صحبت سے فیض یاب ہوئے تو پھر قیصر و کسریٰ کے خزانے ان کے پائوں میں ڈھیر ہو گئے۔ پھر اقبال نے ہی نبیﷺ کے ان غلاموں کی پیش رفت کا نقشہ کھینچا۔ دشت تو دشت ہیں دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے۔ بحر ظلمات میں دوڑا دیے گھڑے ہم نے۔ نشاۃ ثانیہ کے حصول کا تقاضا ہے کہ اپنے ماضی سے ایمان کی حرارت لی جائے اور نبی مکرم ﷺ کی سیرت پاک کے ساتھ خود کو جوڑا جائے، جہاں سے صحابہ نے فیض پایا تھا پہلے آپس میں یکجہتی پیدا کی جائے۔ سید صاحب نے علماء کو مخاطب کیا کہ خدا کے لئے اب بس کر یں کہ میرے حضرت اور تیرے حضرت ایک دوسرے کو برداشت کریں کہ یہ فروعی مسائل کچھ نہیں۔ اصل کی طرف آئیں، یعنی دین کے مشترکات کی طرف جن میں کسی کو اختلاف نہیں۔ ایک دوسرے کی طاقت بنیں وگرنہ دشمن کا تو حربہ ہی یہ ہے کہ لڑوا کر مارو۔اقبال نے اسی رویے کا تو ماتم کیا ہے کہ مسلمان ہر سطح پر تفرقہ پرستی کا شکار ہیں ایک قوت نہیں بن رہے اور مار کھا رہے ہیں: میرے سپاہ ناسزا لشکریاں شکستہ صف آہ وہ تیر نیم کش جس کا نہ ہو کوئی ہدف پھر جب ہدف نہ ہو تو وہ تیر اپنے ہی خلاف چلتا ہے۔بات پھر اسی کلمہ طیبہ پر آئی کہ اس کلمہ پر ہی اکٹھے ہو جائیں۔ کلمہ دلیل و برہان ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدؐ اللہ کے رسول ہیں ۔زمان و مکاں کے جو بھی تقاضے ہیں وہ اپنی جگہ ہے ہم خارجی ماحول سے بھی متاثر ہوتے ہیں مگر ہمیں اپنے وجود پر غور کرنا ہو ۔انسان فطرت کے ہاتھ پر کھلونا ہے زندہ تو رہنا ہے انہوں نے فانی کا شعر پڑھا: ہر نفس عمر گزشتہ کی ہے میت فانی زندگی نام ہے مر مر کے جیے جانے کا منصب اور مقصد کو ہم خود طے نہیں کریں گے بلکہ یہ اللہ طے کرتا ہے اور اس لئے رول ماڈل حضور ﷺ ذات ہے۔آخرت میں بھی حساب کتاب کا دارومدار توحید خالص پر ہے ۔ اب تو گبھرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے آپ تین سو ساٹھ زاویوں سے بھی سوچیں گے تو آپ سیرت رسولؐ سے باہر نہیں نکل سکتے۔آپ کو وہیں ریاست مدینہ کے خدو خال ملیں گے۔ ہمیں ماورائے معاملات کے لئے اللہ کے رسول کے قلب اطہر کی طرف رجوع کرنا پڑے گا وہی قلب مطہر و جو وحی الٰہی سے متصف ہے۔ اجازت دیجیے: یہ پیارا نامﷺ لہو میں اگر نہیں ہے رواں یہ جسم کچھ بھی نہیں ہے یہ جان کچھ بھی نہیں