اس بات سے تو اختلاف ممکن نہیں ہے کہ عوامی حمایت اور آراء پر مبنی جمہوری نظم حکمرانی ایک موزوں ترین اورپرامن انتقال اقتدار کے ایک قابل عمل نظام کے طور پر قبولیت عامہ حاصل کر چکا ہے۔ اس کے استقرارسے شعور عامہ کی افزودگی ENRICHMENT) ( اور سیاسی ،معاشی اور سماجی مساوات کی عملی تعبیر ممکن ہو سکی ہے۔ پھر یہ کہ اس نظام کے کامیاب تسلسل نے قانون کی حکمرانی اور حکمرانوں کے احتساب کی روایات کو بھی بڑی حد تک مستحکم کیا ہے ۔ مختلف سماجی حالات میں اس نظم حکمرانی کے مختلف نتائج سامنے آئے ہیں ۔اپنے سماجی حالات کے زیر اثر ہی جمہوری نظم حکمرانی میں تبدیلی ، ترقی اور بہتری کا سفر بھی جاری رہتاہے۔ اس تناظر میں پاکستان کی چھہتر سالہ سیاسی تاریخ میں جمہوری نظم حکمرانی کے تجربات ( جب بھی اور جتنا بھی انہیں موقع ملا ) کسی بھی اعتبار سے حوصلہ افزا نہیں رہے ہیں ۔ سیاسی نظام میں ترقی اور بہتری ہونے کے بجائے تنزلی اور ابتری کی طرف سفر تیز تر رہا ہے۔جس کے نتائج اور اثرات نے آج پورے پاکستانی سماج کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ اس صورتحال کی بیشتر ذمہ داری ، بلا شبہ، ریاستی اداروں ( بیوروکریسی ،حساس ادروں اور عدلیہ ) کی رہی ہے ،جن کی مداخلت ، دبائو اور فیصلوں کے باعث جمہوری سیاسی نظام کو پنپنے کے مواقع کم کم مل سکے تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے ( تلخ اور تکلیف دہ ) کہ سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت نے ملک میں جمہوری سیاسی اداروں کے استحکام کے لئے اپنا قرار واقعی کردار( DUE ROLE ) ادا کرنے میں بالعموم لا پرواہی اختیار کی ہے۔پاکستان کے مخصوص سماجی اور معاشی پس منظر کی موجودگی میں یہ جمہوری سیاسی نظام اپنی افادیت اور اثرات کے اعتبار سے سماج کے طاقتور طبقات کے ہاتھوں یرغمال ہو چکا ہے۔ ابراہام لنکن کی بیان کردہ جمہوری سیاسی نظام کی تعریف ’’عوام کی حکومت ، عوام کے ذریعہ اور عوام کے لئے ‘‘ کے برخلاف یہ پاکستان میں خواص کی حکومت ، خواص کے ذریعہ،خواص کے لئے ،کی عملی صورت رہی ہے۔پاکستان کے جمہوری نظام میں عوام کی شمولیت محض انتخابات کے موقع پر ووٹ ڈالنے کی حد تک ہی رہتی ہے۔اس پر مستزاد اس عوامی شمولیت کی شماریات پر بھی ہمیشہ سوالیہ نشانات لگتے رہے ہیں۔حالیہ انتخابات جواس سال آٹھ فروری کو ہوئے اس ضمن میں سب سے زیادہ متنازع بنادئیے گئے ہیں۔اپنے انعقاد سے لے کر نتائج کے پیش کئے جانے تک یہ الیکشن کسی بھی مرحلے پر اپنی شفافیت قائم رکھنے میں بری طرح ناکام رہا ہے۔ یوں تو پاکستان میں ہونے والے تمام ہی انتخابات میں الیکشن کمیشن کی کارکردگی تنقید کی زد میں رہی ہے مگر جس طرح اس بار اس ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچا ، یا ، پہنچایا گیا ہے وہ انتہائی باعث تشویش ہے۔نتائج پیش کئے جانے میں غیر ضروری تاخیر سے جن شبہات نے جنم لیا تھا انہیں فارم 45 اور فارم 47 کے قضیہ نے حقیقت بنادیا۔ بالخصوص مسلم لیگ نواز کے امیدواروں کے حاصل کردہ ووٹ جس بھونڈے انداز میں تبدیل کئے گئے اس کی کوئی بھی توجیہہ ممکن نہیں۔نتائج کے اس طرح تبدیل کئے جانے سے الیکشن کمیشن کی رہی سہی ساکھ بھی جاتی رہی۔پلڈاٹ نے اس الیکشن سے متعلق جو رپورٹ جاری کی ہے اس کے مطابق پولنگ کے دن موبائل فون اور انٹر سروسز کی معطلی نے صرف الیکشن منجمنٹ سسٹم سے سمجھوتا کیا،نتائج کے اعلان میں طے شدہ وقت سے زیادہ تاخیر نے انتخابات کی ساکھ پر سنگین سوالات کو جنم دیا ،انتخابات میں سب سے کم منصفانہ سکور ریکارڈ کیا گیا جو پچھلے انتخابی ادوار کے مقابلے میں شفافیت کے سکور میں کمی کی نشاندہی کرتا ہے اور ادارے کی ساکھ کو بری طرح کرنے کا سبب بنا ۔ اداروں کی ساکھ کے اس طرح متاثر ہونے سے ریاست اور عوام کے درمیان اعتماد اور اعتبار کے رشتے کمزور ہوجاتے ہیں۔کیا یہ بات اس ریاست کے فیصلہ ساز ( سیاسی اور غیر سیاسی ) سمجھنے کے لئے تیار ہیں ِ؟ اداروں کی کارکردگی سے ہی ریاست کا نہ صرف داخلی نظم مضبوط ہوتا ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی اس کے تشخص کی درجہ بندی کی جاتی ہے ۔ایک عالمی جائزے کی رپورٹ کے مطابق ڈیموکریسی انڈیکس 2023 میں پاکستان گزشتہ سال کے مقابلے میں گیارہ درجہ تنزلی کے بعد 150ممالک کی فہرست میں 118 ویں نمبر پر آگیا ہے۔گزشتہ سال اس انڈیکس میں پاکستان کا اسکور 4.13 تھا جو اس سال کم ہوکر 3.25 ہوگیا ہے۔ اداروں کے اس انحطاط کو جمہوری سیاست کے زوال کا اشارہ سمجھا جانا چاہیئے۔ جمہوری سیاسی نظام کی ابتدا الیکشن کے انعقاد سے ہوتی ہے ۔جس کا بنیادی مقصد عوام کی رائے کا حصول اور اس کے نتائج کے مطابق حکومت کی تشکیل کرنا ہوتا ہے۔ اگر اس عمل کو ہی عدم شفافیت اور عوامی رائے میں نقب لگاتے ہوئے داغدار کردیا جائے تو پھر پورا جمہوری سیاسی نظام ہی غیر معتبر ہو کر اپنی ڈگر سے ہٹ جاتا ہے اور پھر یہ ’’ عوام کی حکومت ، عوام کے ذریعہ اور عوام کے لئے ‘‘ کی معروف وظائفی صفت سے محروم ہو کر سماج کے مقتدر طبقات کے تابع ہو کر رہ جاتا ہے۔کوئی بھی حکومتی نظام عوامی حمایت اور اس کی پشت پناہی کے بغیر نہ تو مستحکم رہ سکتا ہے اور نہ ہی ریاست اور اس کے عوام کے لئے ثمر بار ہو سکتاہے۔یہی وجہ ہے کہ انتخابات کے تسلسل اورجمہوری سیاسی نظام کی تکرار کے باوجود نہ تو سیاسی نظام اداروں کی سطح پر استحکام حاصل کر سکا ہے اور نہ ہی یہ عوام کی امنگوں کا ترجمان بن کر ان کے مفادات کا نگہبان بن سکا ہے۔1970 سے اب تک (8 فروری 2024 ) 12بار انتخابات ہو چکے ہیں اس کے باوجود جمہوری سیاسی نظام کمزور اور ناتواں ہی ہے۔ہر بار سیاستدان الیکشن نتائج پر عدم اطمینان اور عدم اعتماد کا اظہار کرتے رہے ہیں ۔اپنے رویوں اور کارکردگی سے سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت جمہوری اقدار سے اپنے اخلاص کو ثابت کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ گزشتہ سولہ سال سے ( 2008- 2024 ) سیاسی حکومتوں کے تسلسل کے باوجود عالمی سطح پر پاکستان کے سیاسی نظام کوآمرانہ تسلیم کیا گیا ہے ۔’’ دی اکانومسٹ‘‘ کے مطابق ایسے ممالک جہاں صاف و شفاف الیکشن نہیں ہوتے،شخصی آزادیاں محدود ہوتی ہیں ،میڈیا پر سرکاری دبائو ہوتا ہے یا وہ اشرافیہ کے زیر اثر ہوتا ہے تو وہ ممالک آمرانہ درجہ میں شمار کئے گئے ہیں۔ پاکستان میں جمہوری سیاسی نظام کے بہتر مستقبل کے لئے سیاسی اور انتخابی نظام میں بنیادی تبدیلیاں اب ناگزیر ہو چکی ہیں ۔ کیا اس نظام کے حصہ دار (STAKEHOLDER) اس کے لئے تیار ہیں۔؟