اسی طرح 1984میںسکھوں کے مقدس مقام گولڈن ٹمپل پر فوج کشی کے بعد گڑھوال میں تقریر کرتے ہوئے اندرا گاندھی نے واضح الفاظ میں کہا کہ ہندو دھر م حملے کی زد میں ہے۔ اس نے ہندو سنسکرتی کو مسلمانوں اور سکھوں کے حملوں سے بچانے کی پر زور اپیل کی۔ 1980میں اسکی اقتدار میں واپسی کے چند ماہ بعد ہی مراد آباد میں عید کے د ن فسادات پھوٹ پڑے، جس میں سو سے زائد مسلمانوں کو موت کی نیند سلایا گیا۔ عین نماز کے وقت عید گاہ میں سؤر داخل کئے گئے تھے اور مسلمان اس کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ اس کے بعد تو فرقہ وارانہ فسادات کی ایک لڑی سی لگ گئی۔ بہار شریف، میرٹھ، گجرات کا بروڈہ شہر، ممبئی سے متصل بھیونڈی مسلمانوں کے خون سے رنگین ہوگئے اور ان سبھی جگہوں پر کانگریسی حکومتیں تھیں۔1983میں آسام کے نیلی کے مقام پر دو ہزار سے زائد مسلمان بنگالیوں کا قتل عام کیا گیا۔اس قتل عام کیلئے شاید ہی کسی کو سزا ہوئی ہو۔ اندرا کو معلوم تھا کہ 1977کے انتخابات میں مسلمانوں کی وجہ سے ان کو انتخابات میں ہار کا سامنا کرنا پڑا۔ کیا وہ ان سے انتقام لے رہی تھی؟ قربان علی کے مطابق 1982اور 1984کے درمیان اندراگاندھی تین بار آر ایس ایس کے لیڈران سے ملی۔ اسی دوران اس نے آر ایس ایس کی ایک اور شاخ ویشو ہندو پریشد کی رام مندر کی مہم کی حمایت کی۔ صحافی نیرجا چودھری کا حوالہ دیکر قربان علی کہتے ہیں کہ 1986 میں ویشوہندو پریشد کے لیڈر اشوک سنگھل نے ان کو بتایا کہ اندرا نے انکو یقین دہائی کرائی تھی کہ مناسب موقع پر وہ رام مندر کو انتخابی موضوع بنائے گی۔ جنوری 1986کو وزیر اعظم راجیو گاندھی کے دور میں جب بابری مسجد کا تالہ کھول کر وہاں ہندوئوں کو پوجا کرنے کی اجازت دی گئی، تو آر ایس ایس کے سربراہ مرلی دھر دیوراس نے راجیو گاندھی کو ـ ایک خط میں کے دلوں کا بادشاہ‘‘ کے خطاب سے نوازا۔ یہ لقب اب نریندر مودی کو دیا گیا ہے۔ 1983میں جب رام مندر مہم کا آغاز کیا گیا تھا ، تو اس میٹنگ میں کانگریسی لیڈر داو دیال کھنہ اور گلزاری لال نندہ نے بھی شرکت کی تھی۔ راجیو گاندھی کی حکومت میں بھی ان کے مشیر ارون نہرو کا خیال تھا کہ بابری مسجد کا تالہ کھول کر وہ ہندو ووٹروں کو لبھانے میں کامیاب ہونگے۔ اس سے قبل مسلمانوں کی منہ بھرائی کیلئے تین طلاق پر سپریم کورٹ کے فیصلہ کے خلاف پارلیمنٹ نے قانون سازی کی تھی۔ ایک متوازن عمل کے بطور اب ہندوئوں کو خو ش کرنے کیلئے کسی قدم کی ضرورت تھی، تو اس کیلئے بابری مسجد کو پوجا کیلئے کھولا گیا۔ اسی طرح سرکاری ٹی وی دوردرشن سے رامائن پر مبنی سیریل شروع کیا گیا۔ جس نے رام مندر تحریک کو جلا بخشی۔ اس وقت کے وزیر اطلاعات و نشریات ایچ کے ایل بھگت نے اس کی بھر پور مخالفت کی تھی اور کہا تھا کہ اس سے فرقہ واریت کا زہر پھوٹ پڑے گا او رایک پنڈورا بکس کھل جائیگا۔ اسی طرح 1989میں رام مندر کا شیلا نیاس یعنی بنیاد آر ایس ایس کی مرضی سے خود راجیو گاندھی کے ہاتھوں رکھی گئی۔ اس تقریب کے موقع پر راجیو گاندھی نے کہا کہ اگر وہ واپس اقتدار میں آتے ہیں، تو رام راجیہ کا اعلان کیا جائیگا۔مگر کانگریس 414 سے 196 سیٹوں تک سمٹ گئی۔ 1990 میں جب کانگریس کی حمایت یافتہ وزیر اعظم چندر شیکھر کی حکومت نے بابری مسجد قضیہ کا حل ڈھونڈنے کیلئے سنجیدگی کے ساتھ کوششیں کی، تو آر ایس ایس کے لیڈران نے راجیو گاندھی سے پھر ملاقا ت کی اور حکومت سے حمایت واپس لینے پر زور دیا۔ ان کو بتایا گیا کہ اگر یہ قضیہ حل ہوجاتا ہے، تو چندر شیکھر تو ہیرو بن جائینگے۔ آر ایس ایس کا واضح پلان تھا کہ رام مندر تحریک کا سیاسی استعمال کرکے بی جے پی کے لئے سیاسی زمین ہموار کی جائے۔ اگر یہ قضیہ حل ہوجاتا ، تو آر ایس ایس کا اصل مقصد فوت ہوجاتا۔ اس دوران اب آر ایس ایس نے کانگریس کی حمایت سے ہاتھ کھینچ کر اپنے سیاسی بازو بی جے پی کو اقتدار میں لانے اور اس کوسیاسی طور پر مضبوط کرنے کا فیصلہ کردیاتھا۔ ان انتخابات میں بی جے پی نے دو سیٹوں سے چھلانگ لگا کر 85سیٹیں حاصل کی تھیں۔ کانگریس کے علاوہ سوشلسٹوں نے بھی آر ایس ایس کی سیاسی آبیاری کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ جب کانگریس اقتدار میں ہوتی تھی، تو بطوراپوزیشن سوشلسٹ پارٹیاں ہی اسکو ٹکر دیتی تھی۔ اتر پردیش اور ہریانہ میں چودھری چرن سنگھ اور دیوی لال کی لوک دل ہو یا جنتا پارٹی یا فارورڈ بلاک، سمیوکت سوشلسٹ پارٹی، پرجا سوشلسٹ پارٹی وغیر ہ ہی متبادل پارٹیاں ہوتی تھیں۔ان کا اب نام و نشان بھی باقی نہیں ہے۔ سوشلسٹ تحریک کے سرخیل جے پرکاش نارائن، رام منوہر لوہیا اور کملا دیوی چٹو پادھیائے نے 1948میںمہاتما گاندھی کے قتل کے بعد ہندو فرقہ پرست تنظیموں پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا تھا۔ انہوں نے آر ایس ایس کو برائی کی جڑ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ گاندھی کا قتل ایک غلط نظریہ کی دین ہے اور انہوں نے اس نظریہ اور اس کے ماننے والوں کو سختی کے ساتھ کچلنے کا مطالبہ کیا تھا۔ مگر 1975میں جے پرکاش نارائن کا سر ہی الگ تھا۔ بھارتیہ جن سنگھ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا اگر آر ایس ایس فاشسٹ ہے، تو وہ بھی فاشسٹ ہیں۔ 1998میں آر ایس ایس کی سیاسی شاخ بی جے پی کو اقتدار تک پہنچانے میں سوشلسٹ لیڈر جارج فرنانڈیز کا اہم رول تھا۔ 2014میں بالآخر اس پارٹی نے اپنے بل بوتے پر نریندر مودی کی قیادت میں اقتدار پر قبضہ کیا۔ اس دوران سوشلسٹ تحریک دم توڑ چکی تھی اور اس کے اکثر لیڈران رام ولاس پاسوان، نتیش کمار وغیرہ برسر اقتدار پارٹی کی چوکھٹ پر ناک رگڑ رہے تھے۔ لوہیا نے آر ایس ایس کے ساتھ کام کرنے پر عائد پابندی کو ہٹا دیا، تو جے پرکاش نارائن نے اس کو مکمل طور پر گلے لگا دیا۔ وہ اور ان کے جانشین بالآخر 1977اور 1989میں کانگریس کو اقتدار سے ہٹانے میں تو کامیاب ہوگئے، مگر ملک کو ایک عفریت کے حوالے بھی کر گئے، جس نے بہت ہی کم وقت میں ان کو بھی ہڑپ کر لیا۔ یہ معلوم ہوتے ہوئے بھی کہ یہ عفریت اسی ہاتھ کو ڈستا ہے جو اس کو دودھ پلاتا ہے، سوشلسٹوں اور کانگریسیوں نے ہندو فرقہ پرستوں کو پالا پوسا ۔ معروف دانشور انیل نوریہ کا حوالہ دیکر قربان علی کا کہنا ہے کہ سیکولرازم صرف قانونی یا آئینی وضاحت کا معاملہ نہیں ہے۔ یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ بھارتی سیکولرازم اس وقت بحران کا شکار ہے۔ گاندھی اور نہرو کا ماڈل ٹوٹ چکا ہے۔ پچھلی دو دہائیوں میں نریندر مودی کے عروج کے ساتھ دلدل مزید گہری ہو گئی ہے۔ اگر کانگریس یا اس کے لیڈران واقعی ملک کو اس دلدل سے نکالنا چاہتے ہیں یا اپنے آپ کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں، تو ان کو ہندو تو نظریات کے ساتھ سمجھوتہ کرنے والے سوشلسٹوں کے انجام سے سبق حاصل کرنا چاہئے۔نیز اپنے لیڈران اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی کی پالیسیوں کا احتساب کرکے حقیقی سیکولرازم ، یگانگت اور تنوع کو مدنظر رکھ کر ایک متبادل نظریہ پر مبنی سیاست کرنی چاہئے۔ ورنہ فرقہ واریت کا عفیریت ان کوہڑپنے اور ہضم کرنے کیلئے تیارکھڑا ہے اور مودی کا کانگریس مکت بھارت کا خواب شرمندہ تعبیر ہونے کا اندیشہ ہے۔