رہے پیش رو ترا نقش پا مرے مصطفی مرے مجتبیٰ تو ہے روشنی مری آنکھ کی ترا راستہ مرا راستہ اور پھر کیا کہیں کہ ’مجھے حکمتوں کی تلاش تھی، میں ترےؐ دیار میں آ گیا‘ ویسے تو ہر دن اور ہر زمانہ میرے آقاؐ کا ہے مگر ربیع الاول میں خاص طور پر سیرت مصطفیﷺ کا باب کھلتا ہے کہ یہ آپؐ کی آمد کا مہینہ ہے۔ اس مہینے کی ایک اپنی سی جھلک ہے۔ لوگ صرف اپنے گھر بار پر ہی چراغاں نہیں کرتے۔ ان کے اندر بھی جگمگا اٹھتے ہیں۔ مقصد حیات تو سب کے لئے اس پاک در کی باریابی ہے کہ یہی مرکز و محور ہمارے دین کا ہے۔ اقبال نے بھی کس مقام عقیدت میں جا کر عقدہ کشائی کی تھی کہ: لوح بھی تو، قلم بھی تو، ترا وجود الکتاب گنبد آبگینہ رنگ تیر محیط میں حباب یہ وسعتیں اور پہنائیاں رب نے اپنے محبوبﷺ کے نام کر دیں۔ یہاں میں آپ کو ایک محفل مصطفی ؐ میں لے جانا چاہتا ہوں کہ اس سلسلے کا آغاز کرنے کا بندوبست کیا گیا ہے۔ آغاز ہی میں حمید حسین صاحب ایک نہایت اثر انگیز واقعہ شیخ عماد الدین واسطی کا بیان کیا کہ آپ بہت نمایاں متکلمین میں سے تھے۔ فکر و تدبر کرنے والے ایک برگزیدہ اللہ والے ان کی زندگی میں ایک مرحلہ ایسا بھی آیا کہ انہیں محسوس ہوا کہ ان کا اندر یقین اور طمانیت سے خالی ہو گیا ہے۔ انہوں نے بہت سی مجالس دیکھیں اور آخر وہ ابن تیمیہ کی صحبت میں جا پہنچے جن کی باتوں سے انہیں لگا کہ ان کی پریشانی کا حل ان کی باتوں میں نظر آتا ہے۔ مختصر یہ کہ ابن تیمیہ نے ان کا مسئلہ سنا تو ان کو مشورہ دیا جسے حافظ ابن کثیر نے بیان کیا ہے ۔ساری چیزیں چھوڑ کر فوراً سیرت نبویؐ کے مطالعہ میں کھو جائو اور اس فکر کو خود پر لازم کر لو بس یہی تمام بیماریوں کا علاج ہے۔ شیخ عمادالدین واسطی فرماتے ہیں کہ پھر میں نے اسی کو حرز جاں بنا لیا اور پھر میں نے سب کچھ اسی وسیلہ سے پایا: یقین کچھ بھی نہیں گمان کچھ بھی نہیں جو تو نہیں ہے تو سارا جہان کچھ بھی نہیں بات آگے بڑھانے سے پہلے نفس کی تین حالتوں کا بیان ضرور دیکھ لیں کہ پہلی حالت وہ ہے جہاں سے نفس امارہ کہلاتا ہے کہ جہاں بندہ نیکی اور بدی میں امتیاز نہیں کر سکتا۔ دوسرا نفس لوامہ ہے کہ جب روشنی کی تمنا اور تیرگی سے بے زاری ہونے لگتی ہے یعنی نیک سے اطمینان اور برائی سے خلش پیدا ہوتی ہے۔ تیسری حالت نفس مطمئنہ کی ہے کہ اچھائی میں لطف آتا ہے اور برائی سے نفرت ہو جاتی ہے بس یہی تو اللہ کی قربت کا لمحہ ہے۔ یہ سفر سیرت ہی کا انعام ہو سکتا ہے کہ بندے کو صحبت و برہان کے ساتھ اس سمت لایا جاتا ہے۔ بات تو وہیں آتی ہے کہ حضور ﷺ قرآن کی عملی صورت ہیں اگر قرآن علم ہے تو آپ عمل آپ کی عظمت و تکریم کی شہادت بھی تو خود اللہ دیتا ہے آپ علم دلیل اور روشنی کے ذریعہ اللہ تک لاتے ہیں۔ جہل کا علاج صرف رسول اللہ کی بارگاہ میں ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال اہل بیت اور صحا کرام کا مبارک طائفہ ہے۔ قرآن ہم سے مخاطب ہے اور بتایا ہے کہ حضورؐ کے ذکر کو اللہ نے بلند کیا اور اس دعوے کو کسی تائید کی بھی ضرورت نہیں ۔ پھر بھی سب نے دیکھا ہے کہ آپﷺ اسم مبارک آج اربوں لوگوں کے دلوں میں جاں گزیں ہے۔ آپﷺ کی واحد ہستی ہے جس کا ایک ایک پل ریکارڈ پر ہے کوئی اور مثال موجود نہیں۔ آپﷺ کے اوصاف جمیلہ بیان کرنے آسان نہیں۔ آپ کو معلم بنا کر بھیجا گیا آپ کے مکارم اخلاق سچ اور صداقت سے معطر ہیں کہ آپؐ کی تعلیمات کو محفوظ رکھا گیا ۔ بتانا یہ مقصود ہے کہ حضورؐ چونکہ اللہ کے آخری نبی ہیں اس لئے آپؐ ہی کی سیرت کو قیامت تک کے لئے رکھا جاتا ہے۔ آپ دائمی نمونہ عمل ہیں اور ایک عالمگیر چشمہ حکمت و عمل ہیں۔ قرآن کہتا ہے کہ جس کو حکمت دی گئی اسے خیر کثیر دی گئی۔ حسن یوسف ؑ دم عیسیٰ ؑ ید بیضہ داری آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری اللہ نے اپنے محبوبؐ میں سارے کمالات اکٹھے کر دیے۔۔ جمال ہی جمال مقصد یہی ہے کہ ربیع الاول کے بابرکت مہینے میں سیرت کے بیاں کا چرچا کیا جائے۔ اس کی معطر ساعتوں میں حضورؐ کا تذکرہ اپنے اپنے انداز اور اپنے اپنے تئیں کیا جائے۔ آپؐ کی سیرت، اسوہ اور سنت کا بیان ہو اور آپؐ کے ایک ایک پہلو پر روشنی ڈالی جائے آپؐ کی سراپا سیرت کا تتبع کیا جائے یعنی جسے سنت کہتے ہیں۔ آپؐ کو کسقدر نرم خو اور نرم مزاج بنایا کہ آپؐ نے بندگان خدا کو اللہ کی طرف لانا تھا آپؐ تند خو ہرگز نہیں تھے۔ جو بھی آپؐ کو ملا آپؐ کا ہو گیا ۔آپؐ کو روشن چراغ کہا گیا کہ جس کی روشنی کل عالم کے لئے ہے۔ آپؐ انسان کی فکر میں اس حد تک متفکر تھے کہ اللہ کو کہنا پڑا کہ کیا آپؐ اس غم میں اپنے آپ کو گھلا لیں گے کہ یہ لوگ آپؐ کے پیغام کو نہیں مانتے۔آپؐ مسلمانوں کے لئے تو بہت ہی زیادہ متعلق تھے کہ امت کے لوگوں کا درد اوردکھ آپؐ ان سے زیادہ محسوس کرتے تھے آپؐ ان کی بھلائی کے لئے حریص تھے۔ اب آخر میں ان دوستوں کا تذکرہ ازبس ضروری ہے کہ جنہوں نے اس بابرکت محفل کا اہتمام کیا ڈاکٹر ناصر قریشی، غلام عباس جلوی، ملک سعید ،عبدالغفور اور ندیم خان صاحب اس شاندار محفل میں محمد آصف نے نعت رسول مقبول بھی سنائی۔اپنے دادا حضور حبیب اللہ شاہ کے کلام سے: اے نبیؐ امی لقب ،اے وارث ام الکتاب اے عرب کے ماہ روشن، اے عجم کے ماہتاب ایۂ انا فتحناشان محبوبی تری حسن کی معراج ہے ہر حسن پر خوبی تری تیرے آنے سے اندھیروں میں اجالا ہو گیا تیرے دم سے دین حق کا بول بالا ہو گیا