چند روز قبل ملک بھر میں ’’گیلب‘‘نے سیاسی قیادت کی مقبولیت بارے ایک اہم سروے کیا اس سروے کے نتائج سے حکمران اتحاد میں سراسیمگی پھیل گئی جس کے بعد سروے نتائج کو من گھڑت اور بے بنیاد قرار دیدیا گیا ''گیلب''سروے نتائج کے مطابق عمران خان آج بھی عوام میں مقبول ترین سیاسی لیڈر ہیں 61 فیصد عوام انہیں چاہتی ہے، مسلم لیگ کے قائد نواز شریف اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو کی مقبولیت ان کے مقابلہ میں بہت کم رہی ان کے حق میں 36 فیصد عوام نے رائے دی اس طرح وزیر اعظم شہباز شریف کی مقبولیت کا گراف تیسرے نمبر پر رہا انہیں صرف32 فیصد نے چاہا جبکہ حکمران اتحاد پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن 31 فیصد اور سیاسی جوڑ توڑ کے بادشاہ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین سابق صدر آٖصف علی زرداری 27 فیصد کے ساتھ پانچویں نمبر پر رہے ان نتائج سے مستقبل کی سیا ست کا نقشہواضح دکھائی دے رہا ہے یہ نتائج جہاں حکمران اتحاد کیلئے لمحہ فکریہ ہیں وہاں مذہبی و سیاسی جماعتوں کیلئے بھی سوالیہ نشان ہیں کہ آخر کیوں آج بھی عوام ان کے طرز سیاست کو پسند نہیں کرتے۔ عمران خان کے انداز سیاست سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن یہ ماننا پڑے گا کہ عمران خان سیاسی نباز بن چکے ہیں انہیں عوامی سیاست کا ڈھنگ آگیا ہے اگر ملکی سیاست میں سیاہ و سفید کی ملکیت کا دعویٰ کرنے والی سیاسی جماعتیں آج عمران خان کی مقبولیت سے خوفزدہ ہیں ان کا خوف سمجھ اورعام انتخابات سے فرار سمجھ میں آتا ہے آخر کوئی کیوں جانتے بوجھتے ہوئے اپنے پائوں پر کلہاڑی مارے گا ؟ پریشانی کی بات یہ ہے کہ انتخابات سے فرار کیلئے نفرتیں پھیلائی جا ر ہی ہیں عدلیہ اور فوج پر کاری وار کئے جارہے ہیں 11ماہ سے سیاسی درجہ حرارت میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ دو تین روز قبل سینئر صحافی میاں آصف شبیر کی عیادت کے لئے حاضر ہوا میاں صاحب ایک تجربہ کار اور کہنہ مشق صحافی ہیں ان دنوں علیل ہیں نصف صدی سے زائد وفاقی دارالحکومت سے شائع ہونے والے مختلف اخبارات سے وابستہ ہیں ایوان اقتدار اور پارلیمنٹ کی راہداریوں میں کیا سازشیں ہوتی رہی ان کی آنکھوں سے کچھ اوجھل نہیںتاہم وہ ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال سے پریشان دکھائی دئیے آئندہ عام انتخابات بارے مایوس نظر آئے، ان کی رائے تھی کہ انتخابات کے وقت مقررہ پر ہو نے کا کوئی امکان نہیں کیونکہ عام انتخابات کے انعقاد کیلئے سیاسی قیادت کا ایک پیج پر ہونا ضروری ہے اس وقت حکمران اتحاد اور تحریک انصاف میں فاصلے بڑھتے جارہے ہیں کوئی ایسی طاقت نہیں جو انہیں ایک جگہ اکھٹا کرے اور ان میں اتفاق رائے پیدا کرے ایک طرف فوری انتخابات کا مطالبہ ہے اور دوسری طرف'' ترازو کے دونوں پلڑے'' برابر کرنے کی رٹ لگا ئی جارہی ہے پہلے احتساب پھر انتخاب کا نعرہ بلند کیا جا رہا ہے۔ پی ڈی ایم، پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے راستے الگ الگ ہیں تاحال تینوں میں فاصلے بڑھتے جا رہے ہیں کسی ایک نکتہ پر اکھٹا ہونے کیلئے تینوں کو کچھ کچھ قدم پیچھے آنا ہوگا پھر بات بنے گی ورنہ پھر دھڑن تختہ ہوگا اگر 1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو اور پاکستان قومی اتحاد میں اتفاق رائے ہوجاتا کبھی بھی ضیاء الحق مارشل لاء کا نفاذ نہ کرتے موجودہ صورتحال میں ہمارے مسائل حل ہونگے اور نہ ہی انتخابات کا انعقاد ممکن ہو سکے گا بلکہ ہر آنے والے دن کے ساتھ مشکلات میں اضافہ ہوگا۔ ہمارے دوست برادر ملک ترکیہ میں صدر رجب طیب اردگان نے انتہائی ایمرجنسی کی صوتحال کیباوجود انتخابات وقت مقررہ سے ایک ماہ قبل کرانے کا اعلان کردیا ہے ترکیہ میںعام انتخابات کی تاریخ 18جون طے تھی لیکن صدر رجب طیب اردگان نے اپنے عوام کا مورال بلند رکھنے کیلئے عام انتخابات ایک ماہ قبل14مئی کو کرانے کا علان کردیا ہے انھوں نے انتخابات میں موسیقی کے استعمال پر پابندی عائد کرتے ہوئے انتخابی اخراجات میں بھی کمی کرنے عندیہ دیا ترکیہ کے صدر نے کہا کہ موسیقی کے استعمال پر پابندی اپنے زلزلہ زدگان بھائیوں سے اظہار یکجہتی کیلئے لگائی گئی اور انتخابی اخرجات میں کمی سے جمع ہونے والی رقم ہم زلزلہ زدہ علاقوں کی تیز ترین تعمیر و ترقی کیلئے خرچ کریں گے ترکیہ کے صدر رجب طیب کا یہ اقدام ان کی مقبولیت کا منہ بولتا ثبوت ہے اگر وہ چاہتے ترکیہ میں موجودہ ایمرجنسی کی صورتحال کے پیش نظر عام انتخابات کچھ عرصہ کیلئے موخر کرسکتے تھے لیکن انھوں نے نہ صرف انتخابات وقت مقررہ پر کرانے کو ترجیح دی بلکہ انہیںمقررہ وقت سے ایک قبل کرانے کا علان کیا جس سے نہ صرف ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا بلکہ ترک عوام کا مورال بھی بلند ہوا۔ افسوس کی بات ہے کہ آج باکستانی عوام کا مورال بلند کرنے ولا کوئی نہیں،معلوم نہیں ہماری اپوزیشن کے حکومت میں آنے کے بعد رویے اور اقدار کیوں تبدیل ہو جاتے ہیں؟ پی ڈی ایم اپوزیشن میں ہوتے ہوئے فوری انتخابات کا مطالبہ کر رہی تھی لیکن اقتدار میں آنے کے بعد انہوں نے اپنے اس مطالبہ کو پس پشت ڈال دیا اب گویا انتخابات ان کیلئے قصہ پارینہ بن چکے ہیں اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارے ہاں عام انتخابات کے انعقاد کا مقصد صرف اشرافیہ کے لئے اقتدار کی راہ ہموار کرنا ہے اگر عام انتخابات کے انعقاد کا مقصد مہنگائی سے نجات ، ملکی تعمیر وترقی اور عوام کی فلاح و بہبود ہو پھر کسی کوعام انتخابات کا اعلان کرنے سے خوف زدہ نہیں ہونا چاہیے تھا حقائق بڑے تلخ ہوتے ہیں تاہم انہیں مان لینے میں ہی بھلائی ہوتی ہے شیخ مجیب کا راستہ روکا جاسکا اور نہ ہی امام خمینی کا ، عمران خان کی مقبولیت کا گراف بہتر بنانے میںپی ڈی ایم اپنا بھر پور کردار ادا کر رہی ہے اگر لولے لنگڑے جمہوری عمل کو سبوتاز نہ کیا جاتا توآج حالات بالکل مختلف ڈگر پر چل رہے ہو تے ایوان اقتدار کی ریشہ دوانیوں میں پروان چڑھنے والے تعلقات کبھی دیر پا نہیں ہوتے یہ سب آن کی آن میں ریت کی دیوار ثابت ہوتے ہیں اس لئے مثبت اور جمہوری طرز عمل ہی بہترین انتخاب ہے ۔