پاک فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ بلوچستان کی کامیابی پاکستان کی کامیابی ہے، پاکستان بلوچستان کے بہادر عوام پر فخر کرتا ہے اور ہر مشکل وقت میں ان کے ساتھ کھڑا ہے،عوام کے ساتھ مل کر امن اور خوشحالی کا سفرجاری رکھیں گے۔ آرمی چیف کو صوبے کی سکیورٹی اور صوبے کی سماجی و اقتصادی ترقی اور زراعت کے لیے فوج کی جانب سے کی جانے والی کوششوں کے بارے میں بریفنگ دی گئی۔انہوں نے ’’مقامی مشران‘‘ کسانوں اور شہدا کے خاندان والوں سے بات چیت بھی کی اور ان کو فوج کی جانب سے تحفظ اور فلاح کا یقین بھی دلایا۔ بلوچستا ن رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ مگر اسی لحاظ سے اس میں سب سے زیادہ مسائل بھی ہیں ۔اس کا کل رقبہ چونتیس ہزار ایک سو نوے کلو میٹر ہے اور یہ پاکستان کے کل رقبے کا چوالیس فیصد حصہ ہے۔ مگر آبادی کے لحاظ سے سب سے چھوٹا صوبہ ہے ۔رقبے اور آبادی دونوں کو مد نظر رکھ کر وسائل ومسائل بھی سب سے زیادہ ہیں ، یہ مسئلہ روز اول سے درپیش ہے ۔پسماندگی کی وجہ سے وہاں کے نوجوان بے راہ روی کا شکار ہو جاتے ہیںجبکہ دشمن اس سے فائدہ اٹھا کر بد امنی کو ہوا دیتا ہے ۔ بلوچستان کے کئی علاقوں میں سڑکیں تک موجود نہیں جبکہ تعلیمی ادارے تو سرے سے ہی نہیں ۔جس علاقے میں تعلیمی ادارہ ہو وہاں کا سردار اپنے ماتحتوں کو تعلیم کی اجازت ہی نہیں دیتا ۔ انفرا اسٹریکچر سے لے کر تعلیم اور صحت تک کے ہر شعبے میں بلوچستان باقی صوبوں کی نسبت بہت پیچھے ہے۔یہاں صحت کی سہولتیں صرف بتیس فیصد آبادی کو میسرہیںاور آبادی کی اکثریت اپنے بنیادی حق سے محروم ہیں۔ صحت کے حوالے سے ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہاں آبادی کے لحاظ سے ہرسات ہزار تین سو لوگوں کے لئے ایک ڈاکٹر ہے جبکہ دہی علاقوں کی حالت زار شہری علاقوں سے بھی بد تر ہے۔ عالمی بینک کی جاری کردہ ایک رپورٹ میں پاکستان کی تیس فیصد آبادی غربت کا شکار ہے اور بلوچستان میں یہ شرح بیالیس اعشاریہ دو فیصد ہے اور بلوچستان میں سب سے زیادہ ضلع واشک میں غربت ہے وہاں کی آبادی کا بہتر فیصد حصہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہا ہے اور اسی وجہ سے بلوچستان غذائی قلت کا بھی شکار ہے۔ یہاں 53 فیصد بچوں کو پوری غذا نہیں ملتی۔اسی وجہ سے ان کی افزائش کا تناسب بھی کم ہے۔ اسی طرح آغا خان یونیورسٹی کے ایک سروے کے مطابق پاکستان کے بیس اضلاع کے لوگ غذائی قلت کا شکار ہیں اور ا س میں دس اضلاع بلوچستان کے ہیں۔ جبکہ صوبہ بھر میں سولہ فیصد آبادی کو غذائی قلت کا سامنا ہے اور اس کے اثرات کی وجہ سے ستر فیصد بچے اور ایک تہائی حاملہ عورتیں شدید متاثر ہو رہی ہیں۔ جہاں غذائی قلت بذات خود بچوں اور حاملہ عورتوں میں کمزوری ، بیماری اور موت کا سبب بن رہی ہے ، وہیں غذا کمی کی وجہ سے قوت مدافعت بھی متاثر ہوتی ہے اور جس کہ وجہ سے کئی جلدی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ ان میں تپدق جیسی موذی امراض بھی حملہ آور ہوتی ہیں۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے اپنے خطاب میں بلوچستان کے مسائل حل کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے ۔وہ سب سے پہلے بلوچستان کے تعلیم اور صحت کے مسائل حل کروائیں۔جس طرح ملک کے دیگر صوبوںمیں بینظیر انکم سپورٹ کا اجرا تو موجود ہے لیکن بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں بلوچستان کا حصہ بڑھا کر وہاں کے مسائل پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ اس وقت جو حصہ بلوچستان کو ملتا ہے وہ کل آبادی میں بلوچستان کے حصے سے بھی کم ہے۔ بلوچستان میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی انتظامی صلاحیت اور وسائل کو بہتر کیا جائے جبکہ صوبے کے نمائندوں کو گورننگ باڈی کے ساتھ ساتھ منصوبے کی انتظامی ٹیم کا رکن بھی بنایا جائے تاکہ ہر گھر تک یہ رقم پہنچ سکے۔بلوچستان کے ہرگائوں میںہسپتال نہیں تو تمام سہولیات سے مزین کلینک بنانے چاہییں۔اس کے علاوہ حکومت بلوچ شورش پسندوں سے رابطے کے لیے ایک جامع حکمتِ عملی تشکیل دے۔ اس حکمتِ عملی میں قدآور سیاسی شخصیات شامل ہوں جو مذاکرات کی قیادت کریں اور اعتماد سازی کے اقدامات کے نفاذ کو یقینی بنائیں۔اگر ہم نے بحیثیت قوم آگے بڑھنا ہے تو ہمیں ماضی کو بھلا کر ایک نئے مستقبل کی ابتدا کرنا ہو گی ۔بلوچستان سمیت ملک بھر میں تمام سیاسی اورپہاڑوں پر موجود افراد کے لیے عام معافی کا اعلان کیا جائے تاکہ ملک کو آگے بڑھایا جا سکے ۔ماضی میں بلوچ شورش پسندوں کے ساتھ ہونے والے مذاکرات 2 وجوہات کی بنا پر ناکام ہوئے۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ مفاہمتی کوششیں اور جبر ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ مذاکراتی عمل کی قیادت کرنے والے بامعنی پیشکش کرنے کی نہ تو ساکھ رکھتے تھے اور نہ ہی ان کے پاس اس کی آزادی تھی۔لہذا ایسے افراد کو مذاکرات کے لیے کمیٹی میں شامل کیا جائے جو فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں ۔ بلوچستان میں کئی افرادٹائیفائیڈ ، ملیریا، ہیپیٹائیٹس، گردے کی بیماریاں، گیسٹرو اور متعدد جلدی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ یہاں پینے کا پانی میسر ہی نہیں ۔ دیہی علاقوں کے لوگ آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں اور ان بیماریوں سے بچنے لے لئے لازمی ہے کہ پینے کے صاف پانی کی فراہمی یقینی ہو اور نکاسی آب کا جو نظام شہروں میں ہے، وہ دیہاتوں میں بھی شروع کیا جائے۔آرمی چیف ان مسائل کو حل کروا کر اس صوبے کو مضبوط کرسکتے ہیں ۔