احتیاط کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے میں نے دبی زبان میں کہا رانا صاحب! آپ یہ باتیں آف دی ریکارڈ تو نہیں کر رہے ؟ رانا صاحب نے کہا:میں کون سا کسی سے ڈرتا ہوں‘ میں یہ باتیں سب کے سامنے کہتا ہوں‘ آج تمہارے سامنے کہہ دیں‘ میرے لئے اتنا ہی کافی تھا‘ میں نے رخصت چاہی ‘ پیپلز ہائوس سے نکلا‘ دفتر پہنچا اور سٹوری فائل کر دی۔انٹرویو میں احتیاط یہ کی کہ کہیں انٹرویو کا لفظ نہیں لکھا ’’سینئر پارلیمنٹرین رانا پھول خان نے گپ شپ کے دوران کہا‘‘ کا جملہ ڈال دیا‘ دوسری صبح دفتر پہنچا تو پتہ چلا کہ رانا پھول خان نے انٹرویو کی تردید کر دی اور کہا ہے کہ میں نے زندگی بھر کسی کو انٹرویو نہیں دیا آج کیسے چھپ گیا؟۔ ان دنوں دفتری قواعد سخت تھے اور کسی خبر انٹرویو کی تردید کا مطلب ملازمت سے فراغت تھا‘ ساکھ تو ایسے اخبار نویس کی تباہ ہوتی ہی تھی جس کے حرف مطبوعہ کی تردید ہو جائے۔تھوڑی دیر نہیں گزری تھی کہ شوکاز نوٹس بھی موصول ہو گیا جس میں دو دن کے اندر وضاحت طلب کی گئی تھی‘ بھاگم بھاگ پیپلز ہائوس پہنچا۔ رانا صاحب کے کمرے میں داخل ہوا تو دو تین ایم پی ایز کی موجودگی میں رانا صاحب نے سخت سست کہا اور بولے کہ نوائے وقت کے سینئر رپورٹر ’’بھا‘‘ طارق اسمعیل ابھی اٹھ کر گئے ہیں میری ان سے بیس سال کی یاداللہ ہے کبھی انہیں انٹرویو نہیں دیا‘ آج بھی وہ یہی گلہ کرنے آئے تھے کہ مجھے ہمیشہ ٹال دیتے ہیں مگر ایک نو آموز کو انٹرویو دیدیا۔ یہ ہے آپ کی ہم سے دوستی اور دیرینہ تعلقات کا عالم۔اوپر سے وزیر اعلیٰ میاں نواز شریف ناراض ہیں کہ آپ نے پنجاب اسمبلی کو یونین کونسل بھائی پھیرو سے کمتر قرار دے ڈالا اور ارکان اسمبلی کو موری ممبر سے فروتر۔ میں نے عرض کی اگر موقع دیں تو کچھ عرض کروں‘ بولے اب کیا کہنا ہے‘ کہنے کو باقی رہا ہی کیا ہے۔میں نے اخبار بغل سے نکالا اور رانا صاحب سے کہا کہ پوری خبر میں کہیں انٹرویو کا لفظ ایک بار بھی نظر آئے تو جو چور کی سزا وہ میری۔بولے تو پھر کیا چھپا ہے‘ میں نے کہا رانا صاحب آپ کی گپ شپ‘ چھپی ہے۔جس طرح باقی اخبارات اسمبلی میں آپ کی تقریر اور کیفیٹیریا میں گپ شپ چھاپتے ہیں اور آپ کے ساتھی ارکان آپ کو داد دیتے ہیں‘ ویسی ہی گپ شپ ۔تھوڑا سا مسکرائے اور بولے ذرا پڑھ کر سنائو۔ میں نے پوری سٹوری پڑھ کر سنا دی۔کہنے لگے :ہاں واقعی یہ کوئی انٹرویو تو نہیں‘ پھر طارق اسمعیل کیوں ناراض ہو رہا تھا‘ موقع غنیمت جان کر میں نے کہا رانا صاحب طارق اسمعیل قابل احترام ہیں مگر پیشہ ورانہ حسد سے وہ بھی مبرا تو نہیں‘ انہیں غصہ ہو گا کہ جو باتیں آپ کو ان سے کرنی چاہئیں تھیں وہ ایک نو آموز رپورٹر سے کر ڈالیں وغیرہ وغیرہ‘ رانا صاحب نے کہا اب میں کیا کروں؟ میں نے کہا میرے دفتر فون کریں کہ ارشاد عارف کا کوئی قصور نہیں یہ باتیں میں نے کہی تھیں مگر انٹرویو نہیں دیا‘ اس کی جان چھوڑ دیں۔رانا صاحب کی فون کال سے میری جان چھوٹ گئی۔ ایک بار میں نے صوبائی کابینہ کے اجلاس میں پیش کی جانے والی سمری کی کاپی حاصل کی‘ جسے گورنر غلام جیلانی نے منظور کر کے متعلقہ وزارت کو نوٹیفکیشن جاری کرنے کے لئے بھیجی تھی‘ سمری کی منظوری کی خبر شائع ہوئی تو سول سیکرٹریٹ اور گورنر ہائوس میں تہلکہ مچ گیا‘ متعلقہ محکمے نے تردید جاری کی کہ ایسی کوئی سمری اسے موصول ہوئی نہ نوٹیفکیشن جاری کیا گیا۔ جواب طلبی پر میں نے سمری کی کاپی پیش کر دی‘ ہوا یوں کہ گورنر کی منظور شدہ سمری ابھی سیکرٹریٹ تک نہیں پہنچی تھی ان دنوں فیکس ایجاد ہوئی تھی نہ ای میل یا فوری ترسیل کا برقی نظام رائج تھا‘ سمری منظوری کے بعد قاصد کے ذریعے متعلقہ محکمے تک پہنچتی اور پھر سیکرٹری صاحب کو بغرض اجرا نوٹیفکیشن پیش کی جاتی۔خبر کی اشاعت کے بعد فوری طور پر گورنر ہائوس نے نوٹیفکیشن کا اجرا روک دیا۔یوں ایک رپورٹر کو جھوٹا ثابت کرنے کے لئے ساری کاغذی کارروائی ریکارڈ سے غائب کر دی گئی۔لیکن سوال یہ ہے کہ اس سارے معاملے میں رپورٹر یا اخبار قصور وار کہاں اور کیسے؟۔ وزیر اعظم‘ وزیر اعلیٰ گورنر وفاقی یا صوبائی وزیر اور کوئی سرکاری عہدیدار اگر کسی اخبار نویس کو اہم اطلاع دے کر مُکر جائے جیسے وزیر خزانہ اسحق ڈار کو نگران وزیر اعظم بنانے کی تجویز اعلیٰ ترین سطح پر میڈیا کو فیڈ کی گئی مگر اتحادیوں کے دبائو پر واپس لے لی گئی۔ ایک سمری تیار ہونے کے بعد واپس لے لی جائے‘ کابینہ کوئی فیصلہ کرنے کے بعد کسی مصلحت یا کمزوری کے تحت ریورس کر دے‘ کسی اہم ایوان میں ظہور پذیر واقعہ کو حکومت چھپانے میں کامیاب ہو جائے اور کسی اخبار یا چینل میں اس کی نشرو اشاعت کو رپورٹر کی بدنیّتی‘ ذاتی و مالیاتی مفاد اور مخالفانہ طرز عمل پر مبنی ڈس انفرمیشن‘ مس انفرمیشن قرار دے دے تو کسی بھی ادارے یا کمیٹی کے پاس وہ کون سا پیمانہ ہے‘ جس سے اخبار نویس کی صداقت‘ نیک نیتی اور پیشہ ورانہ دیانت کو پرکھا جا سکے‘ میں نے 1985ء میں باضابطہ سرکاری اعلان سے تین دن قبل 20مارچ کی سہ پہر محمد خان جونیجو کے وزیر اعظم نامزد ہونے کی خبر فائل کی‘ مجھے ادارے کی طرف سے بار بار تنبیہ کی گئی کہ اگر خبر غلط ثابت ہوئی تو ملازمت سے فوری فارغ ‘ نامزدگی کے فیصلے سے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاء نے ارکان اسمبلی کے ایک گروپ کو خود آگاہ کیا تھا اور میرے تینوں سورس مستند و معتبر تھے۔ رات گئے جنرل ضیاء الحق اگر اپنا فیصلہ بدل لیتے تو مجھے غلط خبر کی اشاعت پر ملازمت سے ہاتھ دھونے پڑتے اور ممکن ہے مارشل لائی حکومت کے سخت عتاب کا نشانہ بھی بنتا۔مگر کیا واقعی میرا یہ فعل پیمرا ترمیمی ایکٹ کے تحت ڈس انفرمیشن اور مس انفرمیشن کے زمرے میں آتا؟ یہ تلخ تجربہ بھی کئی بار ہوا کہ شواہد و دستاویزات کی تلاش میں جان جوکھوں میں ڈالی ‘ کئی ہفتے بلکہ ایک دو بار کئی ماہ تک محنت کر کے تحقیقی خبر بنائی‘ سورس معتبر اور دستاویزات و شواہد مستند مگر متاثرہ فریق کا موقف معلوم کرنے کے لئے رابطہ کیا تو تصدیق یا تردید کرنے کے بجائے کسی کولیگ‘ طاقتور سرکاری عہدیدار اور بسا اوقات ادارے کے بااختیار شخص کے ذریعے خبر رکوا دی‘ ساری محنت اکارت اور سورس کے سامنے ندامت مستزاد ‘ میری صحافتی زندگی میں درجنوں ایسے واقعات ہیں جب سوفیصد مصدقہ خبر بھی وبال جان بنی‘ دیگر صحافیوں کو بھی اکثر و بیشتر ایسی ہی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا اور جن حکومتی اہلکاروںنے صحافیوں کو ڈس انفرمیشن ‘ مس انفرمیشن ‘فیک نیوز کا مرتکب ٹھہرایا وہی اپنے مناصب سے علیحدگی کے بعد انہی اخبار نویسوں کی دلیری اور حق گوئی کا ڈنکا بجاتے نظر آئے‘ ماضی میں اخبار نویسوں سے ظلم و زیادتی کے جتنے بھی واقعات ہوئے معدودے چند کے سوا سب ماورائے قانون اور برملا ریاستی غنڈہ گردی کا مظہر تھے‘ اب جبر و استبداد کی دیرینہ آرزو کو قانون کا جامہ پہنایا جا رہا ہے‘ خدا خیر کرے۔حکومت اور صحافت روز اوّل سے ندی کے دو متوازی دھارے ہیں جو کبھی کہیں آپس میں ملتے نہیں‘ جہاں مل جائیں وہاں صحافت قصۂ پارینہ اور مصلحت و مفاد پرستی غالب‘ گھوڑا گھاس سے دوستی کرنے لگا ہے مگر کھائے گا کیا؟۔(ختم شد)