کراچی کتاب میلہ کی مصروفیت سے کچھ وقت نکال کر دن کے پہلے حصے میں ایک دو اہم ٹاسک نمٹا لئے۔ ان میں سے ایک جامعہ یا جامعتہ الرشید کاوزٹ تھا۔ یہ نہ صرف کراچی بلکہ پاکستان کا منفرد تعلیمی ادارہ ہے جہاں خالص اور کلاسیکل انداز میں دینی تعلیم دینے کے ساتھ عصری جدید تعلیم کا بھی امتزاج شامل کیاگیا ہے۔ یہ ادارہ کراچی کے چند بڑے اور ممتاز دینی اداروں میں شامل ہے مگر یہاں پر صرف درس نظامی نہیں کرایا جاتا بلکہ اس کے ساتھ ہر طالب علم کے لئے لازمی ہے کہ وہ عصری تعلیم کے مضامین بھی پڑھے۔ یہ ایک ایسا روایت شکن کام ہے جس کی دیگر دینی مدارس کے حلقوں میں اچھی خاصی مزاحمت موجود ہے۔ تاہم جامعہ الرشید کے ذمہ داران نے کوشش کی ہے کہ کسی تصادم یا بحث مباحثے میں پڑے بغیر خاموشی سے اپنا کام کیا جائے۔ یاد رہے کہ مدارس کی دنیا میں عصری تعلیم سے مراد عام کالج یونیورسٹی کی تعلیم ہے یعنی میٹرک، انٹر، بی اے ، بی ایس سی، ایم اے وغیرہ۔ ہم جامعہ الرشید گئے تو سب سے پہلے اس کی خوبصورتی، نفاست اور سبزے کی دل کشی نے متاثر کیا۔ میرے ساتھ روزنامہ نائنٹی ٹو نیوز کے ایڈیٹر ایڈیٹوریل اور کالم نگار دوست اشرف شریف بھی تھے۔ اشرف صاحب کو باغبانی سے بڑی دلچسپی ہے ، وہ اس موضوع پر کتابیں بھی لکھ چکے ہیں۔ اشرف صاحب وہاں کے دمکتے ہرے بھرے سبزے کے قطعات اور جگہ جگہ کھلے پھولوں کے تختوں سے متاثر ہوئے۔ ایسی دلکشی سے سجا سنورا تعلیمی ادارہ کم ہی دیکھا ہے۔ اندازہ ہو رہا تھا کہ جامعہ کے ذمہ داران کا جمالیاتی ذوق کیسا عمدہ تھا۔ جامعہ کے کچھ طلبہ کے ساتھ ایک انٹرایکشن بھی رکھا گیا تھا، طلبہ نے صحافت اور کالم نگاری کے حوالے سے اچھے سوال کئے، کئی لڑکوں کو دلچسپی تھی کہ انہیں کچھ ایسی کتابوں کے نام بتائے جائیں جنہیں وہ اپنے مطالعہ کا حصہ بنائیں۔ جامعتہ الرشید کا میڈیا کے حوالے سے اچھا خاصا بڑا سیکشن ہے، وہاں پر کئی لوگ کام کرتے ہیں، ایک روزنامہ اخبار اور جرائد بھی نکالے جاتے ہیں۔ فیس بک پیجز، ویب سائٹس بھی ہیں اور پوڈکاسٹ بھی باقاعدگی سے کرائے جاتے ہیں۔ میڈیا کے ایک ذمہ دار محمد ندیم جنہوں نے اس وزٹ کے حوالے سے بہت تعاون بھی کیا تھا، انہوں نے میرے ساتھ بعد میں ایک پوڈکاسٹ انٹرویو بھی کیا۔ اس میں میرے ستائیس سالہ صحافتی سفر اور مختلف تجربات کے حوالے سے گفتگو ہوئی۔ نوجوان محمد ندیم نے اچھے خاصے نوٹس بنا رکھے تھے اور تجربہ کار صحافیوں کی طرح طویل سوالنامہ ان کے پاس تھا۔ بتانے لگے کہ انہوں نے تیاری کے لئے یوٹیوب پر موجود میرے بعض انٹرویوز اور لیکچرز سے بھی استفادہ کیا۔ جامعتہ الرشید کے بانی مولانا عبدالرشید مرحوم تھے۔پچھلے بیس برسوں سے اس کے سربراہ ممتاز عالم دین اورسکالر مفتی عبدالرحیم صاحب ہیں۔یہ جامعہ اکیس بائیس سال پہلے قائم ہوئی ، اس اعتبار سے اس کی عمر کراچی کے دو تین پرانے اور بڑے مدارس سے خاصی کم ہے مگر اس نے بہت جلد اہمیت حاصل کر لی ہے۔ مفتی عبدالرحیم صاحب سے میری تفصیلی ملاقات ہوئی۔ انہیں شہر سے باہر جانا تھا، اپنے سفر کو کچھ دیر کے لئے موقوف کر کے انہوں نے مجھے خاصا وقت دیا، دوپہر کا کھانا بھی کھایا اور بہت سے ایسے سوالات کے جواب ٹھنڈے دل ودماغ سے دئیے، جن کی میں توقع نہیں کر رہا تھا۔ اس نشست پر ان شااللہ الگ سے لکھوں گا۔ روایتی طور پردینی مدارس میں آٹھ سالہ درس نظامی کرایا جاتا ہے۔ درس نظامی کا اپنا خاص نصاب یا سیلیبس ہے، کم وبیش تمام مدارس اس کو فالو کرتے ہیں۔ وفاق المدارس سب سے بڑا انتظامی بورڈ ہے جو سالانہ امتحانات لیتا ہے۔وفاق کے علاوہ بھی دیگر بورڈ کام کر رہے ہیں ، ان میں اہل سنت( بریلوی)، اہل حدیث اور اہل تشیع کے لئے الگ سے بورڈ تھے اور وہ بھی اپنے اپنے انداز میں اچھا کام کر رہے ہیں۔ جامعتہ الرشید والوں کے لئے یہ بندش تھی کہ وہ وفاق المدراس کے سسٹم میں رہتے ہوئے آزادی سے کام نہیں کر پا رہے تھے ، وفاق کا مخصوص نصاب تھا اور اسی کے پیپر لئے جانے مقصود تھے۔ وفاق المدراس صرف درس نظامی ہی پر فوکس کرتا ہے اور عصری تعلیم کو وہ شامل نہیں کرتا بلکہ حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ پچھلے سال حکومت نے اپنی پالیسی تبدیلی کرتے ہوئے چار پانچ نئے بورڈ ز کی منظوری دے دی۔ یوں اب جامعتہ الرشید کا اپنا امتحانی بورڈ ’’مجمع العلوم الاسلامیہ پاکستان‘‘ بن چکا ہے۔ اب یہ وفاق المدارس سے الگ ہوچکے ہیں۔بتایا جاتا ہے کہ ملک بھر سے کوئی سات سو کے قریب مدارس جامعتہ الرشیدکے اس بورڈ مجمع العلوم الاسلامیہ کا حصہ بن چکے ہیں، جن میں مفتی نعیم مرحوم کی معروف درسگاہ جامعہ بنوری بھی شامل ہے۔ جامعتہ الرشید کو حال ہی میں ایک بڑی کامیابی حاصل ہوئی کہ انہیں ایک یونیورسٹی کا چارٹر مل گیا ہے۔ الغزالی یونیورسٹی کے نام سے یہ پراجیکٹ نہ صرف شروع ہوچکا ہے بلکہ پانچ شعبہ جات شریعہ اینڈ لا، آئی ٹی، ایجوکیشن، اسلامک فنانس اور لینگویجز میں تعلیم بھی دی جا رہی ہے۔ جامعتہ الرشید کے سسٹم میں سب سے اہم اور بنیادی بات یہ ہے کہ یہاں پر طالب علم صرف آٹھ سالہ درس نظامی کی تعلیم حاصل نہیں کرتا بلکہ اس کے ساتھ اسے انگریزی ، آئی ٹی اور دیگر جدید علوم کی تعلیم بھی لازمی حاصل کرنا پڑے گی۔ اس کے پینتیس شعبہ جات ہیں، تین ہزار کے قریب طلبہ زیرتعلیم اور ہاسٹلز میں رہائش رکھتے ہیں۔ میں نے سوال پوچھا کہ اگر کوئی طالب علم کہے کہ میں نے صرف درس نظامی پڑھنا ہے، میں نے انگریزی اور جدید علوم نہیں سیکھنے ، تب کیا کرتے ہیں؟ جواب ملا، پھر وہ جامعتہ الرشید میں نہیں پڑھ سکتا۔ جامعہ کا ایک مکمل پیکیج ہے جس میں طالب علم کے لئے دینی علوم کی مہارت کے ساتھ اپنے عصر ی علوم سے واقفیت بھی ضروری ہے۔ عام طور سے درس نظامی میں آٹھویں جماعت سے داخلہ مل جایا کرتا ہے، اب وفاق المدارس نے میٹرک کی شرط رکھ دی ہے۔ جامعتہ الرشید نے پہلے ہی سے داخلہ کے لئے میٹرک سائنس کی شرط عائد کر رکھی ہے۔ یعنی میٹرک سائنس سے کئے بغیر کوئی طالب علم جامعہ الرشید سے تعلیم نہیں حاصل کر سکتا۔ یہ بذات خود اہم بات ہے۔ ظاہر ہے جو لڑکا میٹرک سائنس پڑھ کر آئے گا، وہ آگے ازخود ایف اے یا ایف ایس سی، بی ایس سی وغیرہ کرنا چاہے گا۔ مجھے بتایا گیا کہ جامعتہ الرشید اپنے طلبہ کی بھرپور حوصلہ افزائی کرتی ہے کہ وہ درس نظامی کے ساتھ آگے اعلیٰ عصری تعلیم بھی حاصل کریں۔ آٹھ سال کا درس نظامی ہے تو بیشتر طلبہ ساتھ بی ایس سی آنرز وغیرہ کرلیتے ہیں۔ بہت سے ماسٹرز کے بعد ایم فل بھی کر لیتے ہیں۔ یوں فارغ التحصیل ہوتے ہوئے درس نظامی کے ساتھ ان کے ہاتھ میں ماسٹر، ایم فل کی تسلیم شدہ ڈگریاں بھی ہوتی ہیں۔ جامعتہ الرشید میں سب سے پہلے تحفیظ القرآن یعنی حفظ کرانے کا سیکشن ہے۔ یہ سٹیٹ آف دی آرٹ ہے ، طلبہ کی اپنی الگ یونیفارم ہے۔ اس کے بعد درس نظامی ہے جس میں اردو میڈیم کے ساتھ عربی میڈیم بھی موجود ہے۔ عصری علوم کی کلاسز ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ ہرروز درس نظامی کے پیریڈز کے ساتھ ہی انگریزی، آئی ٹی ، سائنس وغیرہ کے پیریڈ ہوں گے جن میں حاضری لازم ہے۔ آٹھ عالمی زبانیں بھی پڑھائی جاتی ہیں جن میں انگریزی، عربی، چینی، ترکی، فرنچ وغیرہ شامل ہیں۔ طلبہ کے رجحان کے دیکھتے ہوئے اسے ان عالمی زبانوں میں سے کسی ایک میں زیادہ مہارت کے لئے تعاون کیا جاتا ہے۔ ایک مزے کی چیز یہ ہے کہ درس نظامی کے طلبہ کو باقاعدہ طور پر آئین پاکستان، انٹرنیشنل لا، پاکستانی پارلیمنٹ کے سسٹم ، قانون سازی، ووٹنگ، سیاست اور گورننس کے بنیادی اصولوں وغیرہ کی تعلیم دی جاتی ہے، اس مقصد کے لئے انٹرنیشنل لا کے ماہرین کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے ریٹائر بیوروکریٹ بھی ہائر کئے گئے ہیں جو حکومت کے بنیادی فنکشن پر لیکچرز دیتے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ طالب علم جب باہر نکلے تو اسے ان تمام چیزوں کا اچھی طرح سے اندازہ ہو۔ مجھے جامعتہ الرشید کے مفتی کورسز پسند آئے۔ دیگر مدارس میں عام طور سے درس نظامی کے بعد دو سال کا مفتی یا تخصص کورس ہوتا ہے۔یہ کورس کرنے والا کچھ عرصہ دارالافتا میں گزارنے کے بعد فتویٰ دے سکتا ہے۔ جامعتہ الرشیدکے مفتی یا تخصص کورسز زیادہ جامع اور منفرد نوعیت کے ہیں۔پانچ کورسز ہیں۔ ایک کورس میں مفتی کو اسلامک فنانس میں ایم ایس سی کرنا پڑتی ہے تاکہ اسے کامرس، بزنس، بنکنگ وغیرہ کا اندازہ ہو اور ان امور پر وہ فتویٰ دے سکے۔ مفتی کے ایک الگ کورس میں حلال فوڈ کی تعلیم حاصل کرنا پڑتی ہے، خوراک کے اجزا، فوڈ کلرز وغیرہ کی معلومات، تاکہ حلا ل وحرام کے حوالے سے سائنسی معلومات رکھنے والا مفتی فتویٰ دے۔ ایک کورس میں ایل ایل بی لازمی ہے۔ ایک تخصص کورس عربی سے متعلق ہے، اتنی مہارت ہوجائے کہ ترجمان کے طور پر بھی کام کر سکے ۔ ایک تخصص حدیث سے متعلق ہے۔ جامعتہ الرشید کے یہ کورسز اور اس کا سٹرکچر بظاہر بہت ہی مبالغہ آمیز اور خیالی سا لگتا ہے۔ جامعہ کے ذمہ داران نے مگر یہ ناممکن سا کام ممکن بنا دیا ہے۔ اسے جا کر دیکھنے اور اس ماڈل کو دیگر شہروںمیں پھیلانے کی اشد ضرورت ہے۔ (جاری ہے)