15اکتوبر2022ء کو یہ انکشاف ہوا کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے چند یوم قبل پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے متعلق بے بنیاد بیان دیا۔امریکی صدرکے ان ریمارکس نے ایک بار پھر اس امر پر مہر تصدیق ثبت کردی کہ امریکہ پاکستان کادشمن اوربھارت کا یار ہے۔ بھارتی میڈیاکل سے بغلیں بجا رہا ہے اور امریکہ کے صدر کی تعریف وتوصیف میں لگا ہوا ہے ۔ بھارت اور پاکستان کی جوہری پیش قدمی قریباً پچاس برس پر محیط ہے جبکہ اس نصف صدی سے متعلق افشا کی جانے والی ہزاروں امریکی دستاویزات سے علم ہوتا ہے کہ جوہری صلاحیت سے ہتھیاروں کے حصول کے سفر میں واشنگٹن نے ہمیشہ بھارت کے لیے نرم گوشہ رکھا جبکہ پاکستان کے حصہ میں دباؤ، بندشیں اور پابندیاں آئیں۔ جبکہ اس خطے میں بھارت سے کہیں زیادہ پاکستان ایک ذمہ دار ایٹمی ملک ہے جس کا جوہری پروگرام ایک محفوظ کمانڈ اینڈ کنٹرول میں ہے ۔ ا س میں کوئی شک نہیں کہ خطے میں بھارت کاجوہری پروگرام بے ترتیب اورغیرمنظم ہے ۔دستاویزی ثبوت ،دلائل کی بنیاد پر یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ جوہری تصادم یاجوہری پھیلائو کا خطرہ بھارت کی طرف سے موجود ہے لیکن امریکہ اس کا سرپرست بن چکا ہے اس لئے وہ ثابت شدہ ثبوتوں سے جان بوجھ کرآنکھیں چرا رہا ہے۔گذشتہ برس دو اہم واقعات رپورٹ ہوئے ہیں کہ جو پوری دنیاکے لئے الارمنگ ہیں۔دونوں واقعات کی رپوٹنگ کسی دوسرے نے نہیں بلکہ خود بھارت کے کثیرالاشاعت انگریزی اخبارات نے کی ۔ 4جون 2021ء بھارتی اخبار انڈین ایکسپریس نے بھارتی ریاست جھارکھنڈ پولیس سپرنٹنڈنٹ چندن جھا کے حوالے سے لکھا ہے کہ انھوں نے بلیک مارکیٹ میں یورینیم رکھنے اور اسے فروخت کرنے کی منصوبہ بندی کرنے کے الزام میں جھارکھنڈ کے بوکارو ضلع سے سات افراد کو گرفتار کیا جن کے قبضے سے ساڑھے 6 کلوگرام یورینیم ضبط کرلی گئی ۔ اس سے قبل 10مئی 2021ء کو بھی بھارت کی نیشنل انوسٹیگیشن ایجنسی (این آئی اے) نے ممبئی میں دو افراد کو گرفتار کرکے ان کے قبضے سے 7 کلو گرام یورینیم برآمد کی تھی۔ اے ٹی ایس کے تفتیشی افسرں کے مطابق اس یورینیم کو تجزیے کے لیے ٹرامبے میں واقع بھابھا اٹامک ریسرچ سینٹر بھیجا گیا تھا۔ جس پراٹامک سینٹر نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ یہ مادہ قدرتی یورینیم ہے اوریہ 90 فیصد سے زیادہ خالص ہے جو انتہائی تابکار ہے جو انسانی زندگی کے لیے خوفناک اور خطرناک ہے۔ اس کے برعکس پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ جب سے وہ جوہری اورایٹمی ملک بنا ہے کہیں سے بھی یورنیم کی فروختگی کا ایک بھی واقعہ سامنے نہیں آیا اوریہ کرداروعمل پاکستان کے ایک ذمہ دارایٹمی ملک ہونے کی تصدیق کرتا ہے ۔ بھارت میں مسلسل ہونے والے ان واقعات پر5 جون2021ء کوپاکستان نے دنیا کو مطلع کرتے ہوئے کہا کہ بھارت میںیورنیم کی کھلی فروخت کا یہ معاملہ انتہائی سنگین نوعیت کا ہے جس نے پورے خطے میں تشویش کو بڑھا دیا ہے۔ بھارت میں یورینیم کے غیرقانونی قبضے اور فروخت کے تسلسل سے ہونے والے واقعات پرفوری طور پرنوٹس لیا جائے اور بھارت کے اس انتہائی غیرذمہ دارانہ رویے پر عالمی سطح پر مکمل تحقیقات، ایٹمی مواد کے استعمال کرنے والوں کی شناخت، پھیلاؤ کی روک تھام اور سخت حفاظتی اقدامات پر بھارت سے جواب طلب کیا جائے ۔پاکستان کا کہنا تھا کہ ان واقعات سے بھارت میں کنٹرول، ریگولیٹری اور نفاذ کے ناقص طریقہ کار کے ساتھ ساتھ بھارت میں جوہری مواد کی بلیک مارکیٹ کے ممکنہ وجود کی نشاندہی ہوتی ہے۔ پاکستان نے دنیائے عالم کی تمام جوہری قوتوں سے مخاطب ہوکرکہا کہ کہ یہ بات انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ یورینیم کی فروخت کی کوشش کرنے والے اور حتمی صارف کا مقصد معلوم کیا جائے اور پتہ چلایا جائے کہ یہ کہاں استعمال ہونا تھا تاکہ بین الاقوامی امن وسلامتی کی پاسداری ممکن ہو سکے اور عالمی سطح پر ایٹمی عدم پھیلاؤ کا تقدس برقرار رہے۔ لیکن پاکستان کے پرزور مطالبے اورحساس نوعیت کے معاملے پر کسی نے توجہ نہ دی۔ بھارت نے اپنا پہلا ریسرچ ری ایکٹر سال 1956ء میں کینیڈا کی مدد سے اور پہلا پلوٹونیم ری پروسیسنگ پلانٹ سال1964ء میں بنایا اور بھارت نے1974ء میں جوہری قوت حاصل کرلی جس کے باعث علاقے میں طاقت کا توازن بدل گیا۔ اپنے ازلی اورابدی دشمن بھارت کے مہیب چہرے اوراس کے ناپاک عزائم کودیکھتے ہوئے پاکستان نے بھی ایٹمی قوت بننے کا عزم کیا۔ پاکستان نے اٹامک انرجی کمیشن سال1956ء میں اس خیال سے قائم کیا تاکہ وہ آئزن ہاور انتظامیہ کے اعلان کردہ ایٹم فار پیس پروگرام میں حصہ لے سکے۔1960ء میں ذوالفقار علی بھٹو، ایوب خان کی کابینہ میں وزیر معدنیات اور قدرتی وسائل بنے تو ڈاکٹر عشرت ایچ عثمانی کو اٹامک انرجی کمیشن کا چیئرمین مقرر کیا گیا۔1965 ء کے وسط میں بھٹو نے انڈیا کی جوہری صلاحیت کے برابر ہونے کا عہد کچھ یوں کیا’’انڈیا بم بناتا ہے تو ہم گھاس یا پتے کھا لیں گے، بھوکے بھی سو جائیں گے، لیکن ہمیں اپنا بم بنانا ہو گا۔ ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے‘‘۔مگر پھر اسی برس پاکستان کو ہتھیاروں کی فراہمی پر پابندی عائد کرنے کے بعد صدر لِنڈن جانسن نے پاکستان انڈیا جنگ کے تناظر میں پاکستان کو دی جانے والی امریکی فوجی امداد بھی بند کر دی۔ 1982ء تک، پاکستان کو امریکا کی طرف سے دبائو کاسامنا رہا۔ بھٹو نے سال1969ء میں شائع ہونے والی اپنی کتاب( The myth of independence) میں لکھا ہے کہ پاکستان کے لیے جوہری ہتھیاروں کا حصول ضروری ہے۔ 20 دسمبر1971ء کو بھٹو پاکستان کے صدر بنے۔ جوہری موضوعات پر لکھنے والے کیری سبلیٹ کے مطابق 24 جنوری1972ء کو صدر ذوالفقار علی بھٹو نے ملتان میں سرکردہ سائنسدانوں کی ایک خفیہ میٹنگ میں پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کے حصول کا اعادہ کیا۔ بھٹو نے سائنسدانوں سے براہ راست خطاب میں انھیں جوہری ہتھیاروں کے بارے میں اپنے تصور کی ایک جھلک پیش کی۔ ایک تھکادینے والے اورمشکل سفرکو طے کرنے کے بعدبالآخرپاکستان1998ء میں ایٹمی طاقت بنا لیکن اس پورے سفر میں امریکہ نے پاکستان کوقدم قدم پرقدغیں عائد کیں۔