گزشتہ ہفتے بھارت کی مودی سرکار نے بھارت میں شہریت حاصل کرنے کے ترمیمی بل (CAA 2019) پر عمل درآمد کرنے کا اعلان کر دیاہے جس کے مطابق تین ممالک، پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے ایسے افراد جو غیر قانونی طور پر ہی سہی ، 31 دسمبر 2014 سے قبل بھارت میں آباد ہوئے تھے اور انکا تعلق ہندو، سکھ، بدھ مت، جین، پارسی یا کرسچین مذہب سے ہے تو وہ بھارت کی شہریت حاصل کر سکتے ہیں۔ ویسے تو یہ قانون 2019 میں پاس ہوا تھا لیکن اس کے بعد بھارت میں ایک جانب اس سیاہ قانون کے خلاف ملک گیر احتجاج شروع ہو گئے تو دوسر ی جانب BJP اور RSS کے غنڈوں نے اس بل کو بنیاد بنا کے ایسے مسلمانوں کے خلاف تحریک شروع کر دی جو کئی دہائیوں سے بھارت میں مقیم ہیں۔ فسادات کی وجہ سے اس وقت اس بل پر عمل درآمد روکنا پڑا لیکن اب جب بھارت میں ایک بار پھر الیکشن سر پر ہیں اور مودی سرکار تیسری بار الیکشن جیتنے کے لیے ہندو ووٹ پکا کرنا چاہ رہی ہے تو الیکشن کے اعلان سے بالکل پہلے اس بل پر عمل درآمد کے اعلان کو ایک ’’سیاسی سٹنٹ ‘‘ ہی سمجھا جا سکتا ہے۔ بظاہر یہ قانون برسوں قبل بھارت آ کر بس جانے والے والوں کو حقوق دینے کے لیے بنایا گیا ہے۔ لیکن اس کے کچھ ایسے سیاہ پہلو بھی ہیں جو مودی سرکار کی اصل نیت کو آشکار کرتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ یہ ایک امتیازی قانون ہے کیونکہ اس میں صرف تین ممالک یعنی پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے آنے والے افراد کے بارے میں بات کی گئی ہے۔ دنیا کے باقی ممالک کے بارے میں نہیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ یہ قانون ان تینوں ممالک سے آنے والے تمام افراد کے لیے بھی نہیں ہے بلکہ اس میں یہ شق بھی شامل ہے کہ اس قانون سے صرف وہ افراد فائدہ اٹھا سکتے ہیں جو مخصوص مذاہب سے تعلق رکھتے ہوں، دوسرے اور آسان الفاظ میں کوئی مسلمان اس قانون سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ بین الاقوامی قوانین کو دیکھا جائے تو یہ نیا بھارتی قانون ان کی کھلی خلاف ورزی ہے کیونکہ یہ مذہب کی بنیاد پر کچھ لوگوں (مسلمانوں) کے ساتھ امتیازی سلوک برت رہا ہے۔ کسی بھی ملک کا کوئی بھی قانون کسی بھی انسان سے مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک نہیںکرتا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل بھارت کے سربراہ، ’’آکار پانڈے‘‘ کے مطابق یہ قانون عالمی قوانین اور خود بھارتی آئین کے خلاف ہے لیکن بھارتی سرکار بھارتی عوام، سول سوسائٹی، انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اور یہاں تک کہ اقوام متحدہ کی سننے کو تیار نہیں۔ اسی طرح اب مقبوضہ کشمیر کے کسی بھی مسلمان پر یہ الزام لگا کر کہ اس نے دستاویزی ثبوت سے حکومت کو اس بات پر مطمئن نہیں کیا کہ وہ بھارتی شہری ہے، اس کی بھارتی شہریت منسوخ اور اس کے تمام انسانی حقوق سلب کر کے اسکوکہا جائے گا کہ یا تو بھارت چھوڑ دو اپنی تمام باقی عمر جیل میںگزارو۔ اس قانون میں ایک اور شِق بھی شامل ہے جو لگتی تو بے ضرر سی ہی لیکن میرے خیال میں بہت مکار ی سے صرف سکھوں اور کشمیری مسلمانوں کے خلاف استعمال کے لیے بنائی گئی ہے۔ وہ یہ کہ ایسے بھارتی جو بیرون ملک کے رہنے والے یعنی Overseas Indians اگر بھارت کے کسی قانون کی خلاف ورزی کریں گے تو انکی بھارتی شہریت ختم کی جا سکتی ہے۔ یہ بھی بنیادی انسانی حقوق اور تمام بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہے۔ اگر کسی ملک کا کوئی شہری اس ملک کا کوئی قانون توڑتا ہے تو اسے اس قانون شکنی کی سزا تو دی جا سکتی ہے یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ اسکی شہریت ہی ختم کر دیں؟ دوسرا یہ کہ قانون کے اس حصے کے متعلق مودی سرکار کی اصل مکاری یہ ہے کہ آگے چل کر اسے مسلمانوں اور سکھوں کے خلاف استعمال کیا جائے گا۔ خالصتان کے حامی سکھوں کی بہت بڑی تعداد کینیڈا اور دوسرے یورپی ممالک کی شہریت رکھتی ہے اور وہاں مقیم ہے۔ اب اگر کوئی سکھ بھارت کے خیال میں سکھوں کے حقوق اور آزادی کے لیے آواز بلند کر رہا ہے تو بھارت اس پر کوئی بھی بھارتی قانون توڑنے کا الزام لگا کر اسکی بھارتی شہریت ہی ختم کر دے گا۔ اسی طرح مقبوضہ کشمیر اب بھارتی دعویٰ کے مطابق بھارت کا حصہ ہے اور بھارت کسی بھی ایسے کشمیری جو کسی بیرون ملک کی شہریت بھی رکھتا ہے لیکن کشمیر کی آزادی کے لیے جذبات رکھتا ہو کسی بھی بھارت قانون کی خلاف ورزی کا الزام لگا کر اسکی بھارتی شہریت ختم کر دے گا۔ بظاہر سیکولرزم بھارت کی ریاست کی بنیاد اور آئین کی روح ہے۔ لیکن مودی اور RSS کے موجودہ بھارت میں ہندو مذہب کے علاوہ کسی مذہب یا گروہ یا اقلیت کو زندہ رہنے کی اجازت نہیںاور انکے لیے واحد راستہ ’ ’ ہندو شناخت‘‘ اور واحد منزل ’’ ہندو راشٹرا‘‘ کا قیام ہے۔ ’’سوامی ونایک دامودر‘‘ کے دیے ہوئے نظریے ’’ ہندوّتا ‘‘ کے مطابق ’’ اکھنڈ بھارت‘‘ صرف ہندوئوں کی اونچی ذاتوں کے لیے ہے، اور ہر غیر ہندو کو چاہئے کہ یا وہ اپنا مذہب چھوڑ کر ہندو ہو جائے یا بھارت چھوڑ دے۔ تقسیم ہند دو قومی نظریے کی بنیاد پر ہوئی تھی جبکہ ’’ اکھنڈ بھارت‘‘ کے حامیوں کا کہنا تھا کہ بھارت میں رہنے والے ہر شخص کو ، چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو ، صرف ’’ بھارتی‘‘ کی حیثیت سے تمام حقوق حاصل ہونگے۔ لیکن گزشتہ کچھ برسوں سے بھارتی حکومت کی پالیسیوں، خاص طور پر کشمیر میں اسکے اقدامات اور نئے نئے سیاہ قوانین نے ثابت کر دیا ہے کہ دو قومی نظریہ بالکل درست تھا اور موجودہ دور کا بھارت صرف ہندو دھرم سے تعلق رکھنے والوں کے لیے ہے۔ کم از کم مسلمانوں کے لیے تو بالکل نہیں ہے۔ ’’ ہندو بالادستی‘‘ کے لیے بننے والی بھارتی پالیسیاں اور اقدامات بلا شبہ تمام خطے اور خاص طور پر بھارتی مسلمانوں کے لیے نہایت خطرناک ہیں لیکن در اصل یہ سب بھارت دشمنی پر مبنی ہیں کیونکہ بھارت کی ہندو سرکار اپنے ملک میں نفرت ، انتہا پسندی اور مذہبی دہشت گردی کے جو بیج بو رہی ہے اسکی فصل بھارتی عوام کو کئی نسلوں تک کاٹنی پڑے گی۔